زندگی سے کسے پیار نہیں ہوتا ۔جانوروں ،پرندوں ،حشرات حتیٰ کہ نباتا ت تک میں اپنی بقا کی جدوجہد اور اسکے دفاع کا جذبہ پوری طرح کار فرما بلکہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
اور کیوں نہ ہو کہ زندگی سے نفرت بیمار ذہنوں کی عکاس تو ہو سکتی ہے بیدار ذہنوں کی ہرگز نہیں ۔
سو یہ ثابت ہوا کہ یہ ایک مثبت جذبہ ہے جو لائقِ داد و تحسین ہی نہیں لائقِ تقلید بھی ہے۔ ہاں مگر زندگی سے پیار جب موت سے انکار بن جائے تو انسان کے افکار ہی بدل کر رہ جاتے ہیں(باالفاظِ دیگر یہ حسینی نہیں رہتے یزیدی ہو جاتے ہیں )انسان کو اگر مرنا نہ ہوتا تو جینا کبھی بھی اسے مرغوب نہ ہوتا۔جبھی تو یہ کہا گیا ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔لیکن جب یہ ضد انکار کی زد میں آتی ہے تو ’’اپنے اپنے مقام پر تم نہیں یا ہم نہیں ‘‘کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
موت کا انکار ممکن لیکن اس سے فرار بالکل بھی نہیں۔آئے روز اپنے کندھو ں پر اپنے پیاروں کی میتیں اٹھا کر بھی ہمارا یہ یقین کمزور نہیں پڑتا کہ ہمارے قدموں تلے بچھا زمین کا یہ تخت کبھی بھی ریت کی طرح سرکے گا نہ ہماری ٹانگیں ہمارے اپنے وزن کے بوجھ سے کبھی لڑکھڑائیں گی۔
ہزاروں اعلانات سنے، ہزاروں چہرے موت کی گرد نے دھندلائے۔۔۔۔ پھر بھی یہ دل بضد ہی رہا
’’ وے بلہھے آساں مرناں ناہیں ۔۔۔۔گور پیا کوئی ہور ‘‘
میرے مولا کا یہ فرمان آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے
'’ وہ سب سے بڑی حقیقت جس کا سب سے بڑھ کر انکار کیا گیا، موت ہے‘‘۔
سردار پلو خان کربلائی کاخاندان خاندانی نجابت، لیاقت ، شرافت، سیادت، سماجی و دینی خدمت، حمیت اور علاقائی قیادت کے حوالے سے کسی تعارف کا ہرگز محتاج نہیں۔علی پور کی تاریخ انکی خدمات کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔اور کیوں نہ ہو علاقائی تاریخ کا دامن ان کے ذکر سے چھلکتا ہے۔اور انکے کارنامے اس تاریخ کے سرنامے کی حیثیت رکھتے ہیں۔انکی خدمات کا سرکاری سطح پر اعتراف وہ ذیلداری بھی تھی جو نسل در نسل انکے خاندان میں منتقل ہوتی رہی۔کسی نے کہا تھا
’’فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص‘‘۔
مقامِ حیرت و انبساط ہے کہ اس خاندان کے افق پر ایک سے بڑھ کر ایک ستارہ ابھرا اور یوں چمکا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوا جاتا ہے کہ کس کو اس خاندان کا حقیقی نمائندہ و ترجمان کہا جائے۔
تحریک پاکستان کے عظیم رہنما اور قائدِ اعظم کے جانباز سپاہی و جانثار ساتھی
سردار کریم بخش حیدری انہی کے فرزند تھے ۔تحریکِ پاکستان میں جنکی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں (انہی کے گھر میں اللہ تعالی ایک ایسا بیٹا بھیجا جس نے آگے چل کر اس خاندان کا وقار بھی بننا تھا اور سنگھار بھی )
مگر افسوس نااہل و محسن کش قوم اور متعصب مورخوں نے ان ناقابلِ فراموش شخصیات کو فراموش کر ڈالا ۔جو قوم اپنے ماضی کو بھلا دے انکا وہی حشر ہوتا ہے جو ہم اپنی قوم کا بچشمِ خود مشاہدہ کر رہے ہیں۔ افسوس سامراج کو ناکوں چنے چبوانے والے ’’کعبے کے بتوں ‘‘سے ہا ر گئے۔
