ایلس واکر۹فروری ۱۹۴۴ کو امریکی ریاست جارجیا میں پیدا ہوئیں۔وہ ناولسٹ،افسانہ نگار،شاعرہ اور فعال سیاسی کارکن ہیں۔اپنے ناول The color purple کی وجہ سے سرخیوں میں آئیں جسے ۱۹۸۳ میں پلٹزر پرائز برائے فکشن انعام سے نوازا گیا۔اسٹیون اسپلبرگ ان کے اس ناول پر اسی نام سے اوفرا ونفرے کو لے کر فلم بھی بنا چکے ہیں۔زیر نظر افسانہ ان کی شارٹ اسٹوری “Everyday Use” کا اردو ترجمہ ہے جس میں افریقی امریکی تہذیب کے اندرہم آہنگی،موافقت،مغائرت ،تصادم اور جدو جہد کو بیان کیا گیا ہے۔۔۔
روزمرہ کی چیزیں
ایلس واکر
ترجمہ: قاسم ندیم
بینر: محمد زبیرمظہرپنوار
میں آنگن میں اس کا انتظارکروں گی۔اس آنگن کو میں نے اور میگی نے کل دوپہر تک لیپا،پوتا ہے۔ آنگن بے حد آرام دہ ہوتے ہیں ۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں۔ یہاں بیٹھ کر پیڑوں کی چھاؤں اورگھرو ں کے اندر داخل نہ ہونے والی دھوپ دونوں کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔
اپنی بہن کے واپس چلے جانے تک میگی ہڑبڑاہٹ میں مبتلا رہے گی۔گھر کے کونوں میں چھپتی ہوئی ،اپنی بانہوں اور پیروں پر پڑے ہوئے جلنے کے نشانوں کے لئے شرمندہ سی۔اس کا خیال ہے کہ زندگی پر اس کی بہن کا پوری طرح کنٹرول ہے اور اسے ’نہ‘ کہہ دینا اس کے بس کی بات نہیں۔
آپ نے بھی ٹی وی پر وہ پروگرام دیکھے ہوں گے جن میں ترقی یافتہ اولاد اپنے ماں باپ کے سامنے آتی ہے(اگر ماں باپ اور اولاد ایک دوسرے کوکوسنے لگیں تو کیا ہو؟) ماں باپ کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں۔اولاد انہیں اپنی بانہوں کے گھیرے میں کس کرکیمرے کو بتاتی ہے کہ وہ ان کی مددکے بنا کچھ نہیں کرپاتے۔ میں نے ایسے پروگرام دیکھے ہیں۔
کبھی کبھی میں پروگرام دیکھتی ہوں کہ ڈی اور میں اس قسم کے ٹی وی پروگرام میں شامل ہیں۔ نرم گدی والی کار کے ہلکے سے اندھیرے میں سے میں روشنی اور لوگوں سے بھرےایک کمرے میں آتی ہوں۔وہاں ایک خوبصورت اور کھلنڈرا آدمی مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے بتاتا ہے کہ میں کتنی خوبصورت بیٹی کی ماں ہوں۔’’ میں اور ڈی اسٹیج پر آتے ہیں۔آنکھوں میں آنسو بھرے ڈی مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہےاور میرے ڈریس پر ایک بڑا سا آرکیڈکا پھول ٹانکتی ہے۔ حالانکہ ڈی نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ آرکیڈ بے ہودہ پھول ہوتے ہیں۔
