چینی افسانہ
( 1918, Kuángrén rìjì )
لو شَن ( Lu Hsün )
میں جن دنوں ہائی سکول کا طالب علم تھا ، میرا دوبھائیوں ، جن کا یہاں نام بتانا ضروری نہیں ہے ، کے ساتھ گہرا دوستانہ تھا ۔ ہم برسوں جدا رہے ، یوں میرا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا ۔ کچھ عرصہ قبل ، مجھے اتفاق سے پتہ چلا کہ ان میں سے ایک شدید بیمار ہے ۔ میں چونکہ اپنے آبائی گاﺅں جا رہا تھا ، اس لیے مجھے ، ان سے ملنے کے لیے ، راستے میں ہی ، ان کے ہاں رُکنا پڑا ۔ میری ملاقات ان میں سے ایک سے ہی ہو سکی ، جس نے مجھے بتایا کہ جو بیمار ہوا تھا وہ اس کا چھوٹا بھائی تھا ۔
” مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے اور میں اس بات کی قدر کرتا ہوں کہ آپ اتنی دور سے ہمیں ملنے آئے ۔“ ، اس نے کہا ، ” لیکن وہ کچھ عرصہ پہلے صحت یاب ہو گیا اور اب وہ کار ِسرکار کے لیے کسی اور جگہ جا چکا ہے ۔“ ، پھر اس نے ہنستے ہوئے ، مجھے اپنے بھائی کی ڈائری کی دو جلدیں نکال کر دیں اور کہا کہ ان سے ، اس کی سابقہ علالت کی نوعیت جانی جا سکتی تھی ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ایک پرانے رفیق کو یہ ڈائری دکھانے میں کوئی ہرج نہیں تھا ۔ میں وہ جلدیں گھر لے گیا اور انہیں پورا پڑھ ڈالا ۔ مجھے لگا جیسے وہ اس احساس کا شکار رہا ہو کہ دوسرے اسے ایذاء پہنچا سکتے تھے ۔ اس کی تحریر انتہائی بے ربط اور الجھی ہوئی تھی ۔ اس کے بعض فقرے حد درجہ بے معانی تھے اور اس نے تاریخیں بھی نہ لکھی تھیں ؛ ہاں البتہ مختلف رنگوں کی روشنائیوں کے استعمال اور مختلف طرز تحریر یہ عندیہ دیتے تھے کہ یہ تحاریر ایک ہی نشست میں نہیں لکھی گئی تھیں ۔ ان میں بہرحال ، کچھ ایسے بھی حصے تھے جو بے ربط نہیں تھے ۔ میں نے ان کو اس لیے نقل کر لیا ہے کہ یہ طبی تحقیق کے حوالے سے بطور ایک موضوع کام آ سکیں ۔ میں نے اس ڈائری کی کسی بھی غیر منطقی بات کو تبدیل نہیں کیا ، ہاں البتہ لوگوں کے نام بدل دئیے ہیں ؛ گو یہ لوگ عام دیہاتی ہیں ، جن کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی اہمیت ہے ۔ رہا سوال عنوان کا ، تو وہ ڈائری لکھنے والے نے ، اپنے صحت یاب ہونے پر، خود ہی رکھا تھا اس لئے میں نے اسے نہیں بدلا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2 ، اپریل 1918ء
I
آج کی رات چاند بہت روشن ہے ۔
میں نے اسے تیس برسوں سے ایسا نہیں دیکھا اس لیے اسے آج دیکھ کر مجھے غیر متوقع طور پر انوکھی خوشی محسوس ہوئی ہے ۔ مجھے احساس ہونے لگا جیسے میں تیس سال سے اندھیروں میں جی رہا تھا ؛ لیکن اب مجھے بہت محتاط رہنا ہو گا ۔ سوچنے کی بات ہے کہ مسٹرچاﺅ کے گھر کے کتے نے مجھے دو بار کیوں گھورا ؟
میرا خوف بے وجہ نہیں ہے ۔
II
آج کی رات تو چاند ہے ہی نہیں اور مجھے معلوم ہے کہ اچھا شگون نہیں ہے ۔ آج صبح جب میں احتیاط برتتے ہوئے باہر نکلا تو مسٹرچاﺅ ، مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے ، جیسے وہ مجھ سے خوفزدہ ہوں ، جیسے وہ مجھے قتل کر دینا چاہتے ہوں ۔ وہاں سات آٹھ لوگ اور بھی تھے جو میرے متعلق سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے اورجب میں نے ان پر نگاہ ڈالی تو وہ ڈر سے گئے ۔ میں جن لوگوں کے پاس سے گزرا ، ان کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ ان میں سے جو زیادہ کرخت و درشت تھے ، انہوں نے تو مجھے دانت پیس کر گھورا بھی ، جس نے مجھے سر تا پاﺅں لرزا دیا ۔ میں جانتا تھا کہ انہوں نے اپنی تیاریاں مکمل کر لی تھیں ۔
میں ، بہرحال ، خوفزدہ نہ ہوا اور اپنی راہ چلتا رہا ۔ سامنے بچوں کا ایک گروہ بھی میرے بارے میں محو گفتگو تھا ۔ ان کی نظروں میں بھی مسٹر چاﺅ کی سی وحشت تھی اور ان کے چہروں پر بھیانک زردی چھائی ہوئی تھی ۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ ان بچوں کو مجھ سے کیا عداوت ہو سکتی تھی جس کی بِنا پروہ ایسا رویہ اپنائے ہوئے تھے ، میں خود کو باز نہ رکھ سکا اور ان پر چِلایا ؛ ” مجھے بتاﺅ! “ ، یہ سن کر وہ وہاں سے بھاگ گئے ۔
میں حیران ہوں ، بھلا ، مسٹر چاﺅ کو مجھ سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے ۔ ۔ ۔ ؟ سر ِ راہ چلنے والوں کو مجھ سے کیا دشمنی ہے ؟ مجھے کچھ پتہ نہیں سوائے اس بات کے ، کہ میں نے بیس سال قبل مسٹر’ کو چیو ‘ کے ، گزشتہ کئی سالوں پر محیط ’ بہی کھاتوں‘ کو پیروں تلے روندا تھا ۔ اس پر مسٹر کو چیو مجھ سے خاصے ناراض ہوئے تھے ۔ مسٹر چاﺅ ، حالانکہ ، مسٹر کو چیو کو نہیں جانتے لیکن انہوں نے اس بارے میں سن لیا ہو گا اوراُن کا بدلہ لینے کی ٹھانی ہو گی ۔ وہ اب ، اسی لیے ، راہ گیروں کے ساتھ مل کر میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ۔ لیکن بچوں کو کیسے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ یہ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ، پھر انہوں نے آج مجھے عجیب نظروں سے کیوں دیکھا ، جیسے مجھ سے خوفزدہ ہوں ، جیسے مجھے جان سے مار دینا چاہتے ہوں ؟ اس بات نے مجھے ڈرا دیا ہے اور یہ امر میرے لیے تشویش اور الجھن کا باعث ہے ۔
مجھے پتہ ہے ۔ یہ بات انہوں نے اپنے والدین سے جانی ہو گی !
