یوں تو ہماری سفید مونچھیں شروع ہی سے مشہور ہیں۔ ہمیں نہیں یاد کہ ہم نے خود کو سفید مونچھوں کے بغیر کبھی دیکھا ہو۔ لیکن جب گلزار پاکستان آئے اور اپنی جنم بھومی دیکھنے دینہ تشریف لائے تو ہماری مونچھوں کی سفیدی چار دانگ پھیل گئی۔ گلزار جی کے ساتھ ہمارا محبت اور شاعری کا دیرینہ رشتہ ہے اور وہ دنیا بھر میں مقبول اتنی بڑی ادبی و فلمی شخصیت ہونے کے باوجود برملا خود کو ہماری شاعری کا مداح کہتے ہیں۔ دینہ ریلوے اسٹیشن پر ہمیں گلے ملتے ہوئے ان کے منہ سے پہلا جملہ ہی یہ نکلا ” ارے ہم تو آپ کے بہت مداح ہیں۔” واپس جا کر ہمارے بارے میں انہوں نے ایک مضمون لکھا جس کا اختتام یوں تھا؛ ” ایک بار وقت نے پہلو بدلا۔ میں لاہور گیا اور پانچ گھنٹے کا سفر کر کے، جہلم کا پُل گزر کے، دینہ پہنچا۔ کچھ احباب ملے۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا۔ ‘ میں نصیر احمد ناصر’۔ میں دیکھتا رہ گیا۔ اس کے چہرے پر روشن سفید مونچھیں تھیں۔ اس سے زیادہ خوبصورت سرپرائز مجھے زندگی میں کبھی نہیں ملا تھا۔ زندگی کتنی سخی ہے جو ایسے دوست دیتی ہے اور ایسے شاعر”۔ ان کا یہ مضمون پڑھ کر خوشی سے ہماری مونچھیں مذید روشن اور سفید ہو گئیں۔
ہم نے کبھی بالوں کی قدرتی رنگت اور عمر نہیں چھپائی۔ سفید بال ہمارا خاندانی وصف ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔ ہمارے ایک چچا زاد اور لاگ دار عباس خان، جو ازبکستان میں سب سے قدیم و معتبر پاکستانی ہیں، اپنے سر کے سفید بالوں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ پاکستان سے جتنے شاعر، ادیب، صحافی، دانش ور، افسر، وزیر، مشیر، سفیر وسطی ایشیائی ریاستوں میں جاتے ہیں وہ برکت اور کامیابی کے لیے سب سے پہلے ان کے سفید بالوں کی یاترا کرتے ہیں۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم ، عبدالستار مرحوم، سردار آصف علی، حامد ناصر چٹھہ سے لے کر “ہم سب امید سے ہیں” والے یونس بٹ اور آصف زرداری تک سب ان کے سفید بالوں کے اسیر رہے ہیں۔ اُس وقت تک زرداری صاحب صرف ٹین پرسنٹ اور مونچھوں پر گزارا کرتے تھے۔ وسطی ریاستوں کے دوروں میں محترمہ تو سرکاری امور میں مصروف رہتیں اور زرداری صاحب اپنے “چکروں” میں عباس خان، جو تابانی گروپ آف کمپنیز کے جنرل مینیجر تھے، کے ارد گرد رہتے۔ محترمہ کے بعد وہ پارٹی اور ملک دونوں کے سفید و سیاہ کے سو فیصد مالک بن گئے اور مونچھیں دس فیصد رہ گئیں۔ شکر ہے برادرِ کلاں عباس خان نے اپنی مونچھیں برف باری کے موسم سے پہلے ہی صاف کر دی تھیں ورنہ ان کی اور ہماری مونچھوں کا ٹاکرہ ہو جاتا۔ جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں اس طرح ایک خاندان میں دو سفید مونچھوں والے نہیں رہ سکتے۔
