بطور ایک تقریباَ غریب گھرانے کی سانولی فیشن سے نابلد لڑکی ہونے کے، لڑکپن سے لے کر بس چند سال پہلے تک زندگی ہمیشہ مفت کے سیلف گرومنگ کے مشوروں سے اٹی رہی۔ چہرے پہ دانے ہیں کچھ لگاتی کیوں نہیں؟ بال گھنگریالے ہیں سیدھے کیوں نہیں کراتیں؟ آئی بروز کیوں نہیں بنواتیں؟ جیولری کیوں نہیں پہنتیں؟ اتنی دبلی کیوں ہو؟ فیشل کیوں نہیں کراتیں؟
جب تک کچھ کچھ احمق تھے ان مشوروں پہ عمل کرنے کی بھی کوشش کی۔ مگر بات وہی آگئی کہ “ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا” والی۔ مجھے جو لڑکیاں اپ ٹو ڈیٹ رہنے کے مشورے دیا کرتی تھیں اب مجازی خداؤں کے حسبِ منشاء پردہ کرکے ثوابِ دارین حاصل کر رہی ہیں۔ کیوں کا جواب سادہ نہیں بہت پیچیدہ ہے۔ یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جو کبھی بھی انفرادی نہیں ہوتے۔ لڑکیاں تعلیم اور صحت کی بجائے اپنی ظاہری شخصیت پہ کیوں زیادہ توجہ دیتیں ہیں؟ لڑکیوں کی تعلیم اور صحت سے زیادہ ان کے جہیز پہ زیادہ توجہ کیوں دی جاتی ہے؟ لڑکی یا عورت کو معاشرے کا عضوِ معطل کیوں سمجھا جاتا ہے؟ لڑکی کے فیشن اور ہر وقت نک سک سے تیار رہنے کی بنیاد پہ رشتہ کرنے والے رشتہ ہوتے ہی اسے سات پردوں میں کیوں چھپانا چاہتے ہیں۔ پہلے ہی کسی سادہ رہنے والی پردہ دار لڑکی کا انتخاب کیوں نہیں کرتے؟ سادگی میں عظمت کے درس دینے والے حضرات و خواتین کو سادہ لباس دلہن کیوں نہیں بھاتی؟ آپ مانیے نہ مانیے مگر بات گھوم پھر کے طبقات بندی پہ ہی آکر رکتی ہے۔ عورت یا تو سستا مزدور ہے یا چیز ہے اور یہ وہ نظریہ ہے جو اتنا راسخ کردیا گیا ہے کہ اچھے خاصے سمجھ دار افراد عورت کو چیز سمجھ کر ہی ٹریٹ کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کو فیشن کرنا پسند ہے، عورت کو خریداری پہ پیسہ ضائع کرنا پسند ہے، عورت کو گھریلو جھگڑے پسند ہیں وغیرہ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے لیے عورت صرف اس روپ میں ہی قابلِ قبول ہے۔ عورت کی بے بسی کو، ظلم سہنے کو، خوف زدہ ہونے اور رہنے کو سراہا جاتا ہے۔ کہانیوں، فلموں، ڈراموں میں بڑھا چڑھا کے بتایا جاتا ہے۔ باہر نکل کے کام کرنے والیوں کے لیے یہ نظریہ راسخ کردیا گیا ہے کہ یہ خواتین صرف ذاتی تفریح کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ اور یہ نظریہ افسوس ناک حد تک غیر منطقی ہے۔ عورت انسانی آبادی کا آدھا حصہ ہے۔ اور نصف حصے کو چار دیواری تک محدود رکھ کر آپ معاشرہ چلا ہی نہیں سکتے۔ سرمایہ داری نظام اس حقیقت کو سمجھتا ہے۔ عورت سب سے سستا مزدور ہے اور اسے ناصرف سستا بلکہ کمزور بھی بنا دیا گیا ہے تاکہ ان اداروں اور علاقوں میں جہاں مرد مزدور سے کام لینا ممکن نہیں یا زیادہ مزدوروں کی ضرورت ہے وہاں کم خرچے پہ مزدور مہیا ہوسکے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چند اداروں کے چند عہدوں کو چھوڑ کے ہر جگہ ایک جتنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پہ ایک ہی عہدے کے لیے عورت کو مرد سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں نجی تعلیمی ادارے اس سستے مزدور سے شاید سب سے زیادہ استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ جہاں میٹرک اور انٹر پاس ضرورت مند لڑکیوں کا ہر حساب سے استحصال کیا جاتا ہے۔ کم تنخواہ دے کر بھی پیارا لگنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے ادارے وہ چاہے تعلیمی ہوں یا نہیں مگر ان کے معیار احمقانہ حد تک استحصالی ہوتے ہیں۔ انہیں لڑکی پیاری بھی چاہیے اور پردہ دار بھی۔ بار بار نکال دئیے جانے کی دھمکی دے کر بار بار جنسی حملے بھی کیے جاتے ہیں۔ اور پھر قصوروار بھی لڑکی کو ہی ٹہرایا جاتا ہے۔ نتیجتاً لڑکی خود کو پردے میں بھی محفوظ نہیں کرپاتی کیوں کہ مالک کو اس کے جسم تک رسائی سے روکنے میں اس کے گھر والوں کی ضروریات آڑے آتی ہیں۔ پردہ اس کے لیے ایسی آڑ رہ جاتا ہے جو اسے دنیا میں مزید بے عزت ہونے سے بچا سکے۔ اور کچھ ادارے یہ بھی اپنی مرضی سے نہیں کرنے دیتے۔ ادارے کا مالک چاہے گا تو وہ پردہ دار رہے اور ادارے کا مالک چاہے تو فیشن ایبل۔ ضروریاتِ زندگی پہ قابض طبقہ ویسے ہی مزدور کو اجرت کے عوض غلام کی طرح برتتا ہے جہاں اگر کھلم کھلا ان کی آزادی سلب نہ بھی کی جائے تو مختلف طریقوں سے اپنی حسبِ منشا لباس پہننے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ آپ ادارے کے مالک یا مینیجر کو خوش نہیں کر رہیں یا کر رہے ( کیوں کہ مالک کی کرسی پہ مرد ہو یا عورت نیچے والے کو استحصال سہنا ہوتا ہے) تو بار بار ایکسپلینیشنز نکالی جائیں گی۔ اور کیوں کہ ایسے اہم عہدوں تک مردوں کی رسائی زیادہ ہے اس لیے خواتین پہ یہ استحصال نسبتاََ زیادہ ہے۔
سیلف گرومنگ، کارپوریٹ ورلڈ میں ایک اہم صلاحیت سمجھی جاتی ہے جس کا آسان مطلب ہے کہ آپ خود کو کتنا مہنگا بنا کر پیش کرسکتے ہیں۔ مہنگا دکھنے کا یہ دباؤ مرد پہ بھی ہوتا ہے لیکن عورت پہ کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک طرف عورت کی تنخواہ مرد سے کم ہے دوسری طرف اس کی ناصرف آرائشی بلکہ عام استعمال کی اشیاء بھی مردوں کی اشیاء سے مہنگی ہیں۔ وہ چاہے پردہ کرنا چاہتی ہوں یا فیشن دونوں میں ایک معیار یکساں رہتا ہے کہ ان کا لباس مہنگا اور غیر آرام دہ رہے۔ اور چلیے ایک معاشرے سے الگ چلنے والی آرام کو خوبصورتی پہ ترجیح دے بھی تو بھی آرام دہ ملبوس اور جوتے اسے تب ہی میسر آئیں گے جب وہ بہتر کمانے کے لائق ہوسکے گی۔ خواتین کے لباس زیادہ مہنگے اور کم پائیدار ہوتے ہیں ساتھ ہی ڈیزائنرز ملبوسات کی دوڑ انہیں ہر بدلتے موسم کے ساتھ لباس بدلنے پہ مجبور کرتی ہے کیوں کہ یہ صرف ان کی خواہش نہیں ایک شدید تکلیف دہ معاشرتی دباؤ ہے۔