III
میں راتوں کو سو نہیں سکتا ۔ اگر کوئی یہ سب سمجھنا چاہتا ہو تو ساری باتوں پر دھیان سے غور کرنے کی ضرورت ہو گی ۔
وہ لوگ ۔ ۔ ۔ ان میں سے کچھ کو تو مجسٹریٹوں نے عقوبت خانوں میں بھجوا دیا تھا ، کچھ کے منہ پر اشرافیہ نے سر بازار چانٹے مارے تھے ، کچھ کی بیویوں کو قرقی کرنے والے اٹھا لے گئے اور کچھ کے بیچارے بوڑھے ماں باپ ، قرض خواہوں کے ہاتھوں خودکشی پر مجبور ہو گئے تھے ۔ وہ پہلے تو کبھی اتنے خوفزدہ نہ تھے اور نہ ہی تُند خو، جتنا کہ وہ کل دکھائی دے رہے تھے ۔
سب سے غیر معمولی بات تو یہ تھی کہ کل ، گلی میں ایک عورت اپنے بچے کو مار رہی تھی اور کہہ رہی تھی ؛ ” ننھے شیطان ، میں تیری بوٹیاں نوچ کھاﺅں گی ۔ ۔ ۔ ۔ تبھی میرا غصہ ٹھنڈا ہو گا ! “ ، مار وہ اپنے بچے کو رہی تھی لیکن ٹکر ٹکر دیکھے مجھے جاتی تھی ۔ میں خود کو روک نہ پایا اور اس کی جانب بڑھا ؛ تبھی وہ سبز چہرے اور لمبے دانتوں والے لوگ مجھ پر آوازے کسنے لگے اور قہقہے مارنے لگے ۔ بابا ’ چھن ‘ جلدی سے آگے بڑھا اور مجھے گھسیٹتا ہوا گھر لے گیا ۔
وہ ، جب ، مجھے لیے گھر پہنچا توسب گھر والوں نے بھی ایسے ظاہر کیا جیسے وہ مجھے نہ جانتے ہوں ؛ ان کی نظریں بھی ویسی ہی تھیں جیسی دوسرے لوگوں کی تھیں ۔ اور جب میں ، مطالعہ گاہ میں گیا تو انہوں نے باہر سے دروازے پر ایسے تالا لگایا جیسے کسی مرغی یا بطخ کو ڈربے میں بند کیا جاتا ہے ۔ اس واقعے نے مجھے اور بھی حیران کر دیا ۔
چند روز قبل ، ہمارا ایک مزارع ، ’ لانگ زے ‘* نامی گاﺅں سے یہ خبر لے کر آیا کہ اس بار فصلیں بالکل تباہ ہو گئی تھیں ۔ پھر اس نے میرے بھائی کو یہ بھی بتایا کہ اس کے گاﺅں کے ایک بدنام شخص کو اتنا مارا گیا کہ وہ مر گیا ؛ تب کچھ لوگوں نے اس کا دل اور کلیجہ باہر نکالا اور اسے تیل میں تَل کر کھا گئے تاکہ ان کی ہمت میں اضافہ ہو سکے ۔ میں نے جب ، دخل اندازی کرنا چاہی تو مزارع اور میرے بھائی ، دونوں نے مجھے گھورا ۔ مجھے آج ہی یہ احساس ہوا ہے کہ اس وقت ان کی نظروں میں بھی وہی کچھ تھا جو باہر کے لوگوں کی آنکھوں موجود تھا ۔ میں جب بھی اس بارے میں سوچتا ہوں تو میرے بدن پر سر تا پاﺅں کپکپی طاری ہو جاتی ہے ۔
وہ انسانوں کو کھاتے ہیں ، تو وہ مجھے بھی کھا سکتے ہیں ۔
مجھے لگتا ہے کہ عورت نے جو کہا ؛ ” تمہاری بوٹیاں نوچ کھاﺅں گی“ ، سبز چہرہ اور لمبے دانتوں والے لوگ ، گزرے دن مزارع کی بتائی کہانی ، یقیناً خفیہ اشارے ہیں ۔ میں ان کی باتوں میں زہر اور ان کے قہقہوں میں چھپے خنجروں کو محسوس کر سکتا ہوں ۔ ان کے دانت سفید اور چمکیلے ہیں ؛ وہ سب آدم خور ہیں ۔
میں، گو ، برا آدمی نہیں ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ جب سے میں نے مسٹر کُو کے بہی کھاتوں کو روندا ، میں تب سے بے یقینی کا شکار ہوں ۔ لگتا ہے ان کے پاس ایسے راز ہیں ، جن کا میں اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرا بڑا بھائی مجھے مضمون نگاری کے درس دے رہا تھا تو چاہے کوئی بندہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہوتا اور میں اس کی برائیاں پیش کرتا تو وہ اس پیرے پر نشان لگا کر اپنی رضا کا اظہار کرتا ؛ لیکن جب میں کسی پاپی کے پاپ نظر انداز کر دیتا تو وہ کہا کرتا ؛ ” یہ تمہارے لیے اچھا ہے، یہی تخلیقیت ہے ۔“ ، میں ان کی خفیہ سوچوں کا اندازہ کیسے لگا سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ خاص طور پر اس وقت ، جب وہ انسانوں کو کھانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ؟
اگر کوئی بندہ سمجھنا چاہے تو اسے محتاط انداز میں چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر میں یاد کروں تو قدیم زمانوں میں لوگ اکثر انسانوں کو کھا لیتے تھے لیکن میں اس کے بارے میں تشکیک کا شکار ہوں ۔ میں نے اس پر غور کرنا چاہا ، لیکن میری تاریخ میں اس کی تقویم نہیں ہے اور ہر صفحے پر بس یہی دو لفظ لکھے ہوئے ہیں ؛ ” صِفات اور اخلاقیات “ ۔ میں چونکہ سو نہیں پا رہا تھا ، اس لیے میں ارادتاً ، نصف شب تک مطالعہ کرتا رہا یہاں تک کہ مجھے ان لفظوں کے بین السطورپوشیدہ معانی نظر آنے لگے ، ساری کتاب ہی ان دو لفظوں سے بھری ہوئی تھی ۔ ۔ ۔” لوگوں کو کھاﺅ “
کتاب میں لکھے سارے الفاظ ، ہمارے مزارع کے کہے سارے الفاظ ، چیستانی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی عجیب سی گھوری ، ان سب کا کیا مطلب تھا ۔
میں بھی تو لوگوں میں سے ایک ہوں اور وہ مجھے کھانا چاہتے ہیں !