لیکن یہ ہار مجاہدوں کے گلے کا سنگھار ہے اور مفاد پرستوں کے گلے کی رسی۔
میرے دادا زندہ ہوتے تو ان کے لب پر یہ شکوہ ہرگز نہ ہوتا کہ وہ حق پرست تھے مفاد پرست نہیں ۔انکی خدمات انکے ملی جذبے کے تحت تھی نہ کہ کسی دنیاوی مفاد کے بموجب ۔آج انکا پوتا اگر شکوہ کناں ہے تو محض ریکارڈ کی درستی کے لئے ۔کیسا غضب ہے اور کیا عجب کہ قومی تاریخ میں ان لوگوں کے نام تو درج ہوں جن کا اعزاز محض یہ ہے کہ انہوں نے (بقول خود انکے )ایک با ر قائدِ اعظم کا خطاب سنا تھا یا ان چڑھتے سورج کے پجاریوں کے کہ جو ہوا کے رخ پر اپنا رخ پھیر لیا کرتے ہیں ،لیکن ان کا ذکر ڈھونڈے سے نہ ملے جنہوں نے ’’دامے درمے سخنے قدمے ‘‘ اس مملکتِ خدادا کے قیام ،حفاظت اور مضبوطی کے لئے کام کیا ہو۔ اس اندھیر نگری پر مجھے اپنا ہی ایک شعر رہ رہ کر یاد آتا ہے
جو راہی نہ تھے راہنما بن گئے ناخن کٹا کے شہیدِ وفا بن گئے
تحریک پاکستان کے اس عظیم مجاہد کا ذکر بس یہیں تک کہ ان کے حوالے سے ایک تفصیلی آرٹیکل جلد ہی قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کروں گا، انشاء اللہ۔
سرِدست راقم کو اپنے بابا پر چند سطور لکھنی ہیں
۔ بابا کی جدائی کا غم اور غمِ روز گار مل کر اس کام کو دشوار تر کر چکے تھے ۔ایک لحاظ سے میں ہمت ہار چکا تھا۔کئی بار کوشش بھی کی لیکن قلم سے الفاظ نکلنے سے پہلے
جذبات امڈ آتے اور میرے ہاتھ روک باندھ دیتے۔
پہلی بار احساس ہوا لکھنا کوئی آسان کام ہرگز نہیں ۔اپنے قریبی لوگوں پر لکھنا ہو تو کبھی بھی نہیں ۔
یہ میری زندگی کا مشکل ترین مرحلہ ہے قلم ،ہاتھ ،ذہن ،الفاظ ۔۔۔۔کچھ بھی تو میرے اختیار میں نہیں رہے۔
بابا کے بارے میں کیا لکھوں اور کیا نہیں یہ فیصلہ کرنا بھی میرے بس میں نہیں ۔
یہ ضرور کہوں گا کہ جیسے میرے دادا بابائے قوم کے سپاہی تھے ایسے میرے بابا قائدِ محترم کے سپاہی ۔بھائی سجاد علی حیدری بتاتے ہیں کہ قائد محترم لاہور میں بابا کی عیادت کے لئے آئے تو خود سے بے سدھ میرے بابا یوں اٹھ کر بیٹھ گئے جیسے انہیں سرے سے کوئی تکلیف کبھی تھی ہی نہیں ۔یا یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اپنے قائد کو دیکھ کر میرے بابا کے سارے دلدرف دور ہوگئے ہوں۔بابا کی شخصیت کا یہ پہلو حد درجہ نمایاں ہے کہ انہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا ۔وفاداری، مولا عباس کے اس غلام کی سرشت میں تھی اور یقیناً یہ سرکارِ وفا مولا غازی عباس علمدار سے انکی نسبت کا فیض تھا(انکے بارے میں تھا لکھتے ہوئے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے )۔جب بد باطن و بد شرست لوگوں نے اپنے خبث ِ باطن کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ملت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تو کچھ دیر تک تو یوں لگا جیسے یہ سیاہ کار اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو گئے ہوں ۔کتنے ہی زاہدوں کا باطنی روگ انکے چہرے غبار آلود کرگیا (اور آج تک ندامت سے ان میں سے بہت سوں کی پیشانیاں عرق آلود ہیں )تب بھی میرے بابا کے قدم ایک لمحے کو بھی نہ لڑکھڑائے نہ ایک پل کیلئے ہمیں یہ گمان ہوا کہ وہ اپنے قائد کو ایسے مخدوش حالات میں کبھی تنہا چھوڑیں گے۔