پاکستان کے سمندری ساحلوں کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی غیرممالک کی تاریخ سوویت یونین کے قیام سے قبل ہے۔ جو لوگ یورپی تاریخ پر گرفت رکھتے ہیں، وہ یورپ اور روس کے صدیوں پرانے تصادم اور کشمکش سے بخوبی آگاہ ہیں۔ گرم پانیوں تک روس کی رسائی کو ناممکن بنانا یورپ کی پرانی کوششوں میں سرفہرست رہا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے رہے کہ سوویت یونین اپنے اشتراکی انقلاب کو گرم پانیوں تک پھیلانا چاہتا تھا، وہ تاریخ سے سرسری آگاہی رکھتے ہیں۔ برطانوی سامراج نے زارِ روس کے زمانے سے ہی متحدہ ہندوستان میں پراپیگنڈا کرنا شروع کردیا تھا کہ روس، برصغیر کے گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے۔ 1917ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد برطانوی سامراج نے متحدہ ہندوستان میں یہ پراپیگنڈا تیز کردیا۔ 1947ء کی آزادی کے بعد اس خو ف کے تصور کو امریکی سامراج نے خوب تقویت دی اور یوں افغانستان میں اشتراکی افغان حکومت کی مدد کے لیے آنے والی سرخ فوج کو یہ کہہ کر امریکہ اور دنیا بھر میں اس کے اتحادیوں نے یہ ثابت کرنے کی تگ ودو کی کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے۔ اور یہ کہ وہ افغانستان کے پتھروں سے کھیلنے کے لیے تو نہیں آیا۔ اس خوف کے تصور کو ہمارے ملک کے حکمرانوں، پالیسی سازوں، دائیں بازو کے لوگوں اور صحافتی حلقوں نے اپنا ایمان بنا لیا اور اسی جذبے کے تحت امریکی سرپرستی میں نام نہاد افغان جہاد میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ گرم پانیوں تک اشتراکی روس تو نہ پہنچ سکا، لیکن اشتراکی چین (عوامی جمہوریہ چین) پہنچ گیا اور ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ یہ وقت ہی ثابت کرے گا کہ گوادر سے دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی رکھنے والا عوامی جمہوریہ چین زیادہ قومی مفادات حاصل کرے گا یا اسلامی جمہوریہ پاکستان؟لیکن دلچسپ تضاد دیکھیں کہ جس روس کو ڈیورنڈ لائن پر روکنے کے لیے مجاہدین اور خاموش مجاہد (جنرل ضیا کے ساتھی) بڑھ چڑھ کر بولتے تھے، آج اسی آرمی کے چیف، روسی فیڈریشن کے ڈپٹی چیف آف جنرل سٹاف امراکوف کے میزبان اور ڈیورنڈ لائن کے اِس طرف میرن شاہ اور وانا کا دورہ کرتے نظر آرہے ہیں۔
زمانہ کبھی جامد نہیں رہتا۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ سوویت یونین 1917ء میں زارروس کے شکست خوردہ روس سے ابھرا اور اس سوویت یونین نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ سامراج کے لیے یہ روس وبال جان بنا رہا۔ سوویت یونین بکھرا تو سامراج بے لگام ہوگیا۔ بکھرا سوویت یونین دوباری روسی فیڈریشن کے نئے جنم کا سبب بنا۔ بوریس یلسن ایک مسخرے حکمران سے کم نہیں تھا۔ لیکن آج 2017ء کا روس ایک نئے دور کا آغاز کرچکا ہے۔ اس روس کا معمار ولادیمیر پوتن ہے جسے مغربی یورپ زار روس ثانی کہہ رہا ہے، اس لیے کہ ولادیمیر پوتن نے جارجیا، چیچنیا، یوکرائن اور شام میں سامراجی مداخلت کی مزاحمت بھی کی ہے اور روس کو ایک مضبوط معیشت میں بدل ڈالا۔ میرے مطالعے کا نچوڑ یہ بھی ہے کہ ریاستیں بکھر جائیں تو دوبارہ بن جاتی ہیں لیکن قومیں بکھر جائیں تو ان کا دوبارہ بننا مشکل ہے۔ روسی قوم نے سوویت یونین سے پہلے، سوویت یونین اور بعد از سوویت یونین یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ روسی قوم نہیں بکھری۔ اِس روس کا معمار ولادیمیر پوتن ہے۔ وہ پاکستان جہاں کبھی روس کا نام لینے والا غدار تھا، آج اسی پاکستان میں روس سے تعلقات بنانے ولاے کو قوم پرست پاکستانی تصور کیا جاتا ہے۔