IV
صبح کے وقت میں کچھ دیر کے لیے خاموش بیٹھا رہا ۔ بابا چھن میرے لیے کھانا لے کر اندر آیا ؛ ایک پیالہ سبزیوں کا تھا جبکہ دوسرے میں بھاپ میں پکی مچھلی تھی ۔ مچھلی کی آنکھیں سفید اور سخت تھیں اور اس کا منہ ، ان لوگوں کی مانند کھلا ہوا تھا جو انسان کھانا چاہتے تھے ۔ چند نوالے لینے کے بعد میں اس قابل نہ رہا کہ بتا سکوں کہ چکنے لقمے مچھلی کے تھے یا انسانی گوشت کے ، میں نے ، چنانچہ ، سب باہر اُگل دیا ۔
میں نے کہا ، ” باباچھن ! میرے بھائی کو بتاﺅ کہ مجھے لگتا ہے جیسے میرا دم گھٹ رہا ہو اور یہ بھی کہ میں باغ میں چہل قدمی کرنا چاہتا ہوں ۔ “ ، بابا چھن خاموش رہا اور باہر چلا گیا ۔ وہ پھر واپس آیا اور اس نے دروازہ کھول دیا ۔
میں ساکت رہا ، مجھے احساس ہو رہا تھا کہ انہوں نے مجھے باہر جانے نہیں دینا تھا ، میں چنانچہ ، یہ دیکھتا رہا کہ انہوں نے میرے ساتھ کیا سلوک کرنا تھا ۔ میرا اندازہ درست تھا ! میرا بڑا بھائی آہستہ آہستہ چلتا ہوا آیا ، اس کے پیچھے ایک بوڑھا آدمی تھا ۔ اس کی آنکھوں میں ایک قاتلانہ چمک تھی اور اسے ڈر تھا کہ میں کہیں یہ دیکھ نہ لوں ، اسی لیے اس نے اپنا سر جھکا رکھا تھا اور وہ نظریں چُرا کر، عینک کے کونوں سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔
” آج تم کافی بہتر دکھائی دے رہے ہو ۔ “ ، میرے بھائی نے کہا ۔
” ہاں “ ، میں نے جواب دیا ۔
” میں نے مسٹر ’ خہ‘ کو بلایا ہے ۔ “، میرے بھائی نے کہا ، ” تاکہ وہ تمہارا معائنہ کریں ۔ “
” ٹھیک ہے ۔“ ، میں نے کہا ۔ مجھے اصل میں یہ اچھی طرح پتہ تھا کہ یہ بوڑھا ، طبیب کے بہروپ میں ایک جلاد تھا ! اس نے یہ دیکھنے کے لیے کہ میں کتنا موٹا تھا ، میری نبض دیکھنے کا بہانہ بنایا ؛ وہ ایسا اس لیے کر رہا تھا کہ جان سکے کہ میرے گوشت میں سے اسے کتنا حصہ ملنا تھا ۔ میں پھر بھی خوفزدہ نہ ہوا ۔ گو ، میں آدم خور نہیں ہوں لیکن میری ہمت و حوصلہ ان سے کہیں زیادہ ہے ۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو مُکوں کی شکل دی اور انہیں آگے کیا ، تاکہ دیکھ سکوں کہ اس نے کیا کرنا تھا ۔ بوڑھا بیٹھ گیا ، اس نے اپنی آنکھیں بند کیں ، کچھ دیر مجھے ٹٹولا اور پھروہ کچھ دیر ساکت بیٹھا رہا ؛ پھر اس نے اپنی عیار آنکھیں کھولیں اور بولا ؛ ” خود پر قابو رکھو اوراپنی سوچوں کو آوارہ مت ہونے دو ۔ کچھ دن بِنا کچھ بولے خاموشی سے آرام کرواور پھر تم ٹھیک ہو جاﺅ گے ۔“
خود پر قابو رکھو اوراپنی سوچوں کو آوارہ مت ہونے دو! کچھ دن خاموشی سے آرام کرو! جب میں نے قدرتی طور پر فربہ ہو جانا تھا تو ظاہر تھا کہ انہیں کھانے کو زیادہ ملنا تھا ؛ لیکن اس نے میرا بھلا کیا کرنا تھا اور میں نے کیسے ” ٹھیک “ ہونا تھا ؟ یہ سارے لوگ انسانی گوشت کھانا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مکاری کے ساتھ اپنے ظاہری ہییت کو برقرار رکھتے ہوئے ، فوری عمل کرنے کی جرأت بھی نہیں کرنا چاہتے ؛ اس سارے بہروپ کو دیکھ کر میں اپنی ہنسی نہ روک سکا اور اپنے قہقہوں پر قابو نہ پا سکا ۔ میرے لیے یہ باعث ِ تفریح تھا ۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے اس طرح ہنسنے میں میرا اعتماد اور ہمت جھلک رہی تھی ۔ میری پُراعتماد ہنسی اور کُلیت سے ڈر کربوڑھے’ خہ‘ اور میرے بھائی کے چہرے زرد پڑ گئے ۔
لیکن ، میں ، چونکہ زیادہ بہادر ہوں ، اسی لیے ان کی خواہش ہے کہ وہ مجھے جلد از جلد کھا لیں تاکہ انہیں میری ہمت اور حوصلہ مندی میں سے کچھ تو مل سکے ۔ بوڑھا دروازے سے باہر نکل گیا لیکن اس سے قبل کہ وہ زیادہ دور جاتا ، اس نے دھیمی آواز میں میرے بھائی ہے کہا ، ” فوری طور پر کھانے کی ضرورت ہے ! “ ، اور میرے بھائی نے اثبات میں سر ہلادیا ۔ تو تم بھی اس میں شامل ہو ! یہ بڑا اور خوفناک انکشاف ، میرے لیے ایک جھٹکے کا سبب تو بنا لیکن یہ اتنا شدید نہ تھا ، جتنا کہ مجھے توقع تھی ؛ کہ مجھے کھانے کے عمل میں میرا بھائی بھی شامل تھا !
