ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے سندھ کے بہادر سپوت روپلو کولھی جسے سندھ کا ہیرو کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس نے اپنے وطن سندھ سے عشق کیا اور وقت آنے پر اپنی سرزمین اور اپنی دھرتی کے تحفظ اور دفاع کے لیے برطانوی سرکار کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ روپلو 1818 میں سندھ کے تھرپارکر کے ایک گائوں کنبھاری میں پیدا ہوا۔ اس کے والد صاحب کا نام شامتو اور والدہ محترمہ کا نام کیسر بائی تھا۔ روپلو جب سن بلوغت کو پہنچے تو انہوں نے اپنے وطن اپنی دھرتی سندھ پر انگریزوں کی حکمرانی دیکھی جن کے ظلم و ستم اور استحصال کے باعث سندھ کے عوام قابل رحم حالت میں تھے۔ ایسی صورت میں انہوں نے سندھ کو انگریز سرکار سے نجات دلانے کے لیے بغاوت کرتے ہوئے انگریز سرکار سے براہ راست جنگ شروع کر دی۔ سوڈھو اور کھوسہ قبیلہ نے بھی روپلو کے ساتھ مل کر جنگ شروع کردی۔ راجہ لاڈو سنگھ اس کے بیٹے ادھینسنگھ، مڈو اور ڈجو نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس لڑائی کے دوران روپلو کی قیادت میں انگریزی فوج کو بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور نگر پارکر سے انگریزوں کو شکست دے کر اس پر قبضہ کر لیا۔ جب انگریز سرکار روپلو کولھی سے شکست کھا گئی تو اس نے مقامی افراد کو پیسوں کی لالچ دے کر ان کو استعمال کیا۔ ساڑدھری مندر کے پجاری سیٹھ مہاوجی لوہانو اور ہنس پوری باوو نے اپنی قوم اور اپنی دھرتی سے غداری کرتے ہوئے جاسوسی کر کے روپلو کولھی کو گرفتار کروا لیا۔ انگریز انتظامیہ نے روپلو کولھی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور ان سے کہا کہ وہ انگریز سرکار کی اطاعت کرے تو اسے رہا کر دیا جائے گا اور انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے گا لیکن روپلو نے صاف انکار کر دیا جس پر روپلو کی اہلیہ میناوتی کو بلایا گیا کہ وہ اپنے شوہر کو سمجھائے۔
روپلو کی اہلیہ محترمہ میناوتی کولھی بھی اپنے شریک حیات کی طرح بہادر نکلیں انہوں نے اپنے شوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "روپلا اپنی دھرتی سے غداری نہ کرنا ورنہ لوگ مجھے لعن طعن کرنے لگیں گے اگر آپ اپنی دھرتی پر اپنی جان قربان کریں گے تو میں اپنے بہادر شوہر کی بیوہ کہلاتے ہوئے فخر محسوس کروں گی"۔ جب روپلو کسی بھی صورت میں اپنے وطن سے غداری پر آمادہ نہیں ہوا تو 22 اگست 1859 کو روپلو کولھی کو ایک درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔ سندھی قوم آج بھی اپنے اس ہیرو پر فخر کرتی ہے۔ معروف ڈرامہ نگار علی بابا نے روپلو کولھی کی تاریخی جدوجہد اور اس کی شہادت پر "کارونجھر جو قیدی" (کارونجھر کا قیدی) کے نام سے ایک تاریخی ڈرامہ لکھا اور اسٹیج کیا جبکہ روپلو کولھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے سندھ کے شعراء کی بڑی تعداد ان کو منظوم خراج عقیدت پیش کرتی رہتی ہے۔ 3 سال قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسی تھر پار کر کے علاقے سے اسی کولھی قبیلے کے ایک کسان کی بیٹی کرشنا کماری کولھی کو اپنی پارٹی کی جانب سے سینیٹر منتخب کروا کر ملک کے ایوان بالا میں بھیجا۔ بلاول بھٹو زرداری کے اس فیصلے کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ کرشنا کماری کولھی کا تعلق سندھ کے قومی ہیرو روپلو کولھی کے خاندان سے ہے۔ کرشنا کماری کولھی کے والدین کو ایک وڈیرے نے 3 سال تک اپنی نجی جیل میں قید کر رکھا تھا۔ کرشنا کماری کولھی اس نجی جیل میں ناکردہ جرم کی پاداش میں 3 سال قید کی سزا کاٹتی رہی۔ وڈیرے کی جیل سے رہائی کے بعد کرشنا کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان کے باپ نے تعلیم دلوائی اور انہوں نے سندھ یونیورسٹی جام شورو سے سوشیالوجی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ برطانیہ کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنے ایک سروے میں کرشنا کماری کولھی کو 2018 کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ کرشنا کماری کولھی اپنے علاقے کی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں شاید ان کا یہ عمل اپنے اجداد روپلو کولھی اور ان کی اہلیہ محترمہ میناوتی کولھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک انداز ہے۔