لوگ بالوں کو کالا کرتے ہیں جبکہ ہمارے بارے میں احباب سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں سفید کرتے ہیں۔ یہ ہماری سفید مونچھوں کا کمال ہے جو ہمیں بوڑھا نہیں ہونے دیتیں ورنہ یار لوگ تو ذرا سی سفیدی آتے ہی تسبیح پڑھنے لگتے ہیں۔ ہمارے بلکہ ہماری دوستوں کو ہماری سفید مونچھوں سے بڑا لگاؤ ہے۔ ایک بار ہمیں لاہور جانا تھا۔ جانے کیوں ہماری اہلیہ محترمہ نے زندگی میں پہلی بار حفظ ماتقدم کے طور پر، خواتین کی نظرِ سیاہ سے بچانے کے لیے ہماری مونچھوں پر تھوڑی سی سیاہی پھیر دی۔ شیشے میں دیکھتے ہی ہمارے تو اوسان سیاہ ہو گئے۔ اتنی شب زدہ مونچھیں ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ اب کیا کرتے، ایک ہفتہ لاہور جانا موقوف کیا تا کہ مونچھوں کی کھوئی ہوئی سفیدی واپس آئے ورنہ کن مونچھوں سے دوستوں کا سامنا کرتے۔ خیر ہفتے بعد لاہور گئے اور اپنے میزبان چوہدری اعجاز صاحب کے گھر داخل ہوتے ہی سامنے سے بشریٰ اعجاز منہ کھولے دیدے پھاڑے وارد ہوئیں، نہ سلام نہ دعا نہ چائے نہ پانی،”عورتوں کی طرح” منہ پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوئیں “ہائے یہ کیا ؟” ہم نے گھبرا کر سر پر ہاتھ پھیرا کہ کہیں سینگ تو نہیں اگ آئے۔ یہ عقدہ تب کھلا جب انہوں نے فوراً ہی مذید لب کشائی فرمائی ” جائیے واپس اپنی مونچھیں سفید کر کے آئیے۔” بس پھر کیا تھا جنتے دن لاہور قیام رہا ہم گیسٹ روم سے باہر نہ نکلے۔ نہ کہیں گئے نہ کسی کو آنے دیا۔
ہماری مونچھیں اتنی بھی سفید نہیں جتنی نظر آتی یا تصویروں میں دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں خاصے کالے بال بھی ہیں لیکن جانے کیوں وہ ہمارے دوستوں کی کالی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور کیمرے کی آنکھ اور فلیش لائٹ چمکتے ہی ان پر چونا پھر جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست اور سینئر میڈیا جرنلسٹ طاہر راٹھور کو ہماری مونچھوں میں ایک بھی سیاہ بال نطر آ جائے تو اپنی صحافیانہ اور اینکرانہ نظروں سے یوں گھورتے ہیں جیسے کوئی خبر مِل گئی ہو۔ جواباً ہم ان کی چندھیا کی طرف دیکھنے لگتے ہیں جو اب تقریباً فارغ البال ہو چکی ہے۔ خود تو اب وہ اسود و ابیض کے چکر سے آزاد ہیں مگر دوستوں کے بال بال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان سے ملاقات کے دوران ہر آن یہی خدشہ رہتا ہے کہ کہیں مونچھوں میں سیاہ بال دکھائی دینے کی بریکنگ نیوز نہ چلا دیں۔ ہمارے ایک اور دوست محمد الیاس ہیں جو اچھی خاصی بِگ سائز مونچھیں رکھتے تھے لیکن جب سے ان کے ناولوں کی ضخامت اور قیمت بڑھی ہے مونچھیں سکڑ کر قریب الغائب ہو گئی ہیں۔ اپنے حسنین جمال اور “نئی بات” والے حافظ شفیق الرحمٰن بھی اگر باریش نہ ہوتے تو باکمال مونچھ بردار ہوتے۔ عزیزانِ محترم وجاہت مسعود اور وقار احمد ملک دونوں بھلے آدمی ہیں اور لگتا ہے کہ سرے سے اس “بارِ لطیف” کے سیاہ و سفید سے بے نیاز ہیں۔ اگر انھیں معلوم ہو جائے کہ جو کشش بلکہ کششِ ثقل موچھوں کی سفیدی میں ہے وہ سر کے گھنے اسودی بالوں اور بڑے بڑے بلیک ہولز یعنی ستاروں میں بھی نہیں تو خامہ و قرطاس چھوڑ کر ہماری طرح دھوپ میں “موچھ آرائی” شروع کر دیں۔