میرا بڑا بھائی بھی آدم خور ہے!
میں ایک آدم خور کا چھوٹا بھائی ہوں !
بھلے سے ، مجھے دوسرے لوگ کھا جائیں لیکن یہ بھی تو ہے کہ میں ایک آدم خور کا چھوٹا بھائی ہوں !
V
گزشتہ چند روز سے ، میں پھر سے سوچ رہا ہوں ؛ فرض کیا کہ بوڑھا بہروپیا نہیں تھا ، جلاد نہیں تھا ، ایک حقیقی ڈاکٹر تھا ؛ بہرحال وہ پھر بھی آدم خور تو تھا ہی ۔ جڑی بوٹیوں کی کتاب جسے اس کے ہی ایک پیش رو ’ لی شی ۔ چھن ‘ ** نے لکھا تھا ، میں واضح طور بیان کیا گیا ہے کہ انسانی گوشت کو اُبالا جا سکتا ہے اور کھایا جا سکتا ہے ؛ تو کیا وہ ابھی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ آدم خور نہیں ہے؟
جہاں تک میرے بڑے بھائی کا تعلق ہے ، میرے پاس ، اس پر شبہ کرنے کی بھی معقول وجوہ ہیں ۔ جن دنوں وہ مجھے پڑھایا کرتا تھا تو اس نے اپنے منہ سے کہا تھا ؛ ” لوگ اپنے بیٹے آپس میں بدل لیتے ہیں تاکہ انہیں کھا سکیں ۔ “ اور پھر ایک بار ایک بد بندے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، اس نے کہا تھا کہ وہ نہ صرف اسی قابل تھا کہ اسے مار دیا جائے بلکہ ” اس کا گوشت کھایا جائے اور اس کی کھال سوتے وقت اوڑھنے کے لیے استعمال کی جائے ۔“ ، میں تب ابھی چھوٹا تھا اور میرا دل کچھ دیر کے لیے تیزی سے دھڑکتا رہا تھا ۔ میرا بھائی ، اس کہانی پر تب بھی حیران نہ ہوا تھا جب اگلے روز ’ لانگ زے ‘ گاﺅں سے آئے ہمارے مزارعے نے ایک بندے کے کلیجے اور دل کھانے کے بارے میں بتایا تھا ۔ وہ تو بس سر ہی ہلاتا رہا تھا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی اتنا ہی ظالم ہے جتنا کہ پہلے تھا ۔ اور جیسا کہ یہ ممکن ہے کہ ” بیٹوں کا تبادلہ کر لیا جائے کہ انہیں کھایا جا سکے ۔“ تو کسی کا بھی تبادلہ کیا جا سکتا ہے اور کسی کو بھی کھایا جا سکتا ہے ۔ ماضی میں ، میں اس کی بیان کردہ تفصیلات ، بس سنتا رہتا تھا اور کچھ نہ کہتا ؛ لیکن اب ، جب وہ اس طرح کی باتیں کرتا ہے تو میں نہ صرف ان کی نوعیت سمجھتا ہوں بلکہ مجھے اس کے ہونٹوں کے کونوں پر انسانوں کی چربی چڑھی نظر آتی ہے اور یہ بھی کہ اس کا دل اسی بات پر تُلا ہوا ہے کہ مزید انسان کھائے ۔
VI
اتھاہ تاریکی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت دن ہے کہ رات ۔ چاﺅ گھر کے کتے نے پھر سے بھونکنا شروع کر دیا ہے ۔
شیر کی خونخواری و دہشت ، خرگوش کی بزدلی و خوفزدگی ، لومڑی کی چالاکی و عیاری ۔ ۔ ۔ ۔
VII
میں ان کے طور طریقے جانتا ہوں ؛ وہ خود سے کسی کو مارنے کے لیے تیار نہیں ، وہ نتائج کے خوف سے اس کی جرا ٔت نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس انہوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور ہر جگہ ایسے پھندے لگا دئیے ہیں کہ مجھے مجبور کر دیں اور میں خود کشی کر لوں ۔ چند روز پہلے ، گلی میں مردوں اور عورتوں کا میرے ساتھ برتاﺅ اور پچھلے چند دنوں میں میرے بڑے بھائی کا رویہ اس بات کے واضح اشارے ہیں ۔ انہیں سب سے زیادہ یہی موزوں لگتا ہے کہ بندہ اپنی پیٹی اتارے اور خود کو چھت کے شہتیر سے ٹانگ کر’ آپ ہتھیا ‘ کر لے ؛ یوں وہ اپنی دلی تمنا کا لطف بھی لے سکیں گے اور قتل کے الزام سے بھی بچے رہیں گے ۔ اسی لیے وہ خوش دلی سے ہنستے رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس ، اگر کوئی بندہ خوفزدہ یا پریشان رہتا ہے اور یوں وہ دبلا پتلا ہو جاتا ہے ، تب بھی وہ رضامندی سے ہی سر ہلاتے رہتے ہیں ۔
وہ مردار ہی کھاتے ہیں ! مجھے یاد ہے کہ میں نے کہیں ایک بھیانک عفریت کے بارے میں پڑھا تھا جس کی نگاہیں مکروہ تھیں اور وہ ” لگڑبھگا “( ہاینا) کہلاتا تھا ، وہ اکثر مردار ہی کھاتا تھا ۔ وہ بڑی ہڈیاں بھی چبا جاتا اور انہیں نگل لیتا ؛ اس کا خیال ہی بندے کو خوفزدہ کرنے کے لیے کافی ہے ۔ لگڑبھگے بھیڑیوں کے تعلق دار ہیں اور بھیڑیے نوکیلے دانت رکھنے والی نوع ِحیات ’ کینس‘ (Canis) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اگلے روز چاﺅ گھر کے کتے نے مجھے متعدد بار دیکھا تھا ؛ سیدھی بات ہے کہ وہ بھی منصوبے میں شامل ہے اور ان کا ساتھی ہے ۔ گو ، بوڑھے نے نظریں نیچی کی ہوئی تھیں لیکن یہ مجھے دھوکہ نہیں دے سکتی تھیں !