میں اصل زندگی میں لمبی چوڑی مردوں جیسے ہاتھوں والی عورت ہوں۔میرے بدن میں موجودہ چربی کی تہیں کڑکڑاتی سردی میں بھی مجھےگرم رکھتی ہیں۔ مردوں کی طرح میں سوَّر کو مار کر اس کا گرما گرم کلیجہ پکا کر کھاسکتی ہوں۔ لیکن یہ سب ٹی وی پر نہیں دکھایا جاتا۔۔ ٹی وی پر میں ٹھیک ویسی ہوں جیسی میری بیٹی مجھے دیکھنا پسند کرتی ہے۔۔میرا وزن قریب چالیس کلو کم ،میرا رنگ جَو کے گندھے ہوئے آٹے جیسا اور روشنی میں چمکتے میرے بال ،مری چٹ پٹی باتوں کا جواب دیتے ہوئے پروگرام والے مرد کو پسینہ آرہا ہے۔
لیکن یہ سب بھول ہے ۔جاگنے سے پہلے ہی میں یہ جانتی ہوں۔ہمارے خاندان میں کوئی زبان دراز پیدا نہیں ہوااور گوری چمڑی والے مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے بارے میں تو میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ہاں، میری ڈی کسی کی بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتی ہے۔شرماناجھجھکنا اس کی فطرت میں نہیں ہے۔
’’میں کیسی لگتی ہوں ممی؟‘‘ گلابی اسکرٹ میں لپٹی میگی اپنی دبلی پتلی کایا دکھاتی ہے دروازے کے پیچھے سے۔
’’آنگن میں آکر دکھاؤ‘‘۔میں کہتی ہوں۔ آپ نے کبھی لنگڑے جانور کو دیکھا ہے،کسی کُتّے کو ہی سہی ۔جیسے کوئی لاپرواہ دولت مند اپنی کار سے کچلتا ہوا نکل گیا ہے۔آپ نے دیکھا ایسا جانور جو دوسروں کے رحم و کرم پر زندہ ہے؟ میری میگی بھی ایسی ہی ہے۔سرجھکائے،آنکھیں زمین میں گڑائے،لڑکھڑاتے ہوئے پیروں سے۔جب سے وہ پہلا والا مکان جلا تبھی سے۔
ڈی،میگی کی بہ نسبت ہلکی پھلکی ہے۔خوبصورت بال اور بھرابھرا سا بدن۔ اب تو عورت ہے وہ۔لیکن کبھی کبھی میں بھول جاتی ہوں۔پہلے والے مکان کو جلے ہوئے کتنے برس بیت گئے؟دس؟ بارہ؟اب بھی کبھی کبھی آگ کی لپٹوں کی آوازیں سنتی ہوں۔بانہیں پھیلائے ہوئے میری طرف میگی،کالے کاغذ کی دھجیوں سے گرتے ہوئے اس کی فراک کے ٹکڑے۔ اس کی آنکھیں پھٹی پڑرہی تھیں۔۔اور ڈیؔ، میں اسے یوکلپٹس کے پیڑ کے نیچے کھڑا دیکھتی ہوں جس میں سے گوند نکال کر وہ کھاتی تھی۔جلتے گھر کو ڈیؔ دھیان سے دیکھتی ہےجب تک آخری شہتیر نیچے نہیں گرجاتا۔ میں اس سے پوچھنا چاہتی تھی’’اب راکھ کے ڈھیر کے چاروں طرف ناچتی کیوں نہیں؟‘‘ ڈیؔ کو اس گھر سے بے حد نفرت تھی ۔ میں سوچتی تھی کہ وہ میگی سے بھی نفرت کرتی ہے۔ وہ بڑی بے رحمی سے دوسرے لوگوں کے خیالات،برتاؤ،الفاظ،جھوٹ،زندگی سب ہم دونوں پر انڈیلتی رہتی تھی، اور ہم جال میں پھنسے ہوئے اس کی ساری باتوں کو جھیلتے رہتے تھے۔ وہ ہمیں خیالی دریا میں نہلاتی اور اس علم سے جس کی قطعی ہمیں ضرورت نہیں تھی ہمیں جھلسادیتی۔
