روشن اتنے کہ ملکی وے جیسی ہزاروں کہکشائیں بھی ان کی چمک کے آگے پھیکی پڑ جائیں
اور ایک انسان اُنکی چمک سورج جتنے فاصلے پر بھی غلطی سے ایک بار دیکھ لے تو اُسکی آنکھیں ہمیشہ کے لیے چندھیا جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئزار جنہیں کواسی سٹیلر آبجیکٹ بھی کہا جاتا ہے اور اختصار کے ساتھ QSO بھی۔۔۔۔
1950 میں پہلی بار اور بعد میں 1960 میں ان کا مشاہدہ ایک ستارے کے طور پر کیا جاتا رہا یعنی اُنہیں روشن ترین ستارے ہی سمجھا جاتا رہا
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں اُن دوربینوں سے دکھا جاتا رہا جن سے عام طور پر ستاروں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے ، ایسی دوربینوں سے اب بھی اگر انہیں دیکھا جائے تو یہ عام ستاروں کی طرح ہی نظر آتے ہیں
انکا مشاہدہ ریڈیو ٹیلیسکوپ سے ہی کیا جا سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر كوئزار ہم سے انتہائی فاصلوں یعنی اربوں نوری سال کی دوری پر ہیں، ایک اسٹرکچر کے بر عکس ایک کائناتی جسم کا اتنے زیادہ فاصلوں سے نظر آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بہت بہت زیادہ روشن ہیں
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انتہائی فاصلوں پر ہونے کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہم ان کو اربوں سال پہلے والی حالت میں دیکھ رہے ہیں
اس وقت کی حالت جب کائنات انتہائی جوان تھی
مثلاً اب تک کا دریافت شدہ قدیم ترین كوئزارjo 313-1806 ہم سے 13بلین نوری سال دور ہے یعنی یہ كوئزار کی اس وقت کی حالت ہے جب کائنات صرف 670ملین سال کی تھی
سائنسدان حیران تھے کہ اس وقت ہماری کائنات میں ایسا کیا ھورھا تھا جس نے كوئزار ز کو اتنی حیران کن حد تک روشن کیے ہوئے تھا
دہائیوں کے تحقیقات کے بعد سائنسدان ان کے بارے میں کچھ جان پائے ہیں کہ كوئزار ستارے نہیں بلکہ یہ بہت بڑی اور ابتدائی کائنات کی انتہائی جوان کہکشاؤں کے مرکزی بلیک ھول ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر کہشا ں کے مرکز میں ایک سپر ماسیو بلیک ہول ہوتا ہے جو ایک عام ستارے سے لاکھوں کروڑوں اور اربوں گنا بھاری کمیت کا ہوتا ہے
مثال کے طور پر ہماری کہکشاں ملکی وے جو ایک درمیانے درجے کی کہکشاں ہے اُسکا بلیک ہول سورج کی نسبت 70۔3ملین گنا زیادہ بھاری ہے اور بڑی کہکشاؤں کے بلیک ہول تو اربوں گنا بھاری ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر بلیک ھول غیر فعال ہی رہتے ہیں مگر جنہیں کھانے کے لیے بہت زیادہ مادہ مل رہا ہوتا ہے وہ فعال ہوجاتے ہیں ایسے بلیک ھول کے لیے ایک اصطلاح ایکٹو گلایکٹیک نیوکلیس active galactic nucleus استعمال کی جاتی ہے مختصراً AGN کہا جاتا ہے
یہ بھاری کمیت کا مواد جو زیادہ تر گیس اور دھول کی صورت میں ہوتا ہے بلیک ھول کے اندر گرنے سے پہلے بلیک ھول کے گرد ایک ڈسک نما شکل میں انتہائی تیزی سے گھومتا ہے، گھومنے اور بلیک ہول کے اندر گرنے کے دوران مادے کے ذرات ایک دوسرے سے ٹکراتے اور ایک دوسرے سے رگڑکھاتے ہیں جس کے سبب لاکھوں ڈگریوں تک گرم ہوجاتے ہیں بہت زیادہ الیکٹرومگنیٹک ریڈی ایشنز کا اخراج ہوتا ہے اور بہت زیادہ انرجی اور چمک پیدا ہوتی ہے یہ عمل جب عروج پر ہو تو یہی بلیک ھول کوئزار بن کر کائنات کے روشن ترین اجسام بن جاتے ہیں کوئزار اتنے زیادہ روشن ہوجاتے ہیں کہ ملکی وے جیسی کہکشاں کے تمام ستارے ملکر بھی اتنی چمک پیدا نہیں کر سکتے