میرا بڑا بھائی تو سب سے زیادہ قابل رحم ہے ۔ وہ بھی تو ایک آدمی ہے ، وہ کیوں خوفزدہ نہیں ، اور وہ کیوں دوسروں کے ساتھ مل کر مجھے کھانا چاہتا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جب بندہ عادی ہو جائے تو وہ یہ سوچتا ہی نہیں کہ ایسا کرنا جرم ہے ؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ غلط کر رہا ہے ، اپنا دل پتھر کر لیا ہے؟
میں ، اگر ان آدم خوروں کو کوسوں اور ان پر لعنت بھیجوں تو اس کا آغاز اپنے بھائی سے ہی کروں گا اوراگر ان آدم خوروں کو ایسا کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کروں تب بھی میرا پہلا ہدف میرا بھائی ہی ہو گا ۔
VIII
انہیں تو ، اصل میں ، بہت پہلے ہی ان دلائل سے قائل ہو جاناچاہیے تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی بندہ ، اچانک اندر آیا ۔ وہ لگ بھگ بیس سال کا تھا اور میں اس کی شکل و شباہت ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا ۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی ، لیکن جب اس نے مجھے سلام کرنے کے لیے سر جھکایا تو مجھے اس کی مسکراہٹ مصنوعی لگی ۔ میں نے اس سے پوچھا ؛ ” کیا انسانوں کو کھانا درست ہے؟ “
اس نے مسکراتے ہوئے ہی جواب دیا ؛ ”جب کال نہ پڑا ہو تو بھلا کوئی انسانوں کو کیسے کھا سکتا ہے ؟ “
میں فوراً ہی سمجھ گیا کہ وہ بھی انہیں میں سے ایک تھا ؛ لیکن میں نے پھر بھی ہمت کی اور اپنا سوال دہرایا ؛
” کیا یہ فعل ٹھیک ہے ؟ “
” ایسا کیا ہے کہ تم اس طرح کی بات پوچھتے ہو ؟ تم سچ میں ۔ ۔ ۔ ۔ لطیفوں کے شوقین ہو ۔ ۔ ۔ ۔ آج موسم بہت سہانا ہے ۔ “
” ہاں ، یہ اچھا ہے اور چاند بھی زیادہ تابناک ہے ۔ لیکن میں ، تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں؛ ” کیا یہ ٹھیک ہے ؟ “
لگتا تھا کہ وہ بدحواس ہوگیا تھا اور اتنا ہی بُڑبُڑا سکا ؛ ” نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ “
” نہیں ؟ تو پھر وہ ابھی تک ، ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟ “
” آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟ “
” میں کیسی باتیں کر رہا ہوں؟ وہ ابھی تک’ لانگ زے‘ گاﺅں میں بندے کھا رہے ہیں اور تم دیکھ سکتے ہو کہ یہ تازہ لال روشنائی سے ، کتابوں میں لکھا ہوا ہے ۔“
اس کے چہرے کے تاثرات بدلے اور اس کا چہرہ خوفناک حد تک پیلا پڑ گیا ۔ ” شاید ایسا ہی ہو۔“ اس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا ، ” ایسا ہمیشہ سے ہی ہوتا آیا ہے ۔ ۔ ۔ “
” کیا یہ اسی لیے ٹھیک ہے کہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ؟ “
” میں آپ سے ان چیزوں پرمزید بات نہیں کروں گا ۔ خیر ، آپ کو ایسی باتیں نہیں کرنا چاہییں ۔ جو کوئی بھی اس بارے میں بات کرتا ہے وہ غلط کرتا ہے ! “
میں جھٹکے سے اٹھا اور اپنی آنکھیں پھاڑ کر دیکھا لیکن وہ بندہ غائب ہو چکا تھا ۔ میں پسینے میں بھیگ گیا ۔ وہ میرے بڑے بھائی سے بہت چھوٹا تھا ، لیکن پھر بھی وہ ان میں شامل تھا ۔ یقیناً ، اسے ، اس کے ماں باپ نے یہ سب سکھایا ہو گا ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ اس نے یہی سبق اپنے بیٹے کو پڑھایا ہو گا ، اسی لیے تو بچے بھی مجھے وحشیانہ نظروں سے دیکھتے ہیں ۔
IX
وہ انسانوں کو کھانے کے خواہشمند ہیں اور ساتھ ہی خوفزدہ بھی کہ وہ خود بھی کھائے جا سکتے ہیں ، وہ ایک دوسرے کو حد درجہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ، اگر اس جنون سے چھٹکارا حاصل کرسکتے تو اُن کی زندگی شانت ہو جاتی اور وہ آرام سے کام پر جا سکتے ، گھوم پھر، کھا پی اور سوسکتے ۔ انہیں فقط یہی ایک قدم ہی اٹھانا ہے ۔ لیکن باپ بیٹے، خاوند اور بیویاں ، بھائی ، دوست ، استاد ، شاگرد ، پکے دشمن ، یہاں تک کہ اجنبی بھی جو اس سازش میں شریک ہو چکے ہیں ، ایک دوسرے کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اوریہ قدم اُٹھانے سے منع کررہے ہیں ۔
X
آج صبح سویرے ، میں اپنے بھائی سے ملنے گیا ۔ وہ ڈیوڑھی کے دروازے کے باہر کھڑا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ میں چلتا ہوا گیا اور دروازے اور اس کے درمیان ، اس کی پشت پرجا کھڑا ہوا ۔ میں نے اعتماد بھرے انداز میں انتہائی سکون اور نرمی سے اسے مخاطب کیا ؛