ڈیؔ کو بہترین چیزیں درکار ہوتیں۔اسکول کے الوداعی پروگرام کے لئے آرگیڈی کا ڈریس،ایک پرانے سوٹ کے ساتھ میچ کرنے کے لئے کالے جوتے۔ اپنی کوششوں کے سامنے وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتی۔ اس کی پلکیں کافی دیر تک جھپکتی رہتیں۔ اگرچہ میں اسے جھنجھوڑنا چاہتی لیکن رک جاتی۔ سولہ سال کی عمر میں ڈیؔ کا اپنا ہی طور طریقہ تھا اور وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ طور طریقہ کیا ہے؟
میں خود کبھی پڑھی لکھی نہیں۔دوسرے درجے کے بعد اسکول بند کردیا گیا۔اب کیوں بند کردیا گیا مت پوچھئے۔۱۹۲۷ میں کالے لوگ آج کی طرح سوال نہیں کرسکتے تھے۔کبھی کبھی میگی مجھے پڑھ کر سناتی ہے۔رک رک کر ہی پڑھ پاتی ہے وہ۔ اُسے پتہ ہے خوبصورتی اور پیسوں کی ہوشیاری بھی اسے چھو کر نہیں گذری۔ میگی کی شادی جان ٹامس سے ہوگی(سنجیدہ چہرے والا،دانت ذرا بھدے ہیں ) اور پھر میں آزاد ہو جاؤں گی ۔اکیلے بیٹھے دعائیہ گیت گاؤں گی۔ حالانکہ میں اچھا نہیں گاتی۔دُھنیں مجھے یاد نہیں رہ پاتیں۔ میں ہمیشہ مردوں والے کام کرتی رہی ہوں۔خاص طور پر جانوروں کی دیکھ بھال کرنا مجھے بے حد پسند ہے۔
میں جان بوجھ کر گھر کےبارے میں بتانہ سکی ۔اس میں تین کمرے ہیں۔جلے ہوئے گھر کی طرح،بس اس کی چھت ٹین کی ہے آج کل کھپچیوں کی چھتیں کون بناتا ہے؟۔ کھڑکیوں کی جگہ بے ڈول سے چھید ہیں اور پرانےگھر کی طرح ہی یہ گھر بھی چراگاہ کے درمیان واقع ہے۔ڈیؔ اس گھر کو دیکھتے ہی توڑ پھوڑ کرے گی۔اس نے ایک بار مجھے لکھا تھا۔ہم جہاں بھی رہنا طے کریں وہ ضرور ہمیں دیکھنے آئے گی۔میں اور میگی اس بارے میں سوچ رہے تھے اور میگی نے سوال کردیا ’’ماں ! ڈیؔ کے کبھی دوست بھی تھے؟‘‘
’’تھے کچھ۔گلابی قمیض پہنے،چھپتے چھپاتے سےآتے لڑکے، پریشان سی لڑکیاں وہ اس کے لفظوں،جملوں اور دبکتے طنز کو پوجتے۔ ڈی ؔ انہیں بھی کتابیں پڑھ پڑھ کر سناتی تھی۔ جب جمیؔ کی ڈی سے گہری چھن رہی تھی،ان دنوں ہمارے لئے ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ ڈیؔ نے عیب تلاش کرنے میں ساری قوت صرف کردی تھی۔نجات حاصل کرنے کے لئے جمی نے جاہل گھرانے کی ایک شہری لڑکی سے شادی کرلی ۔ڈی کو اس حادثےسےابھرنے میں کافی وقت لگا تھا۔
جب وہ آئے گی ۔’’لو وہ تو آبھی گئی ‘‘۔ میگی گھر کی جانب بھاگنے کی کوشش کرتی ہے لیکن میں اسے روک لیتی ہوں۔ ’’واپپس آؤں‘‘میگی پاؤں کے انگوٹھے سے مٹی کریدتی کھڑی رہتی ہے۔
تیز دھوپ کی وجہ سے انہیں دیکھ پانا مشکل ہے۔لیکن کار سے نکلتے پاؤں کی جھلک سے ہی میں پہچان لیتی ہوں۔ڈی! اس کے پاؤں خوبصورت تھےاس طرح جیسے کہ خدا نے انہیں خاص سلیقے سےبنایا ہو۔سرکاری کی دوسری جانب سے ایک پستہ قد،گٹھیلا آدمی نکلتا ہے۔لمبی لمبی اور خچر کی دم جیسی دھاڑی والا۔میگی کی سانس تھم سی جاتی ہے۔’’اونہہ‘‘ جیسی آواز اس کے منہ سے نکلتی ہے۔
