لطف اللہ خان 1916ء میں چنائی (مدراس) میں پیدا ہوئے۔ والد سائوتھ انڈین ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ تلاش روزگار میںلطف اللہ خان نے بمبئی اور حیدرآباد کے سفر کیے۔ تقسیم ہوئی تو کراچی آ گئے۔ لطف اللہ خان نے کتابیں بھی تصنیف کیں۔ میوزک میں بھی کام کیا، درباری راگ کے ماہر تھے۔ لیکن ان کی وجہ شہرت آوازوں کا اکٹھا کرنا تھا۔1951ء میں انہوں نے 1046 روپے دس آنے میں ٹیپ ریکارڈر اور22 ٹیپیں خریدیں۔ اور سب سے پہلے اپنی والدہ کی آواز ریکارڈ کی۔ اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ سیاست، شاعری، نثر، مذہب، موسیقی، ہر شعبے کے مشاہیر کی آوازیںریکارڈ کیں اور پھر اس طریقے سے محفوظ کیں کہ کوئی آواز کسی بھی وقت چند منٹوں میں نکال کر سنوا سکتے تھے۔ قائداعظم، گاندھی، علامہ رشید ترابی، ابوالکلام آزاد سے لے کر سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مفتی محمد شفیع تک، فیض سے لے کر جگن ناتھ آزاد، اخترالایمان، جگر اور جوش تک، پطرس بخاری، امتیاز علی تاج، راجندر سنگھ بیدی، چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر ذاکر حسین، صادقین، جمی انجینئر، کسی بھی شعبے کا کوئی قابل ذکر شخص انہوں نے نہ چھوڑا۔ 2012ء میں جب لطف اللہ خان کا انتقال ہوا تو ان کے اس شہرئہ آفاق ذخیرے میں پانچ ہزار سے زیادہ شخصیات کی آوازیں محفوظ تھیں اور منظم طریقے سے کیٹلاگ کی گئی تھیں۔ لیکن اصل بات جو بتانی مقصود ہے ، اور ہے۔
1982ء یا 83ء کی بات ہے۔ لطف اللہ خان مرحوم اسلام آباد تشریف لائے۔ ان کا مقصد شاعروں اور ادیبوں کی آوازیں ریکارڈ کرنا تھا۔ غریب خانے کو بھی انہوں نے اور بیگم صاحبہ نے عزت بخشی۔ ماحضر بھی تناول کیا، غزلیں بھی ریکارڈ کیں۔ جڑواں شہروں کے ایک بزنس مین نے‘ جو ادب میں دلچسپی رکھتے تھے‘ لطف اللہ خان سے ایسا سوال پوچھا جو کوئی شاعر، ادیب، موسیقار، نقاش، عالم دین، یہاں تک کہ سیاستدان بھی نہیں پوچھ سکتا‘ صرف اور صرف بزنس مین پوچھ سکتا ہے۔ ’’اس سارے کام سے آپ کو فائدہ کیا پہنچ رہا ہے؟‘‘
لطف اللہ خان مسکرائے۔ وہ سمجھ گئے کہ مالی فائدے کی بات ہو رہی ہے۔ دھیرے سے جواب دیا۔ ’’ہر کام مالی فائدے کیلئے نہیں ہوتا‘‘۔
لطف اللہ خان ایک فرد تھے۔ یہ عظیم الشان کارنامہ انہوں نے اپنی ذاتی آمدنی سے انجام دیا۔ آرکائیوزکی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ لیکن پاکستانی تاجر‘ پاکستانی دکاندار اور پاکستانی صنعتکار کو یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے ’’بظاہر‘‘ مالی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ہوسکتا ہے اس لکھنے والے کی رائے درست نہ ہو لیکن غالباً ترقی یافتہ ملکوں میں بزنس کمیونٹی کا رویہ مختلف ہے۔ اس کی وجہ قانون کی حکمرانی بھی ہوسکتی ہے اور تعلیم و تربیت کا معیار بھی۔ بل گیٹس جیسے ہزاروں بزنس مین فلاح و بہبود کے کام کر رہے ہیں‘ صحت اور تعلیم کے شعبے پر اپنی اپنی دولت کا کثیر حصہ صرف کر رہے ہیں۔ نام و نمود کی پروا ہے نہ تختیاں لگوانے کی۔ بہت سوں کے تو نام بھی صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں۔
یہ ساری رام کہانی سنانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پاکستان کے ایک معروف صنعتی اورتجارتی شہر کی بزنس کمیونٹی نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے شہر میں ایئرپورٹ بنوایا۔ اس وقت کی حکومت نے ان حضرات کی حوصلہ شکنی براہ راست نہیں کی تو بالواسطہ منع ضرور کیا گیا۔ لیکن یہ لوگ اپنے ارادے پر قائم رہے۔ اعلیٰ کوالٹی کا ایئرپورٹ بنا۔ ایک اندازے کے مطابق اس کا رن وے ملک کا بہترین رن وے ہے۔ اب یہ کمیونٹی اپنی نجی ایئرلائن بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے بعد پاور سیکٹر میں نجی منصوبے شروع کرنے کا پروگرام ہے۔