” بھائی ، میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔“
” اچھا ، کیا کہنا چاہتے ہو؟ “، اس نے جلدی سے میری طرف مڑتے اور سر ہلاتے ہوئے پوچھا ۔
” یہ ہے تو معمولی بات ، لیکن مجھے اسے بیان کرتے ہوئے دشواری محسوس ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔ بھائی ، شاید سارے قدیم لوگ شروع میں تھوڑا بہت انسانی گوشت کھاتے ہی تھے ۔ بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی وضع قطع بدل رہی تھی تو ان میں سے کچھ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا اور چونکہ انہوں نے اچھا بننے کی کوشش کی ، تو وہ آدمی بن گئے اور پھر وہ مزید بدلے تو حقیقی انسان بن گئے۔ کچھ البتہ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک کھا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ویسے ہی جیسے مگرمچھ جیسے رینگنے والے جانورکھاتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ مچھلیاں بن گئے ، کچھ پرندے ، کچھ بندر اور کچھ بالآخر آدمی لیکن یہ کچھ ، اچھا بننے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور ابھی تک رینگنے والے جانور ہی ہیں ۔ یہ، جو آدم خور ہیں ، جب خود کا موازنہ ان سے کرتے ہوں گے جو آدم خور نہیں ، تو لازماً سبکی اور شرمندگی محسوس کرتے ہوں گے ۔ شاید ، اس سے بھی زیادہ شرمندہ ہوں جتنا کہ رینگنے والے جانور بندروں کے سامنے شرمساری محسوس کرتے ہوں ۔
” پرانے زمانوں میں ’ ای یا ‘ نے ’ شیے‘ اور ’ چئو‘ کے کھانے کے لیے اپنا بیٹا ابال دیا تھا ؛ یہ ایک پرانی کہانی ہے ۔**** لیکن جب سے دیوتا ’ پین تساﺅ‘ ***** نے زمین و آسمان تخلیق کیے ، آدمی ایک دوسرے کو کھاتے ہی آ رہے ہیں ؛ ای یا کے بیٹے سے لے کر’ شو شی ۔ لین ‘****** کے زمانے تک ، اور اس کے زمانے سے لے کر اس بندے تک جو’ لانگ زے ‘ گاﺅں میں پکڑا گیا ۔ پچھلے سال بھی انہوں نے شہر میں ایک مجرم کا سر قلم کیا تھا تو ایک صارف نے، روٹی کا ٹکڑا ، اس کے خون میں ڈبو کر اسے چوسا تھا ۔
” وہ مجھے بھی کھانا چاہتے ہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ تم اس سلسلے میں ، اکیلے کچھ بھی نہیں کر سکتے ؛ لیکن تمہیں ان کے ساتھ ملنے کی کیا ضرورت تھی ؟ آدم خور ہونے کی حیثیت سے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ اگر وہ مجھے کھا سکتے ہیں تو وہ تمہیں بھی کھا سکتے ہیں ؛ ایک ہی گروہ کے لوگ ، ابھی بھی ، ایک دوسرے کو کھا سکتے ہیں ۔ لیکن اگر تم اپنے اطوار جلد بدل لو تو ہر کوئی امن و شانتی سے رہ سکتا ہے ۔ گو یہ تب سے ہوتا آیا ہے ، جب سے وقت قائم ہوا ، لیکن آج ہم خصوصی کوشش کرکے اچھے بن سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب سے یہ نہیں ہو گا ! بھائی ، مجھے یقین ہے کہ تم ایسا کہہ سکتے ہو ۔ اگلے روز جب ایک کرایے دار نے کرایہ کم کرنے کی بات کی تھی تو تم نے اسے بھی تو کہا تھا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا ۔ “
میرا بھائی پہلے تو صرف سنکی انداز میں طنزیہ طور پرمسکراتا رہا ، پھر اس کی آنکھوں میں ایک قاتلانہ چمک ابھری اور جب میں نے ان کے سارے راز افشاں کر دئیے تو اس کا چہرہ زرد پڑ گیا ، دروازے کے باہر لوگوں کا ایک گروہ کھڑا تھا جس میں مسٹر چیاﺅ اور ان کا کتا بھی تھا ؛ وہ سب گردنیں آگے کیے اندر جھانک رہے تھے ۔ میں ان سب کے چہرے تو نہ دیکھ سکا کیونکہ انہوں نے ، انہیں کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا ؛ کچھ کے چہرے، البتہ ، پھربھی زرد اور ڈراﺅنے تھے اور وہ اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ مجھے معلوم تھا کہ اندر سے وہ ایک تھے اورسب کے سب آدم خور تھے ۔ لیکن مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ وہ کسی طور بھی ایک جیسی سوچ نہیں رکھتے تھے ۔ کچھ کا خیال تھا کہ چونکہ یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا ، اس لیے بندوں کو کھانا درست تھا ۔ کچھ کا خیال تھا کہ انہیں آدمی نہیں کھانے چاہییں ، لیکن وہ پھر بھی ایسا کرنا چاہتے تھے؛ اور وہ ڈر رہے تھے کہ کہیں لوگ ان کے اس راز کو جان نہ لیں ؛ انہوں نے ، چنانچہ ، جب مجھے سنا تو وہ غصے میں آئے ، لیکن پھر بھی مسکراتے رہے اور ان کی مسکراہٹ لب ۔ بند اور تلخ تھی ۔