پھر ڈیؔ نکلتی ہے ۔زمین کو چھوتے ڈریس پہنے ہوئے ۔ڈریس کے پیلےاور سنتری رنگ دھوپ میں دمک کر میری آنکھوں میں چبھنے لگتے ہیں۔سنہرے جھمکے ڈیؔ کے کندھوں کو چھو رہے ہیں۔اس کی کہنیوں تک کڑے اور چوڑیاں بھری ہوئی ہیں۔میگی کے منہ سے پھر اونہہ جیسی آواز نکلتی ہے۔اپنی بہن کے بالوں کو دیکھ کراس کے بال کالے اور اوپر اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دا۔سو۔جو۔ئن۔او کہتی ہوئی ڈیؔ ہماری طرف بڑھتی ہے۔داڑھی والا بھی سلام کہتا ہے۔میری کرسی کے پیچھے کانپتی میگی پسینے میں نہا جاتی ہے۔ لگتا ہے۔ وہ کار سے کیمرہ نکال کر کھٹا کھٹ تصویریں کھینچتی ہے۔کرسی پر بیٹھی میں اور میرے پیچھے سہمی ہوئی میگی۔اور کسی بھی فریم میں وہ گھر کو لینانہیں بھولتی۔یہاں تک کہ گھر کے آنگن میں چرتی ہوئی گائے کی بھی تصویریں وہ اتار لیتی ہے ۔کیمرہ کار میں رکھ کر ڈیؔ واپس آتی ہے اور میرا ماتھا چوم لیتی ہے۔
’’آہا،ڈی!‘‘ میں کہتی ہوں۔
’’نہیں ماں،ڈی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وانگیرولیوانیکا کیمانزو۔‘‘
’’اور ڈی کو کیا ہوا؟‘‘ میں پوچھتی ہوں۔
’’مرگئی۔‘‘ وانگیرو کہتی ہے۔ ’’ہمارا خون چوسنے والوں کی نقل پر رکھا گیا نام میں برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’تم اچھی طرح جانتی ہو،تمہیں تمہاری خالہ کا نام دیا گیا تھا۔‘‘
’’اور اسے؟ہماری ماں کا۔اور انھیں؟ ان کی ماں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
میں دیکھ رہی تھی کہ وانگیرو تھک گئی تھی۔داڑھی والا مجھے کسی پرانی کار کی طرح دیکھ رہا تھا۔’’خیر!ذرا اپنا نام پھر سے تو بتاؤ۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تمہیں پسند نہیں تو تم مجھے اس نام سے مت بلاؤ۔‘‘ وانگیرو بولی۔
’’کیوں نہیں؟جب تمہیں اپنا نام پسند ہے توہم اسی نام سے بلائیں گے۔‘‘
خیر وانگیرو کا نام تو مجھے یاد بھی ہوگیا لیکن داڑھی والے کا نام میرے دماغ میں نہیں سمایا۔میں نے پوچھا نہیں،انہوں نے بتایا نہیں کہ دونوں نے شادی کرلی ہے یا نہیں۔کھانا کھانےے بیٹھے تو داڑھی والے نے پورک(سوّر کا گوشت) کھانےسے انکار کردیا۔وانگیرو نے ہرچیزخوشی خوشی کھائی ۔اسے ہر ایک چیز دیکھ کربے انتہا خوشی ہوری تھی یہاں تک کہ اس بات سے بھی کہ ہم آج تک پرانی بنچوں کا استعمال کررہے ہیں جو اس کے والد نے تب بنائی تھی جب ہم کرسیاں خریدنے کے قابل نہیں تھے۔
’’اوہ ماں،میں کبھی نہیں جان پائی کہ یہ بنچ کتنی خوبصورت ہے۔‘‘اس نے داڑھی والےسے کہا ۔پھر اس نے میری نانی کی مکھن دانی کو ہاتھوں میں لیااور ہنستے ہوئے کہا،’’ میں جانتی تھی ،اسے میں تم سے مانگ لوں گی۔‘‘ وہ اس کونے میں گئی ۔ ’’ ممی نے بنایا تھا نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے کہا