قیادت کے حوالے سے انکا یہ غیر متزلزل طرز فکر انکی شخصیت کے وقار کے لئے تنہا کافی ووافی ہے اور بھلائے نہیں بھولتا ۔وہ کچھ اور نہ بھی کرتے تو انکی روحانی بقا کے لئے بس یہی حوالہ بہت تھا۔یہ بات کس قدر لائقِ اتباع ہے کہ انتہائی نازک حالت بھی انہوں نے اپنے قائد سے آئندہ کا پروگرام پوچھ بیٹھے ۔جس پر قائدِ محترم بے ساختہ کہہ اٹھے ’’سردار صاحب آپ کے لئے کوئی پروگرام نہیں‘‘ ۔اگر آپ لوگ اس لمحے کی تصویر مشاہدہ فرمائیں تو بابا کو پہچان نہ پائیں ۔
انکی مذہبی خدمات کا تذکرہ میں کیا کروں کہ ملت اس بارے میں کم از کم مجھ سے تو کہیں زیادہ آگاہ و واقف بھی ہے اور معترف بھی۔فرشِ عزا پر ہی میں نے کسی بزرگ کے یہ جملے سنے اور فوراً قائل بھی ہوا کہ میرے والد اپنے عظیم والد سے کہیں بڑی شخصیت کے مالک تھے کہ انہوں نے بہت پر آشوب دور پایا اور آخری دم تک ثابت قدم رہے ۔خود مجھے اپنے بابا کی عظمت اور مقام کا ٹھیک سے اندازہ تب ہوا جب وہ کسی انجانی دنیا کا قصد کر چکے تھے۔ انکے آخری ایام کی رودا اگلے کسی کالم میں قارئین کو ہدیہ کروں گا کہ ان ایمان افرز واقعات کا قرطاس پر نکھرنا اور مثل خوشبو بکھرنا ایمان کی تازگی کا موجب ہوگا ۔
مجھے رہ رہ کر اپنی دادی اماں کا خیال آتا تھا کہ جن کا اکلوتا بیٹا انکی زندگی میں ہی اس دنیا سے منہ موڑ گیا ۔سچ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں آنے کی ترتیب ہے جانے کی نہیں ۔اگر یہ اختیار کسی انسان کے پاس ہوتا تو والدین یہ کبھی نہ ہونے دیتے کہ ان کے جیتے جی انکی اولاد منوں مٹی تلے جا چھپے اور وہ زمین پر بیٹھے انکا سوگ مناتے رہیں ۔آج وہ ہاتھ خالی ہیں جنہوں نے بابا کو اٹھا یا تھا،انکے لاڈ سہے تھے۔وفات سے کچھ دن پہلے، لاہور سے واپسی پر بابا اپنی ماں کے کمرے میں لائے گئے تھے۔وہاں وہ کافی دیر موجو د رہے ،ماں کے پہلو میں لیٹے تو یوں لگا جیسے وہ پھر سے بچہ بن گئے ہوں ۔تھک ہار کر ماں کی گود میں سو جانا چاہتے ہوں ۔یوں لگا جیسے وہ آخری لمحات صرف ماں کے پاس رہ کر بتا دینا چاہتے ہوں اور یہ بتا دینا چاہتے ہوکہ انسان کسی بھی حالت میں ہو،اپنی ماں کو ہرگز بھلا نہیں سکتا ۔اسکا عملی اظہار اس و قت ہوا جب بڑے بھائی حیدر علی حیدری کے بار بار اصرار پر بھی وہ وہا ں وہیں رہنے پر بضد رہے ۔اس وقت وہ مجھے کسی بچے کی ماند ضدی دکھائی دیئے۔بھائی کے اصرار پر انکے مختلف جملے ۔’’کھڑ وے یار کھڑ‘‘۔کھڑ میکوں سردی لگی پئی اے ‘‘،میں کبھی بھلا نہیں سکتا ۔میں ہی کیا جوبھی وہاں موجود تھاکبھی فراموش نہیں کر پائے گا ۔انکے دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنی دادی اماں سے جب میں نے انکی تاریخِ پیدائش پوچھی تو انہوں نے روتے ہوئے بتایا ’’تیرے بابا اسی سا ل پیدا ہوئے جس سال پاکستان بنا تھا ۔میں نے پاکستان اور تیر ے بابا کو ایک ساتھ پالا ہے بیٹا !‘‘۔