میرا بھائی ، اچانک غصے میں آیا اوراونچی آواز میں چِلایا ؛
” تم سب ، یہاں سے چلے جاﺅ! ایک پاگل کو یوں دیکھنے میں بھلا کیا دھرا ہے ؟ “
مجھے تب ان کی چالاکیوں میں سے ایک سمجھ میں آئی ۔ وہ کبھی بھی اپنا نکتہ نظر بدلنے کو تیار نہ تھے اور نہ ہی اپنے طے کردہ منصوبے چھوڑنا چاہتے تھے ؛ انہوں نے مجھ پر پاگل ہونے کا بٹہ لگا رکھا تھا ۔ اور جب انہوں نے مستقبل میں مجھے کھا لینا تھا تو کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی تھی ، بلکہ لوگوں نے شاید ان کا شکرگزار ہونا تھا ۔ جب ہمارے مزارعے نے بات کی تھی کہ گاﺅں والوں نے ایک بد شخص کو کھا لیا تھا تو اس میں بھی یہی بات کار فرما تھی ۔ یہ ان کا پرانا حربہ ہے ۔
بابا چھن بھی وہاں آ گیا ؛ وہ بھی غصے میں تھا ۔ لیکن وہ اور میرا بھائی ، میرا منہ بند نہ کر سکے ۔ مجھے لوگوں سے بات کرنا ہی تھی ؛
” تمہیں خود کو بدلنا ہی ہو گا ، دل کی گہرائیوں سے خود کو بدلنا ہو گا ۔“ ، میں نے کہا ، ” تمہیں یہ جاننا ہو گا کہ مستقبل کی دنیا میں آدم خوروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی ۔
” اگر تم لوگ نہ بدلے تو شاید تم سب ایک دوسرے کو کھا جاﺅ گے ۔ گو کہ بہت سے اور بھی پیدا ہو گئے ہیں لیکن وہ بھی اصلی بندوں کے ہاتھوں ختم کردئیے جائیں گے بالکل اسی طرح جس طرح بھیڑیوں کو شکاری مار دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ اسی طرح جیسے رینگنے والے جانور ہڑپ کر جاتے ہیں ! “
بابا چھن نے سب کو بھگا دیا ۔ میرا بھائی غائب ہو گیا ۔ بابا چھن نے مجھے ، اپنے کمرے میں جانے کا مشورہ دیا ۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا ۔ میرے سر کے اوپر کڑیاں اور بالے ہلے ۔ کچھ دیر ہلتے رہنے کے بعد یہ حجم میں پھیلتے گئے ۔ انہوں نے مجھ پر اپنا ڈھیر لگا دیا ۔
ان کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ میں ہِل بھی نہ سکا ۔ وہ تو چاہتے ہی تھے کہ میں مر جاﺅں ۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ وزن مصنوعی تھا ، میں نے اسی لیے اس کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی اور باہر نکل آیا ؛ میں پسینے سے شرابور تھا ۔ لیکن مجھے یہ تو کہنا ہی تھا ؛
” تمہیں خود کو فوراً بدلنا ہو گا ، دل کی گہرائیوں سے خود کو بدلنا ہو گا ! تمہیں یہ جاننا ہو گا کہ مستقبل کی دنیا میں آدم خوروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ “
XI
اب سورج نہیں چمکتا اور دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا ، بس ہر روز دو وقت کھانا مل جاتا ہے ۔
میں نے اپنی ’ چوپ سٹکِس‘ اٹھائیں تو میں نے اپنے بڑے بھائی کے بارے میں سوچا ؛ میں اب جان گیا ہوں کہ میری چھوٹی بہن کیونکر فوت ہوئی ؛ یہ سب بھی اسی کا کیا دھرا تھا ۔ میری بہن ، تب ، فقط پانچ سال کی تھی ۔ میں اب بھی یاد کر سکتا ہوں کہ وہ کتنی پیاری تھی اور اسے مرے ہوئے دیکھنا کتنا رقت انگیز تھا ۔ ماں روئے جا رہی تھی لیکن وہ ماں کو منع کیے جا رہا تھا کہ وہ نہ روئے ، شاید اس نے خود ہی بہن کو کھا لیا تھا ، اسی لیے ماں کے رونے سے اسے شرمندگی کا احساس ہو رہا تھا ۔ اگر اس میں شرمساری کا کوئی احساس تھا تو ۔ ۔ ۔
میری بہن میرے بھائی کے ہاتھوں کھائی گئی تھی ، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ میری ماں کو اس بات کا اندازہ تھا یا نہیں ۔
میرا خیال ہے کہ میری ماں کو یقیناً پتہ تھا ، لیکن جب وہ رو رہی تھی تو وہ اس کا اظہار نہ کر پائی کیونکہ شاید اس نے بھی ، اس کے کھائے جانے کو ہی مناسب سمجھا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چار یا پانچ سال کا تھا اور ٹھنڈی ڈیوڑھی میں بیٹھا تھا تو میرے بھائی نے مجھے بتایا تھا کہ اگر کسی بندے کے والدین میں سے کوئی ایک بیمار پڑ جائے ، تو اسے اس کے ہی گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ کر، اُسے ابال کر کھلا دینا چاہیے ، یوں وہ ایک اچھا بیٹا ثابت ہو سکتا تھا ؛ تب میری ماں نے اس سے اختلاف نہیں کیا تھا ۔ اگر ایک ٹکڑا کھایا جا سکتا تھا تو ظاہر ہے سارا بھی کھایا جا سکتا ہے ۔ اب بھی جب مجھے اُس ماتم و آہ و زاری کا خیال آتا ہے تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے ؛ یہی احساس توعجیب اورغیر معمولی ہے !
