فرانس میں دولت و قوت پر طبقہ امرا قابض تھا، آبادی کی بڑی تعداد غربت اور محرومی کی زندگی گزارتی تھی۔ جاگیردارانہ نظام تھا، عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار تھی۔ کلیسا ظلم و استحصال کو برقرار رکھنے والا ادارہ بن چکا تھا۔ رواداری رخصت ہوچکی تھی۔ برطانیہ اس وقت دنیا کی بڑی طاقت تھا، وہاں ایک بااختیار پارلیمنٹ وجود میں آ چکی تھی۔فرانس میں ایک روشن اور آزاد فکر طبقہ پیدا ہو رہا تھا۔ اس طبقے کے نزدیک فرانس کا اصل مرض جہالت، تعصب، اور مذہبی تنگ نظری تھی۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ فرانس کو ان سے نجات دلائے بغیر آزاد نہیں کیا جاسکتا۔ روسو کا دوست دیدرو اس تحریک کا روح رواں تھا۔ انسانی تاریخ کے پہلے انسائیکلو پیڈیا کے لئے مضامین انہی لوگوں نے شروع کئے، روسو نے بھی اسی انسائیکلوپیڈیا کے لئے مضامیں لکھیں۔ یہ لوگ فرانس میں نئے افکار اور نئے علوم و فنون کو متعارف کرا رہے تھے۔ مذہبی اور سیاسی لوگوں کے نزدیک یہ کوشش خطرناک تھی اور اسے روکنے کی ضرورت تھی۔ حکومت نے دیدرو کو گرفتار کرلیا، اور روسو سمیت باقی کے ساتھی روپوش ہوگے۔ 1749 میں جب روسو جیل میں دیدرو کو ملنے جا رہا تھا۔ تو راستے میں اس کے دن کے اخبار میںرائیڑز اکاڈیمی آف فرانس کا ایک اشتہار تھا، جس میں کہا گیا تھا، کہ " علوم و فنون کی ترقی نے اخلاق سدھارنے میں مدد دی ہے یا ان کو بگاڑا ہے" اس پر سب سے اچھا مضمون لکھنے والے کو انعام دیا جائے گا۔ یہ موضوع روسو کا پسندیدہ تھا۔ اس موضوع سے متعلقہ خیالات کا ایک طوفان اس کے دماغ میں چلنا شروع ہو گیا۔ بلکہ اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ گھر پہنچا تو ٹریزہ کی بک بک سننے کو ملی، روسو نے کمرہ بند کیا، اور تمام خیالات کو اس نے کاغذ پر اتارنا شروع کردیا۔ زہن کی دکان جب خالی ہوئی، تو اسے کچھ چین آیا، ٹریزا کب سے دروازہ کھڑکھڑا رہی تھی، اس نے سمجھا شائد روسو خود کشی پر مائل ہے۔ روسو نے اسے بتایا کہ اس نے ایک انعامی مقابلے کے لئے مضمون لکھا ہے، اور اسے بڑی رقم ملنے کی امید ہے۔
روسو نے اٹھائے گے سوال کا کچھ یوں جواب دیا، " علوم و فنون کی ترقی نے اخلاق و آداب تباہ کردیئے ہیں۔ تہذیب و تمدن نے انسانوں کو اخلاقی اور جسمانی اعتبار سے کمزور کردیا ہے۔ نیکی کی راہ پر صرف وہی چل رہے ہیں، جو سادگی برقرار رکھتے ہیں۔ علوم و فنون کا منبع گناہ اور بدی میں ہے۔ فلکیات کی ابتدا توہم پرستی سے شروع ہوئی، فصاحت و بلاغت کی ابتدا چاپلوسی ، چالبازی ، نفرت اور خواہشات سے ہوئی۔ ریاضی نے لالچ سے اور طبیعات نے فضول حیرت سے جنم لیا۔ چنانچہ ہر علم کی ابتدا برائی سے ہوئی۔ فنون اور عیش پرستی ایک ساتھ چلتے ہیں"۔ 18ویں صدی کے لحاظ سے یہ مضمون سب کو حیران کردینے والا تھا۔ یہ وہ وقت تھا، جب انسان سائنس اور علوم پر یقین کے دن تھے۔ یہ مقالہ جیسے ہی شائع ہوا، فرانس کے علمی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ عبارت کا ہر لفظ انوکھا اور دہکتا ہوا انگارہ تھا۔ ایسے انوکھے خیالات کے آدمی کو ہر فرد جاننا چاہتا تھا، کہ یہ شخص کون ہے۔ چنانچہ اس کی اس تحریر نے روسو کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس کے رد اور حق میں مضامین چھپنے شروع ہوگے۔ اس کے خیالات چونکا دینے والے اور اسلوب پرجوش تھا۔ اس کے گھر کے سامنے لوگوں کی قطاریں لگ گئی جو اس سے ملنے کے متمنی تھے۔ انعام سے ملنے والی رقم نے اس کے معاشی حالات کو بھی بہتر کیا۔ اس نے جدید یورپ کو ایک ایسا عقیدہ دے دیا، کہ تہذیب نے انسانوں کو اخلاقی اور روحانی اعتبار سے بدحال کیا ہے۔ تو کیا اس سے بچنے کے لئے فطرت کی آغوش میں پناہ لینی چاہئے؟ لیکن یہی سوال روسو کو بھی پریشان کررہا تھا۔۔۔۔
“