یہ ہماری تاریخ کا بد ترین المیہ ہے کہ جن لوگوں کے دامن تحریک پاکستان کی پرزور مخالفت کے حوالے سے تار تار ہیں ،آج انہی کے سیاسی وارثین ہمیں اسلام کا سبق پڑھانے بلکہ سبق سکھانے کے درپے ہیں ۔بے ضمیری ملاحظہ ہو کہ شرمندہ ہونا تو رہا ایک طرف گاہے بگاہے یہ فرما کر اپنا خبثِ باطن ایکسپوز فرماتے رہتے ہیں کہ ان کے آباء واجداد پاکستان بنانے کے جرم میں شریک نہیں ۔طالبانی کلچر کے تمام کار پرداز اور انکے حامی سیاسی و مدرسی علماء اسی سوچ کے ناصرف حامل ہیں بلکہ پرچارک بھی ۔
سچ ہی تو کہا ہے شاعر نے کہ
نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھئے منز ل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
انہی بے ضمیر لوگوں نے ہر بار میرے بابا کا راستہ روکا اور انہیں سخت سے سخت آزار پہنچا نے سے کبھی بازنہیںآئے۔انہیں بارہا پابندِ سلاسل کرانے اور پسِ زنداں بھجوانے میں اس امن دشمن و انسانیت مخالف جتھے نے کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ناجانے کتنی بار انہیں جیل جانا پڑا ۔تین باران پردفعہ تین سو دو کا نامز پرچہ ہوا ۔امام سجادعلیہ السلام کے اس سچے پیروکار نے خندہ پیشانی سے یہ سب سہا ۔نہ کبھی ہمت ہار ی نہ ہار مانی کہ طاغوت کو انکارانکی رگوں میں خون کر طرح رواں رواں تھا ۔اپنی عمر کا آخری ایام میں بھی وہ ایک قتل کے مقدمے میں نامزد تھے ۔کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ پنجاب حکومت کے لے پالک دہشت گرد کی علی پور آمد کے دن جو وقوعہ علی پور کی سرزمین پر پیش آیا،میرے بابا انتظامہ کے ساتھ ایک مسجد موجود تھے ۔اسی دوران وائرلیس پر انکی ڈی پی او سے اٹھارہ منٹ گفتگو بھی ہوئی۔اور پھر خبر آئی کہ باباکے خلاف قتل کا نامزد پرچہ ہوچکا ہے۔پچھلی گرمیوں میں کئی ماہ انہیں پسِ زنداں رہنا پڑا جس نے بابا کی صحت کا نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا یا۔وہ جو اے سی کے بغیر یہ گرم موسم گزار نہیں پاتے تھے،جیل کی تنگ و تاریک اور حبس زدہ کوٹھڑی میں ان پر کیا بیتی ہوگی اس کا اندازہ لگانا انتہائی آسان اور اسے جھیلنا حد درجہ مشکل امر ہے ۔۔۔۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی ماہ میں وہ آدم زاد سے محض ایک یاد میں بدل کررہ گئے۔ایک زندہ و جاویدیاد ،ہر دم توانا یاد،ہر دم جواں۔۔۔۔۔
بہت سوں کے لئے کہانی ختم ہوئی لیکن ہمارے لئے تو اس کا ابھی آٖغاز ہو ہے ۔انکی یا د ہمیں کب کب رلائے گی ۔ہم خود بھی اس لاعلم ہیں کہ ’’محبت تو اپنے اختتام تک کھلتی ہی نہیں ‘‘۔وہ سب لوگ بہت خوش نصیب نہیں جنہوں نے رویا اور اپنا غلط کر لیا ۔کہ غم تب کب کم ہوجا یا کرتا ہے جب دل خم ہو جائے ،آنکھ نم ہو جائے ۔لیکن ہمیں تو مولا کے اس زوار و عزادار کی یا دکو ہردم زندہ رکھنا ہے،یاد کو بھی اور اپنی آنکھوں کو بھی کہ ان کی شخصیت دوسروں کے بالعموم اور ہمارے خاندان کے لئے با لخصوص چراغِ راہ ہے بھی ہے چراغِ منزل بھی ۔