بالکل یہی صورت حال گھر پہ ہوتی ہے جہاں روٹی کما کے لانے والا مرد ہے۔ وہاں عورت کا لباس مرد کے حسب منشاء ہوگا۔ قبولیت کی سند وہی عورت پائے گی جو کما کے لانے والے مرد کی مرضی کا لباس پہنے گی۔
شوہر جو بیوی کے خرچے کا رونا رو رہا ہے اس کی نگاہِ التفات بھی اپ ٹو ڈیٹ کو ورکر یا پڑوسن کی جانب ہے۔ اور یہ بھی انفرادی رویہ نہیں۔ پتے کی بات بتاؤں آپ کو معاشرے کی اصل حالت ادب، فنون یا اخبار سے نہ پتا چلے تو وہاں پہ پسند کیے جانے والے لطائف پہ غور کرلیجیے۔ اور ہمارے یہاں کے لطائف انہی مسائل کے گرد گھومتے نظر آئیں گے، جوڑوں کا درد اور خوبصورت پڑوسن وغیرہ پھر بھی کوئی انکاری ہو تو افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
حالت یہ ہے کہ مزدور عورتوں کا عالمی دن جو کہ اس لیے منایا جاتا تھا کہ خواتین مزدوروں کو مرد مزدوروں جتنی مراعات مل سکیں اسے کمالِ خوبی سے عورتوں کا عالمی دن کہہ کر نسوانیت سیلیبریٹ کرنے کے نام پہ دوبارہ ان کاموں میں لگا دیا کہ فیشل کرکے چہرہ چمکواؤ، مہنگے ملبوسات پہنو، تکلیف دہ اونچی ایڑھی کی غیر آرامدہ سینڈل میں مہنگا پرس بغل میں دبا کر اب اوپر چاہے اسکارف اور عبایا پہنو یا نہیں وہ آپ کی مرضی اور اب آپ تیار ہیں عورت کی آزادی پہ نعرے لگانے کے لیے۔ نسوانیت سیلیبریٹ کرنے کے لیے۔ بطور عورت آپ کم خرچ بالا نشیں کبھی نہیں ہوسکتیں۔
قوم کی معاشی ترقی میں عورت کی ضرورت کو اس کی غلطی بنا کر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ وہ معیشت کا ایک اہم ستون ہوتے ہوئے بھی شرمندہ رہتی ہے۔ ایک دفعہ صرف تصور کرکے دیکھیے جہاں جہاں عورت کام کرتی ہے وہاں سے عورت کا وجود ہٹا دیا جائے تو؟ اسکول سے بطور استانی اور آیا، اسپتالوں سے بطور نرس، صفائی والی اور لیڈی ڈاکٹر، کارخانوں میں بطور پیکنگ کرنے والی پراڈکٹ بنانے والی، اشتہاروں میں دلربا مسکراہٹ کے ساتھ غیر معیاری مصنوعات بیچنے والی، گھروں کی ماسی، فصلوں پہ فصل چننے والی۔ اور ابھی بھی بہت سی جگہوں کا میں نام نہیں لے سکی۔
عورت کو سستا مزدور رہنے پہ مجبور رکھنے کے ساتھ ساتھ خود کو بطور چیز دکھانے یا چھپانے کے پیچھے ایک ہی نظریہ کارفرما ہے۔تاکہ ایک بڑا مزدور طبقہ سمجھ داری کے ساتھ معیشت کے دوڑ میں حصہ نہ لے سکے اور نہ اپنا حق مانگ سکے۔ عورت کو کم عقل رکھ کے ہم نسلوں کم عقل بنا رہے ہیں۔ جب ہم یہ نظریہ سمجھ کے درست کر پائیں گے تب صرف عورت مزدور نہیں بلکہ تمام مزدور طبقے کی بہتری کی شروعات ہوگی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...