روشنیوں کا رقص ۔
کل میں شش ماہی چیک، کھانے اور دکھانے کہ دانتوں کہ لیے ، اپنے ڈینٹسٹ کہ پاس گیا ۔ بہت زیادہ گرم دن ، آجکل یہاں درجہ حرارت ۹۳/۹۴ فارن ہائیٹ پر چلا جاتا ہے ۔ گو کہ ہوا چل رہی تھی ۔ واپسی میں ایک کیفے میں بیٹھ گیا ۔ وہاں بلکل اندھیرا تھا اور فلُور پر رنگ برنگی روشنیاں جگمگا رہی تھیں ۔ ایک ساتھ والی میز پر عورت اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کافی پی رہی تھی ۔ ایک بچہ نے اچانک ان روشنیوں پر رقص کرنا شروع کر دیا ۔ اور کہتا ہے “ماں میں روشنیوں پر رقص کر رہا ہوں “
I am dancing on the lights
والدہ نے کہا کہ بیٹا “روشنی رقص کر رہی ہے”
Light in fact is dancing
مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا “آپکا بیٹا بھی روشنی ہے، دراصل دونوں رقص کر رہے ہیں “۔ اس نے سر تسلیم خم کیا ۔
دراصل یہ عجب معاملہ ہے روشنی اور اندھیروں کا ۔ سائنسدانوں نے کافی دیر سر پھنسائ رکھا اس بات پر کہ روشنی particle ہے یا wave ، آخر کار متفق ہوئے اس حقیقت پر کہ دونوں ۔ دیکھنے والے کی نظر پر منحصر ہے ۔
اندھیرے کہ بارے میں ، کل جو میں نے کتاب کا تزکرہ کیا African Myths پر ۔ اس میں چمگادڑ کی ایک myth ہے ، کہ یہ دراصل اندھیروں کی ملکہ کس طرح بنی ۔ ہوا یوں کہ یہ ایک ہانڈی میں اندھیرا لے کر گئ چاند کی روشنی بجھانے کے لیے ۔ تو رستے میں ہانڈی چھوڑ کر کہیں آرام کہ لیے بیٹھ گئ ، جس دوران ہانڈی کا ڈھکنا اُڑ گیا اور اندھیرا چاروں اطراف پھیل گیا ۔ اس دن سے چمگادڑ سارا دن سوتی ہے اور روشنی اس کہ لیے عزاب سے کم نہیں ۔
ہمارے ایک اسلام آباد سے دوست کے ادارے میں نیپال سے ایک لڑکی ملازمہ تھی ، جس کا نام روشنی تھا ۔ ہم سب کہتے تھے کہ تمہارے معاملات روشن رہتے ہیں اس کی روشنی کی وجہ سے ۔
آجکل گھروں میں روشن دان نہیں ہیں ۔ پرانے زمانے میں روشن دان سے صبح کی پہلی کرن نمودار ہوتی تھی ۔ روشنی wave کی صورت میں نظر آتی تھی ، اور جب اسے قریب سے دیکھتے تو particle بہت واضح نظر آتے ۔
روح بھی دراصل روشنی ہے ۔ کائنات کی انرجی صرف اور صرف روشنی ہے ۔ ہم نے روح کی روشنیوں کو اپنی حماقتوں سے مدھم کر دیا ۔ ہم اندھیروں کہ مسافر تو بلکل نہ تھے ۔ ہم بھی چمگادڑ بن گئے ۔ ہم تو روشنیوں کے پاسبان ہیں ۔ ہماری روحوں کی روشنیاں تو اس کائنات کا رقص ہیں ۔ کچھ دیر کہ لیے اپنی معمول کی زندگی سے نکل کر روشنی کو ضرور اینجوائے کریں ۔ مغرب میں تو سورج کی روشنی کو پوجنے کی حد تک پیار کیا جاتا ہے ۔
ہم اندھیروں میں کیوں چلے گئے ؟ اپنی مرضی سے ؟ جی ، کیونکہ روشنیوں کو ہم نے ضائع کر دیا دوسرے کو نیچا دکھانے میں ، تعصب ، حسد اور کینہ پروری میں ۔ کل ایک دوست پاکستان سے کہ رہے تھے کہ نیا پاکستان متزلزل نظر آ رہا ہے ۔ میں نے کہا دراصل اسے روشن پاکستان کا نام دینا چاہیے تھا ۔ ریاستیں نئ اور پرانی نہیں ہوتیں ، mindsets اسے جو رنگ دینا چاہیں دے دیتے ہیں ۔ ہم خدانخواستہ مقابلے اور نفرتوں میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ ملک انتشار کی طرف جا رہا ہے ۔ ہر ایک شخص دوسرے کو کہ رہا میرا سچ تسلیم کرو ۔ یہ تو ناممکن ہے ۔ سچ تو ہر ایک کا اپنا ہے ۔ پیار صرف سانجھا ہے ۔ universal truth تو صرف پیار اور محبت تک ہی محدود ہے ۔ اس کہ آگے تو سارے معاملات بادشاہت اور سلطنتوں اور خونخوار مقابلوں کہ ہیں ۔ یہ انہیں کو مبارک ہوں جو حضرات ان کہ لیے دوڑ رہے ہیں ۔ یہ ووٹ اور بندوں کو گننے اور چننے کا نظام ہی فرسودہ ہے ۔ جیرو کا نتیجہ بھی جیرو ہی ہو گا ۔
روشنیوں میں رہیں ۔،روشنیاں پھیلائیں ۔ آپ کی روح مزید منور ہو جائے گی ۔ زہن کہ روشن دان کھول کر رکھیں ، اگر کمروں میں روشن دان نہیں ہیں ۔ روشنی ہی بہت کچھ ہے اچھی زندگیوں کہ لیے ۔ہمیشہ کی طرح آپ سے رخصت ہونے سے پہلے درخواست کروں گا، Richard Dillon کا گانا Dancing on the light
سننا نہ بھولئیے ۔ بہت خوش رہیں ۔ مجھے دعاؤں میں یاد رکھیں ، میں آپ سب کہ لیے دعا گو ہوں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