اسلام آباد کلب کے لائونج سے گزرتا سیڑھیاں اتر کر لائبریری جانا چاہتا تھا کہ خبر کی بھنک کان میں پڑی۔ عمران خان زخمی ہوگیا ہے۔ پلٹا اور ٹی وی کے سامنے پہلے کھڑا ہوا پھر بیٹھ گیا۔ کان ٹی وی کی طرف لگے تھے لیکن نظر لوگوں کی نقل وحرکت پر تھی۔ ایک صاحب بدحواس ہوکر ایک طرف کو چل پڑے جیسے کسی کو بتانے کے لیے دوڑنا چاہتے ہوں۔ ایک خاتون آئی اور خبر سن کر ہاتھ منہ پر رکھ لیا ۔ لائونج بھر گیا۔ لوگ کناروں پر کھڑے ہوگئے ۔خاص طورپرنوٹ کی جانے والی بات یہ تھی کہ نظریں ٹی وی سکرین پر جم گئی تھیں اور ہٹتی نہ تھیں۔ اس کے بعد جو بھی ملا اس نے اسی موضوع پر بات کی۔ چھ سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا۔ جب چیف جسٹس افتخار چودھری کو ہٹایا گیا تھا اور لوگ ٹیلی ویژن سکرینوں کے سامنے جیسے نصب ہوگئے تھے۔
زمانہ کروٹ بدل چکا ہے۔ بادشاہوں کا زمانہ لد چکا۔ یہ لیڈروں کا دور ہے۔ لیڈر کوکچھ ہوجائے تو اس کے پیروکار لمحہ لمحہ کی خبر جاننا چاہتے ہیں۔ ہمایوں کتاب خانے کی چھت سے گرا اور جاں بحق ہوگیا لیکن خبر کئی دنوں تک چھپائی گئی ۔ کبھی مطب سے دوا جاتی تھی‘ کبھی باورچی خانے سے مرغ کا شوربہ۔ کبھی بتایا جاتا تھا کہ ضعف زیادہ ہوگیا ہے اور کبھی خبر پھیلتی کہ روبصحت ہیں۔ دربار میں ایک شاعر تھا کہ شکل اور قدبادشاہ سے ملتا تھا۔ کئی دفعہ اسے محل کی چھت سے دکھایا گیا کہ ابھی چہل قدمی تو کررہے ہیں لیکن باہر نہیں آسکتے‘ یہاں تک کہ اکبر تخت نشین ہوگیا۔ فرامین ہرطرف بھیجے جاچکے ۔ تب بادشاہ کی رحلت کا اعلان ہوا۔’’عثمانی ترک بھی اسی طرح کرتے تھے۔ اب دوسری انتہا ہے کہ عمران خان کے نیچے گرنے کے منظر کو ٹیلی ویژن چینل بار بار دکھارہے تھے۔ ع
ببین تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا
عمران خان کو حادثہ پیش آنے سے لوگ بدحواس کیوں ہوگئے؟ خواتین نے منہ پر ہاتھ کیوں رکھ لیے؟مردٹیلی ویژن کے ساتھ کیوں چپک گئے۔ سوشل میڈیا پر افراتفری کیوں برپا ہوگئی۔ لوگ ایک دوسرے سے کیوں پوچھنے لگے کہ یہ سازش تو نہیں تھی؟جولوگ عمران خان کے حامی نہیں ہیں انہیں ان سوالات پر غور کرنا چاہیے۔ جسٹس افتخار چودھری کسی کے رشتہ دار تھے نہ عمران خان کا کسی سے خون کا رشتہ ہے۔ پرویز مشرف سے کسی کی ذاتی مخاصمت تھی نہ پیپلزپارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی سے کسی کا جائیداد کا تنازعہ ہے۔ خلق خدا انصاف چاہتی ہے اور انصاف قانون کی بالادستی سے ملے گا۔ جوافراد ، جوخاندان اور جو برادریاں پیپلزپارٹی اور نون لیگ سے فیض یاب ہوئیں ، ان کی بات اور ہے ۔ ان کا مستقبل بھی احسان کرنے والی ان جماعتوں ہی سے وابستہ ہے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی سوچنے سمجھنے والے لوگ ہیں، خاص طورپر شہروں کی پڑھی لکھی مڈل کلاس، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان جماعتوں نے عدل وانصاف کا خون کیا ہے۔ پیپلزپارٹی تو میرٹ کشی کے لیے نہ صرف معروف ہے بلکہ ڈنکے کی چوٹ اس کا اعلان بھی کرتی ہے۔ پی آئی اے ، ریلوے اور ان گنت دوسرے محکمے اس کی جیالانوازی کی نذر ہوگئے ہیں۔ صدر زرداری دوستوں کے دوست ہیں۔ دوست نوازی اور عدل وانصاف میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
پیپلزپارٹی کے بارے میں زیادہ بات کرنا مرے کو مارنے والی بات ہے۔ نون لیگ نے عام آدمی کے ساتھ کون سا انصاف کیا ہے؟نون لیگ کے حمایتی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ صوبے کا بجٹ ایک شہر پر خرچ کردیا گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل نے نون لیگ کی سستی روٹی اور دوسری سکیموں کے متعلق جو ہوشربا انکشافات کیے ہیں، ان کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ صوبے کے قریوں اور بستیوں میں خاک اُڑ رہی ہے، پانی ہے نہ سڑکیں ، سرکاری سکولوں کی چھتیں ہیں نہ دیواریں، نہ استاد، تحصیل سطح کے یتیم ہسپتالوں کے سوا کوسوں چلے جائیے ، بڑے بڑے دیہاتوں میں ڈسپنسری کوئی نہیں، خادم اعلیٰ صرف ایک سوال اپنے آپ سے پوچھیں ۔ پانچ سالوں میں وہ کتنے سرکاری سکولوں میں گئے ہیں؟شاید ایک میں بھی نہیں؟صوبے کے کتنے گائوں ان کے مبارک قدموں سے متبرک ہوئے ہیں؟ اعتزاز احسن کی بات پھر یاد آتی ہے کہ وہ لاہور کے نہیں صرف جنوبی لاہور کے وزیراعلیٰ تھے۔ کیا وسعتِ نظر ہے! رانا ثناء اللہ کے علاوہ کسی وزیر کا نام اس عرصہ میں شاید ہی لائم لائٹ میں آیا ہو۔ اٹھارہ وزارتیں فردواحد کی جیب میں رہیں!