کہنے کو تو ہم جٹ ہیں اور جٹکا قسم کی مونچھیں بھی رکھتے ہیں، سفید ہی سہی، لیکن درحقیقت ہم میں جٹوں اور چوہدریوں والی کوئی صفت نہیں ۔ بلکہ جب سے گجرات کے چوہدری برادران سیاست میں آ کر روٹی شوٹی کھلانے لگے ہیں ہمیں اپنے جٹ اور چوہدری ہونے ہر شرمندگی ہوتی ہے۔ اپنے نام کے ساتھ چوہدری کا لاحقہ یا سابقہ ہم نے کبھی نہیں لگایا۔ نہ ہماری موچھوں سے چنگاریاں نکلتی ہیں نہ ہم ڈانگ سوٹا کر سکتے ہیں نہ مولا جٹ کی طرح گنڈاسہ بازی اور نہ بڑھک مار سکتے ہیں۔ بندہ مارنا تو دور کی بات ہم ایک چیونٹی بھی نہیں مار سکتے۔ ہم تو مونچھوں پر تاؤ بھی نہیں دے سکتے بلکہ تاؤ والی اوپر کو اٹھی ہوئی نوکدار مونچھیں ہمیں سخت نا پسند ہیں۔ ہمیں تو اپنے جیسی عاجزانہ شاعرانہ مونچھیں پسند ہیں، بے ضرر سی، سفید جھنڈے جیسی صلح جُو جن سے شاعرات تک نہیں ڈرتیں۔ اور تو اور اپنے انوار فطرت بھی ان کے رعب میں نہیں آتے اور انہیں دیکھ کر دھیما دھیما مسکراتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کالم نگار، شاعرہ اور ہماری مداح قرۃ العین فاطمہ نے ہمیں ہمارے سفید بالوں اور مونچھوں کی بدولت بچہ سمجھ کر نہ صرف ہم پر ایک نظم لکھ ماری ہے بلکہ مونچھوں کے بجائے ہماری نظموں سے ڈر کر باقاعدہ شاعری کرنے لگی ہیں۔ شکر ہے کہ ہم میں کوئی تو ڈرانے والی چیز ہے ورنہ ناگڑیاں، جو ہمارا آبائی گاؤں ہے، کے سارے جٹوں کی ناک چوٹی پر آفت آ جاتی اور یارِ عزیز شاعرِ دلپذیر فخرِ کُھنڈا فرخ یار بھی ہمیں “کھنڈی مار” مارنے لگتا۔ آپ بھی قرۃ العین فاطمہ کی نظم ” سفید بالوں والا بدھا” کی چند سطریں بطورِ تبرک پڑھیے اور ہماری سفید مونچھوں کے لیے دعائے خیر کیجیے؛
"تم سفید بالوں والے
دیوتائی بچے ہو
جو اتنی کم عمری میں
مستقبل کو دیکھ سکتا ہے
کبھی کبھی لگتا ہے
تم سفید بالوں والے بُدھا ہو
جو برگد اوڑھے بیٹھا ہے
تمہاری دانش بھری گمبھیرتا
تمہاری مونچھوں کے جنگل جیسی گھنی ہے
تمہاری دھوپ اور چھاؤں
تمہاری شاعری کی طرح خالص ہے
اور تمہارے سر پر
سفید بادلوں کے ڈھیر ہیں
تمہیں معلوم تو ہو گا
کائنات کب واپس ایک نقطے میں سمٹ جائے گی؟"
"تم سفید بالوں والے
بوڑھے بچے ہو
موت تمہاری سہیلی ہے
مگر مجھے وہ اچھی نہیں لگتی
میں تتلیوں کے پیچھے بھاگنا،
تمہارے لگائے ہوئے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھنا
اور تمہارے بنائے ہوئے راستوں پر چل کر
دور پار دریاؤں کو دیکھنا چاہتی ہوں
اور تم کہتے ہو
سمندر جوہڑ بن جائیں گے
تتلیاں اور پرندے معدوم ہو جائیں گے
اور درخت کوئلہ بن جائیں گے
پلیز ڈراؤ مت
مجھے پانیوں کے خواب اچھے لگتے ہیں
لیکن تمھیں پڑھتے ہوئے
میری نیند اُڑ جاتی ہے
اور مجھ میں سوئی ہوئی نظمیں جاگ جاتی ہیں
میں لکھنے لگتی ہوں!"
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“