آئن سٹائن نے 1905 میں نظریہ اضافیت دیا جس کے بنیادی نکات میں ایک یہ تھا کہ کوئی بھی مادی شے روشنی کی رفتار یا اس سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی۔
سب سے تیز سفر کرنے والی مادی شے آج تک نیوٹرینوز ہیں جو بنیادی ایٹمی ذرے ہیں اور جنکا ماس الیکٹران سے قریب 5 لاکھ گنا کم ہے مگر انکا کوئی چارج نہیں ہوتا محض سپن ہوتی ہے۔ خلا میں روشنی کی خلا میں 299,792 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جبکہ نیوٹرونز کی رفتار 299,338 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ گویا نیوٹرینوز روشنی کی رفتار سے تقریباً 99.8 پر حرکت کرتے ہیں۔
نیوٹرینوز کی پیشنگوئی پہلی مرتبہ 1930 میں جرمن سائنسدان ولفگانگ پاؤلی نے کی جس میں انہوں نے بتایا کہ ایک ایٹم کا مرکزہ کیسے بِیٹا ڈیکے (بیٹا مت پڑھیے، وہ بہو کے نیچے زیر ہوتا ہے جبکہ یہاں زیر ب کے نیچے ہے) کے ذریعے نیوٹرینو یا اسکےضد ذرہ اینٹی نیوٹرینو (جسکی سپن نیوٹریوو سے الٹ ہوتی ہے) پیدا ہوا ہے۔
بِیٹا ڈیکے میں نیوٹران ایک الیکٹران، اور پروٹان میں تبدیل ہوتا ہے جسکے ساتھ اینٹی نیوٹرینو بھی پیدا ہوتا ہے۔ یا پھر اسکا الٹ یعنی ایک پروٹان نیوٹران میں تبدیل ہوتا ہے جس میں ایک اور ذرے کے علاوہ نیوٹرینو خارج ہوتا ہے۔
1956 میں پہلی مرتبہ نیوٹریونوز کو امریکہ کی ایک لیب میں دریافت کیا گیا۔نیوٹریو کی دریافت کرنے والے امریکی سائنسدانوں کو اس پر 1995 کا نوبل کا فزکس انعام دیا گیا۔
نیوٹریونوز کی لیب میں دریافت کے بعد اسے خلا اور زمین پر بھی ڈیٹکٹ کیا گیا۔ اس حوالے سے کئی بڑے بڑے نیوٹریونوز ڈیٹکٹر آج دنیا بھر کے مختلف حصوں جیسے جاپان، انٹارکٹیکا وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔ کائنات کی ابتدا جو بگ بینگ سے ہوئی اس بگ بینگ کے واقعے کے ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں نیوٹریونز وجود میں آئے ۔ چونکہ نیونٹریوز عام مادے کے ساتھ بے حد کم تال میل رکھتے ہیں۔ اس لیے سائنسدان بگ بینگ کے ایک سیکنڈ بعد پیدا ہونے والے نیوٹرینوز بھی آج ڈیٹیکٹ کر چکے ہیں۔ وہ “سینسدان” جنہیں بگ بینگ کے ثبوت درکار ہیں انکے لیے عرض ہے کہ جا کر سائنسی لٹریچر کنگھالیں اور دیکھیں کہ بگ بینگ کے بارے میں کون کون سے شواہد اب تک اکٹھے کیے جا چکے ہیں۔ (بگ بینگ کے 1 سیکنڈ بعد نکلنے والے نیوٹرینوز کا پیپر کا ریفرنس نیچے دے رہا ہوں جس کو پڑھنا ہے، شوق سے پڑھے اور سمجھے) ۔
نیوٹریونز ہمارے اردگرد ہر جگہ موجود ہیں۔ زمین کی کور میں ریڈیوایکٹو عناصر کے توٹنے سے بھی ہر وقت نیوٹریونز خارج ہوتے ہیں، جبکہ سورج سے بھی ہر روز کھرب ہا کھرب کی تعداد میں نیونٹریونز فی سیکنڈ زمین پر گرتے ہیں۔ کائنات میں اپنے انجام کو پہنچتے سورج سے بڑے ستارے جب سپرنووا کی طرح پھٹتے ہیں تو ان میں سے بھی کھرب ہا کھرب نیوٹرینوز خارج ہوتے ہیں جو زمین پر ہر روز پہنچتے ہیں۔ ہمارے جسم سے فی سیکنڈ 100 کھرب سے زائد نیوٹریوز آرپار ہوتے ہیں۔
نیوٹریونوز وہ واحد مادی ذرات ہیں جو روشنی کی رفتار کے قریب قریب سفر کرتے ہیں۔ آئن سٹائن کی تھیوری کو ثابت ہوئے کم و بیش سو سال گزر چکے اور اسے مختلف زمین و خلائی لیبارٹریوں میں تجربات میں بار بار ثابت کیا جا چکا ہے تاہم اب تک کوئی ایسی مادی شے سامنے نہیں آئی جو روشنی کی رفتار سے یا اس سے زیادہ تیز حرکت کر سکے۔
نوٹ: روشنی کی رفتار کائنات کا ایک بنیادی کانسٹنٹ ہے۔ روشنی کی رفتار دراصل کائنات میں انفارمیشن کی رفتار ہے۔
Reference:
https://www.nature.com/articles/s41567-019-0435-6