(Last Updated On: )
’’شعوروادراک‘‘صرف اس کا نام تو نہیں کہ انسان صرف اپنی ذات کو پہچانے اور پھر اس ذاتی پہچان کا اشتہار بن جائے ۔
’’شعوروادراک‘‘یہ بھی تو نہیں کہ انسان چہار اَطراف بلکہ شش جہات کا گہرا مطالعہ ، مشاہدہ کر کے کچھ بہتر سے بہتر تلاش کرے اور پھر اُسے یعنی شعورو اِدراک کی دولت کو ’ ’ذاتِ خاص ‘‘ سے ’’ فیضِ عام ‘ ‘تک لے جائے ۔ کتابی سلسلہ ’’’شعوروادراک‘‘کے مدیر محمد یوسف وحید جو کہ نام ہے محنت اور جستجو کا ، جو نامناسب ماحول ، مشکلات اور وَسائل کی کمی کو بہانہ نہیں بناتا بلکہ اندھیری غار میں راستہ تراشتا ہے ‘ روشنی کی طرف ، علم کی جانب اور آگہی کی سمت ۔
اُس کے نقاد اپنے زنگ آلود تیر ، تفنگ لیے ہمہ وَقت اُس پر حملہ آور رَہتے ہیں ۔ کوئی پوچھے’’اللہ کے بندو ! اگر آپ کے کشکول میں کچھ اچھا ہے تو پھر سامنے تو لائو ۔ یا بس تنقید اور طنز و تشنیع کے نیزے ، بھالے چلاتے ہی دُنیا سے چلے جائو گے‘ ‘۔
موبائل فون ڈائریکٹری جیسے’ ’غیر اَدبی کام ‘‘ کرتے کرتے بھی محمد یوسف وحید نے ’’ بچے من کے سچے‘ ‘ جیسا بچوں کا معیاری اَدبی میگز ین جاری رکھا جو تاحال جاری و ساری ہے ۔ ایسے کاموں کی مناسب تحسین اپنے مقامی ماحول میں نہ ملنے کے باوجود اُس کے کام کو ملکی سطح پر سراہا جاتا ہے اور سراہا جاتا رہے گا ۔
محمد یوسف وحید کی محنت اور جستجو اُسے کسی پل چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ۔ وہ بے چین رہتا ہے ، اُسے جہاں سے بھی کچھ اَچھاملتا ہے ، وہ اُسے جمع کرتا ہے ، سجاتا ، سنوارتا ، نکھارتا اور اُسے کتاب کی شکل میں ایک دستر خوان بچھا کر سب کودعوتِ عام دیتا ہے ۔
محمد یوسف وحید کے چھوٹے موٹے(حقیقت میں بڑے ) کام تو چل ہی رہے تھے مگر اُس کے اندر کے مدیر نے ایک لمبی جست بھرنے بلکہ اونچی اُڑان کا فیصلہ کیا ۔
ملک بھر سمیت بالخصوص ضلع رحیم یار خان میں علمی ، اَدبی ، ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کا کتابی سلسلہ سہ ماہی’’شعوروادراک‘‘کے آغاز کا اعلان کیا تو ہم جیسے کو تاہ قامت ، بے ہمت لوگوں نے حسبِ سابق اُس کی بات کو شوخی ، شیخی اور ڈینگ ہی سمجھا ۔ ہم نے اُسے تھپکی نہیں دی بلکہ بے ہمت اور مایوس کرنے کے لیے سوال داغا ’’ یہ کیسے ممکن ہے ؟ ‘‘
نہیں جی ! یہ نہیں ہوسکتا ۔اس کے لیے تو کوہ قاف کی پریاں اور عفریستان کے عفریت درکار ہوں گے اور کچھ سونا ، چاندی کے پہاڑ بھی ۔
محمد یوسف وحید نے ہمیشہ کی طرح سُنا اور سُنتا رہا اور اِدھر اُدھر سے اَدب کے ہیرے موتی بھی ( خاموشی سے ) چُنتا رہا ۔ ایک ایک دروازے پر دستک دی ۔ بڑ ے بڑے ناموروں نے اپنے پھیلے ، بکھرے ہوئے اَسماء گرامی سے بھی بڑی مایوسی اُس کو دی تاکہ وہ گھٹنوں کے بَل بیٹھ جائے۔
بڑے بڑے ناموں اور اُس کے رُفقا ء کو ڈر تھا اور ڈر ہے کہ کہیں وہ اُن سے آگے نہ نکل جائے ۔مگر وہ تو آگے نکل چکا ہے ۔ جو لوگ اُسے اپنے قدموں یا گھٹنوں کے آس پاس دیکھنا چاہتے تھے ‘ اَب اُنہیں اُس کو دیکھنے کے لیے چہرہ مبارک اُوپر کرنا پڑتا ہے ۔ ’’ جو یندہ یا بندہ ‘‘ ( جو ڈھونڈتا ہے وہ پالیتاہے )
’’شعوروادراک‘‘ کتابی سلسلہ نمبر 01جنوری تا مارچ 2020ء ۔ ایک گلدستہ ہے ، رنگارنگ پھولوں کا جو مدیر محمد یوسف وحید کی محنت اور جستجو کے دھاگے میں بندھا ہوا ہے ،’’شعوروادراک‘‘ پڑھنے سے ایک شعر یاد آتا ہے ؎
بے کار نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک
حمد ، نعت ، مضامین ، اَفسانے ، انشائیے ، فن و شخصیت ، خصوصی مطالعہ ، شاعری ، تبصرے ‘ اُردو ، پنجابی اور سرائیکی کا مجلہ ’’شعوروادراک‘‘ علمی و اَدبی ، تعلیمی اور سماجی شعور کا وہ سفر ہے جس کے لیے الوحید اَدبی اکیڈمی خان پور 2004ء سے آپ کو اپنے ہم سفر رکھنا چاہتی ہے ۔ بقول علامہ اِقبال ؒ کے ؎
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ اَفلاک میں ہے
عکس اُس کا مرے آئینہ ٔ اِدراک میں ہے
٭
(بحوالہ : شعوروادراک ، شمارہ نمبر 2/3(اپریل تا ستمبر 2020ء ) مدیر : محمد یوسف وحید ، ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، ص: 350)
٭٭٭