’’آہا! اور مجھے مٹکے کا ڈھکن بھی چاہئے۔‘‘
’’اسے بھی بڑے ماموں نے بنایا ہوگا؟‘‘ داڑھی والا بولا۔
’’ڈیؔ کی خالہ کے پہلے مرد نے،اس کا نام ہینری تھا۔‘‘میگی نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’میگی کو ہر بات یاد رہتی ہے۔‘‘ وانگیرو ہنسی۔’’مٹکے کےڈھکن سے بھی کچھ آرٹسٹک چیز بن جائے گی۔‘‘
مٹکے کے ڈھکن پر ہلکے ہلکےگڑھے پڑگئے تھے۔ یہ گڑھے مدتوں انگلیوں کے استعمال سے پڑ گئے تھے۔ہلکےپھلکے رنگ کی چکنی لکڑی سے بنا یہ ڈھکن میری بہن کے گھر میں لگے پیڑ کی لکڑی سے بنا تھا۔
رات کے کھانے کے بعد ڈی،نہیں نہیں وانگیرو،دو کتھریاں ٹٹولنے لگی۔میگی کچن میں برتن سمیٹ رہی تھی۔وانگیرو دو کتھریاں نکا ل لائی ۔میری نانی نے ان کے نمونے بنائے تھے۔میں نے اور میر بہن نے نانی کی ہدایت کے مطابق ٹانکے بھرے تھے۔کتھریوں پر نانی کی ڈریس کے ٹکڑے اور نانا کی ریشمی قمیص کے ٹکڑوں سے نمونے بنے ہوئے تھے۔ماچس برابر ایک ہلکا نیلا ٹکڑاپَرنانا کی اس وردی کا تھا جسے پہن کر وہ سِوِل وار میں لڑے تھے۔
’’ماں‘‘ وانگیرو کوئل کی طرح کو ک کر بولی’’ میں یہ پرانی کتھریاں لے لوں۔‘‘
مجھے کچن میں کچھ گرنے اور پھر دروازہ زور سے بند کئے جانے کی آواز آئی ۔
’’تم اور کتھریاں لے لو! یہ کتھریاں تو میں نے اور تمہاری خالہ نے نانی کی موت سے ٹھیک پہلے بنائی تھیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ وانگیرو بولی۔’’ وہ نہیں، جن کے سرے مشین سے سلے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں،اس لئے وہ زیادہ دن اچھی رہیں گی۔‘‘ میں بولی۔
’’بات زیادہ دن اچھی رہنے کی نہیں ہے۔یہ بہت پرانے کپڑوں سےبنی ہیں۔نانی نے کشیدہ کاری ہاتھ سے کی تھی۔‘‘ وانگیرو کس کر کتھریاں تھامے ہوئی تھی۔
’’ان میں سے کچھ کپڑے تو انہیں ان کی اماں نے دیئے تھے۔یہ پیازی کپڑا دیکھو‘‘۔ میں کتھری کو چھونے آگے بڑھی۔ڈیؔ پیچھے ہٹ گئی ۔کتھریا ں ابھی سے اس کی ہوگئی تھیں۔اس نے کتھریوں کو سینے سے لگایا ہوا تھا۔
’’دیکھو ڈی،میں نے یہ کتھریاں میگی کو دینا طے کیا تھا۔یہ اس کا جہیز ہے ۔‘‘ میں نے کہا۔
ایسا لگا جیسے اسے سانپ نے ڈس لیا ہوا۔اس نے تڑپ کرکہا۔’’ میگی ان کی کیا قدر کرے گی ؟ وہ تو گنواروں کی طرح انہیں بچھا لے گی۔‘‘
’’ہاںوہ تو بچھا ہی لے گی،یوں بھی عرصے سے انہیں استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔میگی استعمال کرلے تو اچھا۔‘‘ میں نے اسے یاد نہیں دلایا کہ کالج جاتی وانگیرو کو جب میں نے کتھری دینی چاہی تھی تواس نے کہا تھا کہ کتھریاں پرانے زمانے کی چیزیں ہیں ۔ان کا فیشن نہیں رہا۔