جو قوم اپنے ماضی کی حفاظت نہ کر پائے اس کا حال بد حال ہوتا ہے اور مستقبل ۔۔۔۔۔گمنام بلکہ۔۔۔معدوم ۔جس قوم کی تاریخ کا قافیہ بدل جائے اس کا جغرافیہ کب سلامت رہ سکتا ہے ؟ہمارابہت کچھ تو کب کا بگڑ چکا ہے اور جو باقی بچا ہے اسے ہمارے دشمن اور دوست نما دشمن(مذہبی و سیکولر انتہا پسندطبقات)بگاڑنے ہی نہیں مٹانے پر تلے ہیں ۔ ہمارا ناطہ،واسطہ اور رابطہ اپنے ماضی و محسنانِ ملت سے نہ ٹوٹتا تو وقت ہم پر یوں قیامت بن کر کبھی نہ ٹوٹتا۔افسوس اتنا کچھ گنوانے کے بعد بھی تاحال جڑ نہیں سکا ۔ کیا قیامت ہے کہ اس کا احساس تک ہم میں اب تک بیدارنہیں ہو ا۔ہمارا بے سمت میڈیا بھی اس سلسلے میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔اکثر یت کا کردار گھناؤنا ہی نہیں گمراہ کن بھی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ محب وطن افراد کو آگے آنے دیا جائے ۔لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ولن کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی روش ترک کی جائے گی کہ اس طرزِ عمل نے درد مندانِ قوم کا بہت دل دکھایا اور سینہ جلایا ہے
میرے بابا کی وفات پر تعزیت کے لئے آنے والے ایک اجنبی شخص نے انکا ذکر خیر کیااور ایک واقعہ سنایاجو بیان کئے بنا رہ نہیں پایا۔ بات کرتے کرتے انکی آواز بھراگئی تو میں نے بے اختیار انکے چہرے پر نظر کی ۔آواز کے ساتھ ساتھ ان صاحب کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں ۔فرمانے لگے ’’یہ غالباً سن 86کا ذکر ہے ۔ضیا کا آمرانہ دور تھا ،شہید عارف الحسینی ملتا ن آئے ہوئے تھے ۔قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام تھا ۔اسی دن یہ آمر بھی ملتا ن آیا ہوا تھا ،سو شہر بھر میں ہائی الرٹ تھا۔اسٹیج سیکریٹری آپ کے بابا تھے ۔انہوں نے اپنی خطابت کا وہ جادو جگایا کہ حاضرین قائدشہید کے ساتھ ساتھ انکا خطا ب بھی کبھی بھلا نہیں سکتے ۔ہم نے اپنے اپنے گھروں کا رخ کیا تو تب بھی انکی آواز کانوں میں گونجتی محسوس ہوتی تھی‘‘۔
قارئین باتمکین !یہ میرے چند ٹو ٹے پھوٹے الفاظ ہیں جو میں تبرکا تحریر کئے ۔ان میں آپکو ربط کی شدید کمی محسوس ہوئی ہو گی ۔جب ضبط کا یارا نہ ہو تو ربط میں ایسی کمی کچھ ایسی غیر فطر ی بات بھی نہیں ۔بابا مجھے لکھنے کی تحریک دلایا کرتے تھے۔اورمعاصر ’’المنتظر‘‘ میں میری تحریر دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتے تھے۔مجھے دینی موضوعات پر زیادہ سے لکھنے کی نصیحت بار بارکیا کرتے۔مقام شکر ہے کہ میں نے انکی زندگی میں ہی ان کی خواہش کسی حد تک پوری کی۔آئندہ بھی اپنے اس محبوب مجلے میں لکھتا رہوں گا ۔آپ نے اس کالم کی پیشانی پر میرا نام صفدرعلی حیدری کی بجائے ’’تاثیر حیدری ‘‘لکھا گیاہے ۔یہ دراصل بابا کا حکم تھا کہ میں روزنامہ ’’ خبریں ‘‘ میں اپنے اصل نام سے لکھوں اور اس رسالے میں اپنے قلمی نام سے ۔سو انکی خواہش کے احترام میں آج کے بعداس اسالے میں میرے آرٹیکل آپ اسی نام سے ملاحظہ فرمائیں گیا۔انشاء اللہ
آخر میں آپ سے وہ جملہ عرض کرتاہوا اجازت چاہوں گا جو مجھے میرے چھوٹے بھائی عرفان علی حیدری نے اس وقت کہا تھا جب میں ابو سے ملنے علی پور کی سمت روانہ تھا ،جس کی گونج سے میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ،شاید آئندہ بھی بھیگ جاتی رہیں
’’ صفدر ! آ ونج یتیم تھی گیسے ‘‘
یوں لگتا ہے کہ یہ دو شعر کسی نے شاید میرے بابا کے لئے کہے ہوں
گئے دنوں کا تھکا مسافر تھکا کچھ ایسا کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے
اور
آسمانوں سے اتارے ہوئے روشن چہرے
کھینچ لیتی ہے زمیں او ر یقیں ٹوٹتا ہے