سر چارلس نیپئر کا احسان
* 1847ءسر چالس نیپئر نے *
میں سڑکوں کے کنارے ناریل کے تیل سے جلنے والے لیمپ نصب کروائے۔ اِن لیمپوں کو روشن رکھنے کے لئے زمین کے اندر تیل کا ایک چھوٹی سی ٹینکی بنائی گئی جبکہ لیمپ 5 سے 6 فٹ کی اونچائی پر نصب کئے گئے، جن میں میونسپلٹی کے اہلکار صبح کے اوقات میں اس کی چمنیاں صا ف کر کے ان میں تیل بھرا کرتے تھے-
روشنیوں کا شہر کراچی ہمیشہ سے روشنیوں کا شہر نہ تھا بلکہ یہ تاریکی میں ڈوبا ہوا شہر ہوا کرتا تھا، جہاں شام ہوتے ہی گُھپ اندھیرا ہوجاتا تھا اور لوگ آسمان کے تاریکی کی چادر اوڑھنے سے قبل ہی اپنے کام بند کر کے سرِ شام سو جایا کرتے تھے۔ اِس زمانے میں زیادہ تر لوگ سورج کے طلوع ہوتے ہی جاگتے تھے اور سورج کے غروب ہوتے ہی اپنے گھروں میں دُبک جاتے تھے۔
رات میں گھروں کو روشن رکھنے کے لئے چراغوں اور لالٹین سے روشنی کی جاتی تھی، جو کہ انتہائی معمولی نوعیت کی ہوتی تھی مگر مجبوری کے عالم میں لوگوں کے لئے یہ مدھم روشنی ہی کافی ہوتی تھی کیونکہ اُس وقت تک کلاچی، کراچو، کراچے اور مختلف ناموں سے موسوم شہر کے لوگ بجلی کے نام سے بھی نہ آشنا تھے ماضی کے اُس دور میں چند سڑکیں ہوا کرتی تھیں اور ان پر بیل گاڑیاں، اونٹ گاڑیاں، گدھا گاڑیاں، گھوڑا گاڑیاں چلا کرتی تھیں مگر سڑکوں پر روشنی کا انتظام نہ ہونے کے سبب گھوڑا گاڑیوں پر لگے دو مٹی کے تیل سے جلنے والے چراغوں جبکہ گدھا گاڑیوں میں لالٹین باندھ کر رات کا سفر کیا جاتا تھا۔
غالباً یہ 1847ء سے پہلے کا دور تھا 1839ء میں جب انگریز آئے تو اُس وقت تک یہ شہر رات کا اندھا شہر تھا جس کے باعث شہر کے اندر چوریوں، ڈکیتیوں اور نقب زنی کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آیا کر تے تھے۔ جس کے پیشِ نظر سر چارلس نیپئر نے اِس شہر میں روشنی کے انتظامات کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے۔ اُس نے شہر کی سڑکوں کو روشن کرنے کے لئے باقاعدہ طور پر ایک بورڈ بنایا جس نے کافی غور و خوض کے بعد شہر کی سڑکوں کو روشن رکھنے کے لئے 1847ء میں سڑکوں کے کنارے ناریل کے تیل سے جلنے والے لیمپ نصب کروائے۔ اِن لیمپوں کو روشن رکھنے کے لئے زمین کے اندر تیل کا ایک چھوٹی سی ٹینکی بنائی گئی جبکہ لیمپ 5 سے 6 فٹ کی اونچائی پر نصب کئے گئے، جن میں میونسپلٹی کے اہلکار صبح کے اوقات میں اس کی چمنیاں صا ف کر کے ان میں تیل بھرا کرتے تھے جبکہ رات کو انہیں دوسرے اہلکار روشن کر نے کے لئے آیا کر تے تھے مگر پھر ان اہلکاروں نے کھوپرے کے تیل کی چوری شروع کر دی جس کے سبب لیمپ مٹی کے تیل سے جلائے جانے لگے یہ اقدام 1883ء میں اٹھایا گیا تھا۔
کراچی میونسپل کمیشن جسے 1878ء میں میونسپلٹی کا درجہ ملا، اِس کے چیف انجینئر مسٹر جیمس اسٹریچن نے پہلی بار سڑکوں کو روشن رکھنے کے لئے بجلی کمپنی قائم کرنے کی تجویز دی مگر کیونکہ بجلی کی تنصیب میں بہت سارے سرمائے کی ضرورت تھی۔ اس لئے اسی دور میں سڑکوں پر گیس لیمپ لگادئیے گئے اور گیس کے ہنڈے کو روشن رہنے لگے، جس سے سڑکیں، چوراہے پہلے سے زیادہ روشن رہنے لگے اور اندھیرے کی وجہ سے رات کو پیش آنے والے حادثات میں بھی کمی واقع ہوئی۔
گیس سے سڑکوں کو چند فرلانگ تک روشن رکھنے کا سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا، صاحبِ ثروت افراد نے گھروں کو روشن رکھنے کے لئے بھی گیس لیمپوں کا استعمال شروع کر دیا۔ ایسے میں دور سے دیکھنے پر شہر میں مدھم مدھم سی روشنی نظر آتی تھی۔ اسی دوران 1913ء میں شہر میں بجلی کی فراہمی کے لئے میسرز فار بس کیمپ بیل کمپنی باقاعدہ طور پر قائم کی گئی۔ اِس کے حصص فروخت کئے گئے تو لوگوں کی بڑی تعداد نے حصص خریدے۔ بعد ازاں یونائیٹڈ ایسٹرن ایجنسی نے سارا کاروبار خرید لیا اور شہر بھر میں بجلی کی فراہمی شروع کر دی مگر کیونکہ لوگ کرنٹ لگنے سے خوف زدہ تھے، اس لئے اکثر لوگ چراغ، لالٹین اور گیس استعمال کر تے رہے یوں پہلی جنگِ عظیم سے قبل ہی کراچی میں بجلی آگئی جس سے شہر روشن ہوگیا۔
بجلی پیدا کر نے کے لئے پہلا پاور ہاؤس کچہری روڈ جو کہ آج ڈاکٹر ضیاء الدین روڈ کہلاتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...