روحوں کے سوداگر ۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں روحوں کا جسموں کہ زریعہ دنیا میں آنا ایک بہت بڑا جشن ہے اور رہے گا ۔ یہ نہ ہی سزا ہے اور نہ ہی آزمائش ، بلکہ پورے cosmos کہ ساتھ جوڑ کی ایک جھلک ، بہت مختصر لمحے کہ لیے ۔ ۹۰ سال یہاں زندگی گزارنے والے بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ شاید صرف ایک لمحہ کہ لیے یہاں تھے ۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ اس کھیل کو سمجھے ہی نہیں ۔ اپنی چلانے کی کوشش کی ۔ روح کہ سمندر کہ آگے بند باندھنے کی کوشش میں مصروف رہے ۔ اسں نور کو ، نفرتوں ، حسد اور مقابلہ کی آگ کہ زریعے فنا کرنے کی کوشش کی ۔ روح کہ بغیر تو انسان صرف گوشت پوست کا لوتھڑا ہے ۔ اسی لیے روح کی پرواز کہ بعد کچھ مزاہب میں دفنا دیا جاتا ہے ، کچھ میں جلا اور کچھ میں لاش کو ٹاور پر پھینک دیا جاتا ہے تا کہ گدھ کھا جائیں ۔ پاکستان کہ علاقے کیلاش کہ لوگ تو موت پر بینڈ باجا بجاتے ہیں ۔ مردہ کو بارات کی صورت میں رخصت کیا جاتا ہے کیونکہ روح تو مرتی نہیں بلکل منتقل ہوتی ہے جس سے لفظ انتقال نکلا ۔
میں نے پچھلے بیس سال اس بہت آسان اور چھوٹے سے سچ کی تلاش میں پوری دنیا چھان ماری ۔ کٹھمنڈو سے کربلا، صوفیوں سے سالکوں، مزاروں سے مندر ، مکہ سے مدینہ ، سچ اسی طرح ہر جگہ بلکل سامنے اور واضح پایا ۔ دل ہے کہ بس وہ بھی صرف یہی سچ مانتا تھا ، باقی کچھ نہیں ۔ ۲۰ برس کا سفر آخر بقول بلھے شاہ ‘گل اک نقطہ تے مکدی آ ‘ پر ختم ہوا ۔ وہ نقطہ وہی تھا جو منصور کہتا تھا ، جس کہ گنُ سرمد گاتا تھا اور جسے شاہ شمس تبریز نے رومی کو سمجھایا ۔ وہی نقطہ میرے جیسے ہزاروں لوگوں کی پہچان ہے ، جسے معاشرے نے باغی ، کافر اور ملحد کہ کر نہ صرف ٹھکرایا بلکہ ہمیں بھی پلیت کہ کر اپنے سے الگ کر دیا ۔ ہم حوروں کی تلاش میں نہ اس دنیا میں آئے تھے اور نہ ہی ان کی تلاش میں یہاں سے کُوچ کریں گے ۔ ہم تو خود حوُر ہیں، یوسف ہیں ۔
ہم روحوں کہ سوداگر نہیں بلکہ اس نور کہ رقاص ہیں ۔ ہمیں اس حال میں مست رہنا ہے ۔ ہم ہی قلندر ہیں ولی ہیں اور فقیر ۔ اس کائنات کا حسن اور شباب ۔ یہ قوس و قضا کہ رنگ سارے ہماری وجہ سے ہیں ۔ یہ دنیا ساری ہمارے ساتھ اس لمحہ کہ ناچ میں ہے جسے ٹولے now کا حُسن گردانتا ہے ۔ پریشانی کیسی ، غم کیسے، بادشاہت اور حکمرانی کیوں ، ہم ہی جلال ہیں ۔بیزید بسطامی نے ٹھیک کہا تھا ‘میں جلال ہوں’ اور روحوں کا میلہ منعقد کروا دیا، سلطان العارفین کا لقب پایا ۔ ہم سب نادان ہیں ۔ ہمیں یہ کھیل کھیلنا ہی نہیں آیا ، ہم چالیں ہی اُلٹی چل گئے ۔ نگری نگری ، قریہ قریہ روح کہ سوداگر بیٹھ گئے ۔ ہمارے جسموں کہ زریعے ہماری روحوں کو بھی بیچ گئے ۔ آج ہم ان کہ غلام ہیں ۔ ان کہ شکنجے میں ہیں ۔ نہ زندہ ہیں نہ مردہ ۔ کہیں وہ سیٹھ کی صورت میں ہمارا سودہ کرتا ہے اور کہیں عامل بابا بن کر ہماری جیب کاٹتا ہے ۔ کہیں خاوند کی صورت میں آقا بن جاتا ہے اور کہیں بادشاہ بن کر ہمیں غلامی پر مجبور کرتا ہے ۔ بس کر دو اب یہ کھیل ۔ آزاد ہو جاؤ ۔ وگرنہ علینا عترت کے بقول ساری عمر یہ کشمکش جینا حرام کر دے گی ۔
عجب سی کشمکش تمام عمر ساتھ تھی
رکھا جو روح کا بھرم تو جسم میرا مر گیا
بہت خوش رہیں ، زندہ رہیں تو روح کہ ساتھ ، دل میں سمو لیں ساری کائنات کی خوشیاں ، قدرت کے رنگ ، اس جہاں میں ہونے کا جشن ۔ یہ دنیا ساری آپ کی ہے ۔ یہ گھاس ، یہ سبزہ اور یہ ہرن جو سب میری آنکھوں کہ سامنے جھوم رہے ہیں ، یہ سب کچھ میری خوشی کہ لیے ہے ۔
اپنا بہت خیال رکھیں ۔ پریشانیوں پر پریشان ہونا بہت ندامت ہے ۔ ان کو اس لمحہ کی مسکراہٹ اور اپنے ہونے کی خوشی سے تباہ و برباد کر دیں اور مسکرا تیں رہیں ہمیشہ ہمیشہ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