’’مگر یہ تو بیش قیمتی ہیں۔‘‘
اب اسے غصہ آگیا تھا۔میری بیٹی غصے والی ہے۔’’میگی اسے اوڑھ بچھاکر چار پانچ سال میں چوپٹ کردے گی۔اس سے بھی جلدی شاید۔۔۔۔۔‘‘
’’تب وہ اور بنالےگی ۔میگی کو کتھری بنانا آتا ہے۔‘‘
وانگیرو نفرت سے مجھے دیکھ کر بولی،’’تم نہیں سمجھ سکتی۔سوال کتھریوں کا ہے،ان کتھریوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ اچھا تم ان کاکیا کروگی ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’دیوار پر لٹکاؤں گی ۔‘‘ وہ بولی۔
’’لو سنو،جیسے کتھریاں اسی لئے بنائی جاتی ہیں۔‘‘
میگی دروازے پر کھڑی ہوگئی تھی ۔’’اسے ہی دے دو ماں۔‘‘ میگی کی دھیمی آواز میں کچھ نہ کر پانے سے مایوسی نہیں بلکہ رسم و رواج سے سمجھوتہ کرلینے کا اثر تھا۔’’میں نانی کو کتھری کے بنا بھی یاد رکھوں گی۔‘‘
میں نے غور سے اسے دیکھا،اس کے چہرے پر شرمندگی تھی۔اسے خود میری ماں اور بہن نے کتھری بنانا سکھایا تھا ۔اپنے جھلسے ہوئے ہاتھوں کو اپنی اسکرٹ کی تہہ میں چھپاتی وہ اپنی بہن کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔وہ اپنی بہن سے نارض نہیں تھی ۔یہی تھا میگی کا حصہ۔ اس نے خدا کو ایسے ہی پہچانا تھا۔
کچھ میرے سر سے پاؤں تک کوند گیا۔بالکل جیسے چرچ میں خدائی احکامات حاصل ہوتے ہیں۔میں نے وہ کیا جو کبھی نہیں کیا تھا۔میگی کو سینے سے لگایا۔پھر اسے کھینچ کر کمرے میں لے گئی ۔کتھریاں وانگیرو ڈی کے ہاتھ سے چھینیاور میگی کی گود میں رکھ دی۔بسترپر بیٹھی میگی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’تم باقی کوئی بھی کتھری لے لو۔‘‘ میں نے ڈی سے کہا۔لیکن وہ بنا کچھ بولے داڑھی والے کے پاس چلی گئی ۔ ’’تم سمجھ ہی نہیں پاتی ہو‘‘، میں اور میگی اسے کار تک چھوڑنے کے لئے آرہے تھے۔
’’کیا نہیں سمجھ پاتی میں ؟میں نے جاننا چاہا تھا اپنی تہذیب،اپنی جڑوں کو۔‘‘وہ بولی۔ پھر مڑ کر میگی کو بوسہ دیا اور کہا’’میگی تمہیں بھی کچھ بننے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔آج ہم سب کے لئے نیا زمانہ آگیا ہے۔لیکن جیسے تم اور ماں رہتی ہیں اس سے تو کبھی بات نہیں بنے گی۔‘‘
اس نے دھوپ کا بڑا سا چشمہ آنکھوں پر چڑھالیا۔جس سے ناک ٹھوڑی کے علاوہ پورا چہرہ ڈھک گیا۔میگی مسکرائی۔ شاید چشمے پر۔ لیکن اصلی مسکراہٹ ، اس میں ڈر کا نام و نشان نہیں تھا ۔ کار کے جانےسےاڑی گردکے بیٹھ جانے کے بعد میگی سے میں نے نسوار مانگی۔ پھر ہم دونوں ماں بیٹی گہری خوشی میں ڈوبی بیٹھی رہیں رات تک۔۔۔
(بہ شکریہ اردو چینل ۳۰)
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1695014270765273/
“