ولادیمیر پوتن نے مغرب کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اس پوتن کو جاننے، پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ہر کوئی کوشش کررہا ہے۔ اس ساری جستجو میں ایک کتاب دنیا بھر میں مقبول ہوئی ہے جسے اب روسی زبان سے براہ راست اردو میں ترجمہ کرنے کا فریضہ ڈاکٹر نجم السحر بٹ نے ادا کیا ہے۔ ’’مردِ آہن، روسی صدر پوتن کی سنسنی خیز سوانح‘‘ جسے جُمہوری پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے (فون نمبر 04236314140)۔ یہ کتاب دنیا کے اس طلسماتی مردِآہن کی زندگی، جدوجہد اور سیاست کو سمجھنے کے لیے سرفہرست ہے جس نے بکھرے روس کی راکھ سے نیا روس قائم کردیا۔ پوتن کا دادا لینن اور سٹالن کا باورچی تھا۔ اُس نے اُس روس کو اپنے گھر میں ہونے والی چہ میگوئیوں سے جانا جو اسے وراثت میں سننے کو ملیں۔ تین روسی صحافیوں نتالیا گیوورکیا، نتالیا تیماکوو، آندریئی کولیسنیکو، نے گھنٹوں ولادیمیر پوتن، اس کی بیوی لدمیلا، بیٹیوں ماشا اور کاتیاسے انٹرویو کیے۔ غربت میں جنم لینے والا پوتن، شرمیلا ہے اور اس کی ایک بڑی خوبی رازوں کو سینے میں دبا کر رکھنا اور فیصلوں کو تقاریر اور خطابات کے ذریعے متعارف نہ کروانا بلکہ اپنے اپنے فیصلوں اور منصوبوں پر عمل کرنا ہے۔یہ کتاب اس پُراسرار شخصیت کے وہ گوشے جاننے کی بہترین کوشش ہے جس نے یورپی ممالک کے طعنہ زدہ روس کو حیران کن روس میں بدل ڈالا۔ مضبوط معیشت اور عالمی سیاست میں نیا کردار ادا کرنے والا روس۔ ذرااس مردِآہن کی داستان اسی کی زبانی سنیں:
’’ ماں نے گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا اور وہیں، پیٹر گوف میں رہائش برقرار رکھی۔ جب وہاں حالات بہت زیادہ بگڑ گئے تو پیٹرزبرگ میں مقیم میرے ماموں انہیں اپنے گھر لے آئے۔ ماموں سمولنی میں واقع بحریہ کے ہیڈ کوارٹر میں بطور افسر تعینات تھے۔ گولیوں اور بموں کی برسات تلے بھائی اپنی بہن کو بچے سمیت پیٹرز برگ منتقل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
٭ اور باورچی دادا ؟ کیا انہوں نے آپ کے ماں باپ کی کبھی کوئی مدد نہیں کی؟
نہیں۔ اُس دور میں کسی کے لیے ہاتھ پھیلانے یا سفارش کرنے کا رواج نہیں تھا۔ میرے خیال میں اُن دنوں یہ ممکن نہیں تھا۔ میرے دادا کے بچوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ اُن کے تمام بیٹے محاذِ جنگ پر تھے اور بیشتر واپس لوٹ کر نہیں آئے۔
٭ کیا آپ کی ماں کو ایک شیر خوار کے ہمراہ محاصرہ شدہ پیٹر گوف سے محاصرہ شدہ لینن گراڈ منتقل کر دیا گیا؟
تو اور کہاں جاتیں؟ماں کا کہنا تھا کہ لینن گراڈ میں بچوں کی حفاظت کے لیے خصوصی دارالاطفال قائم کیے گئے تھے۔ وہاں اُن کی زندگی بحال رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی۔ دار الاطفال میں دوسرا بچہ خنّاق میں مبتلا ہونے کے بعد دم توڑ گیا۔
٭ ان مشکل حالات میں وہ کیسے خود کو بچا پائیں؟
بھائی کی مدد سے۔ وہ اپنے حصے کا راشن بہن کے ساتھ بانٹ لیتا تھا۔ ایک مرتبہ ماموں کو کچھ عرصہ کے لیے کسی دوسری جگہ ٹرانسفر کر دیاگیا۔ اس دوران میری ماں موت کے منہ میں جاتے جاتے بچی۔ اس بات میں رتی برابر بھی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ ایک روز فاقہ کشی سے نڈھال میری والدہ بے ہوش ہو گئی۔ انہیں مردہ سمجھ کر لاشوں کے درمیان رکھ دیاگیا۔ خوش قسمتی سے وہ بر وقت ہوش میں آگئیں اور کراہنے لگیں۔ اُن کا زندہ بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ لینن گراڈ کے محاصرے کے دوران وہ وہیں مقیم رہیں۔ حالات سازگار ہونے کے بعد انہیں وہاں سے منتقل کر دیا گیا۔ ‘‘
آج یہ ولادیمیر پوتن، روس کا مردِ آہن بھی ہے اور امریکہ میں اس کی سیاسی مداخلت کی داستانیں دنیا کے اخبارات میں شائع ہورہی ہیں۔ آج روس کہاں کھڑاہے اور اس روس کا کیا مستقبل اور عالمی کردار کیا ہوگا، متذکرہ کتاب ان سوالوں کی پرتیں کھولتی ہے۔ پوتن بولتا نہیں، عمل کرتا ہے۔ کامیاب لیڈروں کی یہی نشانی ہے۔ لچھے دار تقاریر، جذباتی خطابات اور بلندبانگ دعوے کرنے والے کم ہی کامیاب لیڈر ہوتے ہیں۔ وہ روس جو ترکی کی طرف سے طیارہ گرائے جانے پر چند ماہ جنگ کے دہانے پر کھڑا تھا اور ترکی، اردوآن کی قیادت میں روس کو سبق سکھانے کے بلند بانگ دعوے کررہا تھا،آج وہی ترکی اور وہی اردوآن، پوتن کو اپنا دوست نہیں بلکہ بھائی کہتے نہیں تھکتا۔ کامیابی کس کی ہے؟ روس کی یا ترکی کی؟ اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں، اس طرح یہ روس، چین، پاکستان، مشرقِ وسطیٰ اور اُن ممالک کے دلوں میں گھر کرتا جا رہا ہے جس کی قیادت ولادیمیر پوتن کررہا ہے۔