ہم اس شہر کے تاجروں اور صنعتکاروں کی کامیابی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ وہ ضرور ایئرلائن بنائیں۔ پھر پاور سیکٹر میں کارنامے انجام دیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد اس شہر میں فائیو سٹار ہوٹلوں کا جال بچھا دیا جائے۔ پھر پرائیویٹ ریلوے لائی جائے۔ پھر فلک بوس عمارتوں سے اسے دوسرا ہانگ کانگ بنا دیا جائے۔ پھر اس میں مصنوعی جھیلیں اور پہاڑ تعمیر کیے جائیں۔ عالمی سطح کے خوبصورت پارک وجود میں آئیں اور دنیا بھرکے سیاح ادھر کا رخ کریں۔ زرمبادلہ کے انبار لگ جائیں۔
لیکن نوٹ کیجئے کہ اس دولت مند بزنس کمیونٹی کو یونیورسٹی بنانے کا خیال نہیں آ رہا۔ ایئرپورٹ، پھر ایئرلائن، پھر پاور سیکٹر۔یہ سارے وہ منصوبے ہیں جو آمدنی اور منافع بڑھانے میں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں جبکہ یونیورسٹی بظاہر صرف اور صرف رقم لگانے کا کام ہے۔ عمارتیں بنیں گی۔ اساتذہ لائے جائیں گے۔ لیبارٹریاں اور لائبریریاں لاکھوں کروڑوں روپے کھا جائیں گی۔ آمدنی نہیں ہوگی۔ خرچ ہی خرچ! انتظامیہ پر خرچ، ہوسٹلوں پر خرچ، کیفیٹیریوں میں خوراک طلبہ کی مالی سطح کی مناسبت سے مہیا کرنا پڑے گی۔ اس پر خرچ! درختوں پودوں پھولوں کی نگہداشت پر خرچ! بظاہر ’’وصولی‘‘ کچھ نہیں ہوگی!
سلجوقیوں کے وزیراعظم نظام الدین طوسی نے سلطنت میں تعلیمی اداروںکا جال بچھا دیا اور ہر شہر میں کالج اور یونیورسٹیاں قائم کردیں۔ وزارت خزانہ نے بادشاہ سے شکایت کی کہ بوڑھا وزیراعظم خزانے کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ بادشاہ نے وزیراعظم سے کہا کہ بابا! اس رقم سے تو ایک بہت بڑی فوج کھڑی کی جا سکتی تھی۔ طوسی نے جواب دیا کہ جہاں پناہ! سپاہی کا تیر تیس گز سے آگے نہیں جاتا‘ لیکن میرے بنائے ہوئے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جو اہل علم اور سائنسدان نکلیں گے ان کی مار ستاروں تک ہوگی!
اس صنعتی اور تجارتی شہر کی بزنس کمیونٹی کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے منصوبے جاری رکھیں۔ ان کی کامیابی کے لئے دعائیں ہیں لیکن ازراہ کرم مل بیٹھ کر ایک ایسی یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیجیے جو جنوبی ایشیا میں روشنی کا مینار ثابت ہو۔ ایسا کیمپس بنائیے جو امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں کی عمارات کے مقابلے کا ہو، دنیا بھر سے بہترین اساتذہ لائیں‘ ان کے لیے ایسی تنخواہوں کا بندوبست کیجیے کہ کھچے چلے آئیں۔ عظیم الشان لائبریری اور لیبارٹریاں قائم کیجیے۔ میرٹ پر طلبہ کو داخل کیجیے ۔ جو قلاش ہوں ان کی مالی دستگیری کیجیے۔ آپ کی ایئرلائن کے جہاز تو زیادہ سے زیادہ بادلوں سے اوپر جائیں گے لیکن یونیورسٹی سے جو لوگ نکلیں گے وہ آپ کے شہر کا نام کہکشائوں تک لے جائیں گے۔ آپ ہی کے شہر میں اس وقت کا بہت بڑا سکالر ملا عبدالحکیم سیالکوٹی تھا جسے مغل بادشاہ، شاہ جہان نے چاندی میں تلوایا تھا۔ آپ چاندی اکٹھی کیجیے اور ہارورڈ اور آکسفورڈ کی مثال قائم کر دیجیے۔ لاہور میں نجی شعبے کی نامور یونیورسٹی ایک صنعتکار ہی کا خواب ہے۔ آخر صنعتکار اور تاجر علم پروری سے غافل بھی نہیں! جس شہر کے اہل حرفت اور اہل صنعت کو ریاض الدین شیخ جیسے متحرک نمائندے میسر ہوں، وہ اس کام میں تاخیر کیوں کر رہا ہے؟ جلدی کیجئے، اقبال اور فیض کی ارواح بے تابی سے انتظار کررہی ہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