اور روشن ترین کويزار تو ہزاروں کہکشاؤں کی چمک دمک کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں
فلکیات دانوں کے مطابق ان بلیک ہولز کو یہ مواد کہکشاؤں کے مرکز کے قریب علاقوں میں موجود گیس اور دھول کے انتہائی عظیم اور گہرے بادلوں سے مل رہا ہوتا ہے
کائنات اپنے ابتدائی دور میں ایسے ہی بادلوں سے بھری رہتی تھی
ایک کویزار ایک وقت میں جو روشنی اور انرجی خارج کر رہا ہوتا ہے وُہ دس لاکھ سے دس ارب سورج جیسے ستاروں کی انرجی اور روشنی کے برابر ہوتی ہے
جدید اندازوں اور پیمائش نے ماہرین کو حیران کر دیا کہ كوئزار نظریاتی درجہ حرارت 100بلین ڈگری کیلون (179بلین ڈگری فارن ہائیٹ) سے بھی بہت آگے نکل سکتے ہیں
اب اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ کیا کبھی ہماری کہکشاں کا كوئزار بن سکتا ہے يا کبھی بنا ہوگا
تو جواب یہ ہے کہ ہماری کہکشاں اتنی بڑی نہیں ہے اور نہ اس کے مرکز کے پاس اتنا مواد ہے جو بلیک ھول کے اندر گر کر كوئزار بنا سکے
مستقبل میں شاید ایسا ممکن ہو جائے جب لوکل گروپ کی تمام کہکشائیں ایک دوسرے میں مدغم ہوکر ایک بہت بڑی کہکشاں کی تشکیل کریں گی
مگر اس وقت ہم تو یقیناً نہیں ہُوں گے ہوسکتا ہے ہماری یہ رنگ برنگی زمین بھی اپنا وجود کھو چکی ہو۔۔۔
پہلے ان چمکیلے عجوبوں کے لیے ایک لمبا نام” کواسی سٹیلر ریڈیو سورس” تجویز کیا گیا
پھر پہلی بار ان آبجیکٹس کے لئے کوئزار کا لفظ ایک چائنیز طبیعات دان ہونگ زی چیو
نے اپنے ایک آرٹیکل میں استعمال کیا، اُنکا یہ آرٹیکل 1960 میں ایک امریکی میگزین فزکس ٹوڈے میں شائع ہوا تھا
ایک کوئزار ہزاروں نوری سال دور سے ہی اپنی طاقتور تابکار شعاؤں سے زمین کی فضا کو بھک سے اُڑا سکتا ہے
ماہرین کے مطابق زمین سے پلوٹو جتنے فاصلے پر اگر ایک كوئزار آجائے تو 5منٹ کے اندر زمین کے سمندروں کا تمام پانی بخارات میں تبدیل ہوجائے گا اور بہت قلیل مدت میں زمین سے زندگی کا نام و نشان مٹ جائیگا۔۔۔۔
ویسے تو اکثر دریافت شدہ كوئزار قابلِ مشاہدہ کائنات کے کناروں کے قریب ہی پائے گئے ہیں
مگر اگست 2015 میں ناسا کے ماہرین نے بتایا کہ اُنہوں نے ملکی وے سے قریب ترین كوئزار بھی دریافت کر لیا ہے
جو زمین سے 600ملین نوری سال دور ہے
یہ مرکرین 231(mrk 231) کہکشاں کے مرکز میں موجود ہے
اس كوئزار کو اس کہکشاں کے مرکز میں موجود دو بلیک ہولز نے ملکر تشکیل دیا ہے
یہ دونوں بلیک ہول ایک دوسرے کے گرد گھوم رہے ہیں بڑے بلیک ھول کی کمیت ہمارے سورج جیسے 150ملین ستاروں کے برابر ہے
۔۔۔ ۔۔۔۔۔
فلکیات دانوں نے ان چمکیلے عجوبوں کا ایک پورا گروپ بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو چار بلین نوری سالوں کے علاقے پر حکمرانی کر رہا ہے
اسے لارج ہیوج كوئزار گروپ مختصراً لارج ایچ کیو جی کا نام دیا گیا ہے، یہ 73 كوئزارز پر مشتمل ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کوئی فلکیات دان ہُوں اور نہ ہی کوئی ماہر سائینسی لکھاری، اسلئے غلطیوں کا بہت زیادہ امکان ہے میرے مضامین میں، اہل علم اصلاح کر دیا کریں
میں اپنے شوق میں سائینسی پیجز کنگالتا رہتا ہوں، جو کچھ سیکھتا یا جانتا ہوں وُہ دیگر فلکیاتی عاشقوں سے شیئر کر کے مجھے خوشی ہوتی ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کے ماخذ
ویکیپیڈیا، ارتھ اسکائی ویب سائٹ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...