لیکن پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا کیا گلہ! جن سیاسی جماعتوں نے مذہب کی مقدس چادر اوڑھ رکھی ہے، انصاف ان کے ہاں کہاں تھا؟ جے یو آئی میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس کی مارصرف ان علاقوں تک ہے جہاں تعلیم کی شدید کمی ہے، مدارس کی بہتات ہے، خاندانی نظام نے فرد کو جکڑا ہوا ہے اور عملی طورپر قبائلی سسٹم کی فرماں روائی ہے۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎
کلائیو کی یہ بات آئی پسند
کہ وہ مرگیا
جے یوآئی کا قوم پر احسان ہے کہ شہروں میں بالعموم اور مڈل کلاس میں بالخصوص اس کی دال نہیں گلتی ۔ یوں بھی اگر کوئی کہے کہ یہ جماعت یا اس جماعت کے محترم رہنما حکومت میں آکرتبدیلی لائیں گے تو یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ جناب عبدالستار ایدھی نیوکلر فزکس پر لیکچر دیں گے۔ کئی سالوں سے یہ جماعت حکومت کا حصہ ہے ۔ کراچی کے ایک شاعر کے بارے میں جمال احسانی مرحوم نے مشاعرہ کے کمپیئر سے کہا کہ انہیں سب سے پہلے پڑھوائیے ۔ کمپیئر نے کہا، سب سے پہلے ہی ہیں۔ جمال احسانی کہنے لگے مزید پہلے پڑھوائیے ۔ جے یو آئی مزید حکومت میں رہ کر کون سی تبدیلی لائے گی؟
ایک اور مذہبی جماعت، جو سیاست میں ایک بہت بڑے نام کے ساتھ درآئی تھی، صرف اس میرٹ کو میرٹ سمجھتی ہے جو اس کے وابستگان کو نوازے۔ اس جماعت کی اور اہل وطن کی دونوں کی خوش قسمتی ہے کہ یہ آج تک اقتدار میں نہیں آئی اور تھوڑا سا بھرم باقی ہے ورنہ حالت یہ ہوتی کہ ع
مارا خراب کردہ وخود مبتلا شدی
اگرچہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ سپاہ میں بھانجے کے ساتھ ماموں جان کی عملداری بھی رہی!جہاں جہاں اس پارٹی کو اختیار ملا، اس نے پیپلزپارٹی کی جیالا نوازی اور مسلم لیگ کی متوالا نوازی کو مات کردیا۔ اسلام آباد کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں ایک وقت تھا کہ اس کا غلبہ تھا۔ تقابلِ ادیان کی نشست پر انتھراپولوجی پڑھا ہوا شخص لگ گیا‘ پاکستان کی قدیم ترین یونیورسٹی کا جوحال ہوا ہے ، عبرت ناک ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک خالص سیاسی تنظیم کا یومِ تاسیس یونیورسٹی کے اندر منایا جاتا ہے!اس کی کوئی مثال دنیا کی کسی یونیورسٹی میں نہیں ملتی۔ خوف زدہ اساتذہ پچھلی ربع صدی کی روداد لکھیں تو بیسٹ سیلر کے اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ جائیں۔
یہ ہے اس پیش منظر کی ہلکی سی جھلک جو ملک میں افق سے افق تک چھایا ہوا ہے۔ انصاف کم ہی ملتا ہے۔ میرٹ کا حال یہ ہے کہ اداروں کے سربراہ دن دہاڑے رشتہ داروں کے جتھوں کے جتھے بھرتی کرلیتے ہیں اور احتساب کے تالاب میں معمولی سا ارتعاش بھی دیکھنے میں نہیں آتا۔ عمران خان میں لوگوں کو امید کی ایک جھلک نظر آرہی ہے۔ حادثے کی خبر ملی تو امید ڈولتی نظر آئی۔ خیریت کی خبر ملی تو روشنی کی کرن پھر چمکنے لگی۔