XII
میں اب اس بارے میں زیادہ سوچنا برداشت نہیں کر سکتا ۔
مجھے ابھی احساس ہوا ہے کہ میں ، ایک ایسی جگہ پر سال ہا سال سے رہ رہا ہوں جہاں چار ہزار سال سے آدم خوری مروج ہے ۔ جب میری بہن کا انتقال ہوا تو اس سے ذرا پہلے میرے بھائی نے گھر کا انتظام ، نیا نیا ، سنبھالا تھا اور اس نے شاید بہن کے گوشت کو ہمارے چاولوں اور دوسرے کھانوں میں برتا ہو اور ہمیں ، انجان رکھتے ہوئے ، کھلایا ہو ۔
یہ ممکن ہے کہ میں نے ، نادانستہ طورپر ، اپنی بہن کے گوشت کے کئی ٹکڑے کھائے ہوں اور اب میری باری ہے ۔ ۔ ۔ ۔
چار ہزار سالہ آدم خوری کی تاریخ کے بعد بھی ، کوئی بندہ خود کو کیسے پسند کر سکتا ہے ۔ ۔ ۔ گو کہ مجھے اس بارے میں پہلے کچھ پتہ نہ تھا ۔ ۔ ۔ اور کبھی یہ امید بھی نہ تھی کہ میں نے اصل انسانوں کو دیکھنا ہے ؟
XIII
شاید ، ابھی بھی ایسے بچے ہیں جنہوں نے انسانی گوشت نہ کھایا ہو ؟ ان بچوں کو بچانے کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔
^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^
اپریل 1918ء میں لکھا یہ افسانہ پہلی بار چینی رسالے ‘ نئی نسل ‘ ( New Youth ) نامی رسالے میں مئی 1918 ء کو شائع ہوا تھا ۔ بعد ازاں یہ لو شَن کے افسانوں کے پہلے مجموعے ‘ نا ہان ‘ ( Call to Arms ) میں ، 1923ء میں شامل ہوا ۔
^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^
* ’ لانگ زے‘ ؛ ’ لانگ زے‘ کا مطلب ’ بھیڑئیے کا بچہ ‘ یا ’ بچہ گرگ ‘۔ ممکن ہے کہ اس نام کا کوئی گاﺅں نہ ہو اور لو شن نے اسے افسانے کے مواد کے اعتبار سے اس گاﺅں کا نام خود ہی گھڑا ہو ۔ چین میں جانوروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے ، ان کا قدیمی کیلنڈر بھی کسی ایک جانور کے نام سے شروع ہوتا ہے جس کا چکر بارہ سال تک جاری رہتا ہے ۔ اسی طرح جانوروں کے نام پر جگہوں کے نام رکھے جاتے ہیں ۔
** 16 ویں صدی کا مشہور ماہر ِادویات ’ لی شی ۔ چَھن ‘ (1518 ء تا 1593 ء) ، جس نے کتاب ’ پین ۔ تساﺅ۔ کانگ ۔ مُو‘ ( میٹریا میڈیکا ) لکھی تھی ۔
*** یہ اقوال قدیم چینی ’ ذو چوان ‘ کے ہیں ؛ کتاب ‘ قدیم چینی تقویم پر ایک نظر ‘ جس کے 30 ابواب ہیں جو لگ بھگ 700 تا 450 قبل از مسیح کے زمانے پر محیط ہیں ۔
**** قدیمی ریکارڈ کے مطابق ، ‘ ای یا ‘ نے اپنے بیٹے کو پکا ڈالا تھا اور اس سے بنے کھانے سے ، ’ چی ‘ کے فرمانروا ’ ہوآن ‘ کی تواضع کی تھی جو 685 تا 643 قبل از مسیح اقتدار میں رہا تھا ۔ ’ شیے‘ اور ’ چئو‘ اس کے زمانے سے پہلے کے ظالم حکمران تھے ۔ پاگل نے اپنے بیانیے میں غلطی کی ہے ۔
***** ’ پھان کو‘ چینی اساطیر میں وہ مہا دیوتا جس کے کارن زمین و آسمان قائم ہوئے ؛ اس کے بارے میں ایک سے زائد قصے ہیں ؛ ایک کے مطابق وہ انتشار ( شاید اںڈا ) سے وجود میں آیا تھا ؛ اس کے دو سینگ ، ہاتھی جیسے دو بڑے دانت اور بالوں بھرا بڑا جسم تھا ۔ کچھ کے مطابق اس نے زمین و آسمان کو الگ الگ کیا ، اجرام فلکی کو اپنی اپنی جگہ پر جمایا اور پانی کو چار ساگروں میں منقسم کیا ۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کی بڑی لاش سے یہ کائنات تخلیق ہوئی ؛ اس کی آنکھیں سورج و چاند بنے ، اس کے جسم نے مٹی بنائی ، اس کے خون سے سمندر ، پسینے سے دریا ، اور بالوں سے نباتات بنیں ۔ نسل ِ انسانی نے ان کیڑوں مکوڑوں سے ارتقاء پایا ، جو اس کی لاش میں پیدا ہوئے تھے ۔
’ پھان کو‘ کے بارے میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے تحت چلنے والے ‘ فارن لینگوئجز پریس ‘ ، پیکنگ ، چین ، نے کوئی وضاحت نہیں دی ۔ شاید کمیونسٹ پارٹی نہیں چاہتی تھی کہ اس ’ پھان کو‘ کی ‘ مِتھ ‘ کو اہمیت دی جائے ۔
******چِنگ بادشاہت ( 1644 ء تا 1911 ء ) کے آخری زمانے کا ایک انقلابی ۔ ’ شو شی ۔ لین ‘ کا سر1907 ء میں قلم کر دیا گیا تھا اور اس کا کلیجہ اور دل کھائے گئے تھے ؛ اس نے ایک چِنگ کارندے کو قتل کیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناموں کے درست تلفظ کے لیے میں ، محترمہ کوثر جمال صاحبہ کا شکر گزار ہوں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...