روحوں کا کردار سے تعلق ۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کی روح اور دل بہت زبردست ہیں ۔ نہ کسی نے دل دیکھا ہوتا ہے نہ روح ، صرف کردار سے ہی یہ پتہ لگتا ہے ۔ اس کہ کردار کی عکاسی کسی بھی زریعے ہو سکتی ہے ، کوئ رشتہ ، تحریر یا تقریر ۔ پھر اسی کہ مطابق اس کا عمل دیکھا جاتا ہے ۔ روح دل کہ زریعے اور دائیں طرف کہ دماغ کے زریعے آپریٹ کرتی ہے ۔ روح ہی دراصل کائنات یا رب کہ ساتھ جوڑ کا اینٹینا ہے ۔ بائیں جانب کا دماغ صرف پلاننگ ، حساب کتاب اور تجزیوں کہ لیے ہے ۔
معاملہ سارا خراب کیسے ہوا ؟ انسان نے انسان پر استحصال اور برتری کی کوشش کی جسے Darwin نے survival of the fittest گردانا۔ اس سے جسمانی مفاد تو ضرور ہوا جو بہت عارضی تھا ، لیکن روحانی انسان کی ارتقاء شدید متاثر ہوئ ۔ ارسطو اور سقراط نے بھی کئ فلسفیوں کہ ہمراہ زیادہ تر جسمانی انسان کی صفائ ستھرائ اور تہزیب کی بات کی ۔ ڈائجنیز ، اسپینوزا ، آئینسٹائین ، اور صوفی حضرات نے روحانی انسان کی بات کی ۔ دراصل سچ یہ ہے کہ جسم تابع تھا روح کہ اور اس کہ اینٹئنا کہ زریعے کائنات کہ سچ سے ۔ لیکن لڑائ ، جنگ ، نفرت ، حسد اور مقابلہ نے تمام معاملہ اُلٹا کر دیا ۔ حضرت محمد صل علیہ وسلم نے سارا معاملہ سیدھا کر کہ دکھایا ۔ اپنا کردار روح کہ مطابق ترتیب دیا ۔ ہم نے کبھی حضور صلعم کی اسوہ حسنہ کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ بس درود بھیج دیا ۔ پوجا پاٹ کی اور لوگوں کو لُوٹ کر مسجد نبوی پہنچ کر توبہ اور ان سے محبت کی بات کی ۔ یہی منافقت ہے جس پر حضور صلعم نے بہت زور دیا کہ ایک معاشرہ کے لیے یہ تباہی و بربادی کی علامت ہے ۔ اسی منافقت کہ ہتھیار سے ہمارا استحصال کیا گیا ، ہمارے دلوں پر مشینوں کی حکومت مسلط کی گئ ۔ ہمیں آپس میں لڑایا گیا ۔ انسان کو انسان پر رنگ ، نسل اور قبیلہ کی بنا پر فوقیت دی گئ ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر جگہ بدسکونی پھیل گئ ۔ جنگیں چھڑ گئیں ۔ انسان ، انسان کہ خون کا پیاسا ۔ نفسا نفسی کا عالم برپا ہے ۔ یہ سارا ہمارا اپنا کیا دھرا ہے ، کیونکہ مجبوری کا نام دے کر ہم نے سرینڈر کیا ، ایک بھیانک سرینڈر جس پر آنے والی نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی ۔ جب ۲۸ سالہ امریکی لڑکی Cortez نے نظام میں رہ کر اسے انہی بنیادوں پر چیلنج کیا ، لوگوں کی آنکھیں کُھل گئیں ۔ اگر پنکی واقعتا ایک میڈیم بن کر عمران خان کی روح کو روشن کرنے میں کامیاب ہو گئ تو عمران کو وہ روشنی چار سُو پھیلانے میں آسانی ہو گی ۔ یہ تو خیر آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
آپ سب کا سوال ہو گا کہ روح کو جسم کہ تابع کیسے کیا جائے ؟۔ بہت آسان صرف تین چیزوں سے ، پیار ، محبت اور جزبہ شکرگزاری سے ، کوئ چوتھی چیز نہیں ۔ یہی کائنات کا سچ ہے ۔ پوری کائنات اسی سچ پر کھڑی ہے ۔ باقی سب جھوٹ ہے ، دھوکہ ہے ، فریب ہے جس کی سزا نواز شریف جیل میں بگھت رہا ہے ۔ نفرتیں ، مقابلہ ، حسد اور غرور روح کی روشنی ختم کر دیتا ہے ۔ پھر انسان کی شکل رانا ثناءاللہ جیسی بھیانک اور خوفناک بن جاتی ہے ۔ مجھے یہ مثالیں اپنا نقطہ نظر سمجھانے کے لیے دینی پڑ رہی ہیں وگرنہ میرا ان لوگوں سے دور دور سے کوئ تعلق نہیں ۔ میرا تو صرف اور صرف روحوں سے تعلق ہے ۔ روحانی رشتوں پر ہی اعتقاد ہے نہ کہ خونی اور مادی ۔ میرا تو ایمان ہے کہ انسان دوسرے انسان کو فنا کرنے یا نیچا دکھانے کے لیے پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ پیار اور محبت بانٹنے کے لیے ۔ ہم جس آکائ میں پروئے ہوئے ہیں مجھے اس سے محبت ہے ۔ مجھے اس کی ہر چیز روشن نظر آتی ہے ۔ درخت ، پہاڑ ، جانور ، چرند پرند اسی آکائ کا گن گاتے دکھائ دیتے ہیں ، میں تو راتوں کو اُٹھ کر رُوزویلٹ پارک آ جاتا ہوں اور ستاروں سے باتیں کرتا ہوں ایک نئے سویرے کی ایک نئ محبت کی ۔ ہم سب اسی محبت کہ گیت گاتے ہیں ۔ یہ ایک رقص ہے جو صرف اس فریکوینسی پر پہنچنے والے محسوس کر سکتے ہیں ۔ اس مادی دنیا سے دل نہ لگانے کی کوشش کریں یہ روحانی زندگیوں کی موت ہے ۔ سلیم احمد لکھتے ہیں ۔
خوشنما لفظوں کی رشوت دے کہ راضی کی جیے
روح کی توہین پر آمادہ رہتا ہے بدن
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