روحوں کے معاملات ۔
میرے پچھلے دو بلاگ بہت پسند بھی کیے گئے ، لیکن کچھ لوگوں کو سوال اور تشنگی میں چھوڑ گئے ۔ میں بار بار کہتا ہوں روحوں کا معاملہ بہت ہی آسان ہے ۔ عامل بابا اور جعلی پیروں نے اسے مشکل کیا ۔ ہر انسان میں اتنی ہی روحانی طاقت ہے جتنی کسی بھی پیر ، ولی یا قلندر میں ۔ اُس طاقت کو نہ ہم نے کبھی لفٹ کروائ ، نہ اس کہ بارے میں سوچا اور نہ ہی فکر کیا ۔ میرے نزدیک مسلمانوں کہ لیے یہ سارا سلسلہ بہت آسان تھا ، سمجھنا اور پریکٹس کرنا ۔ کیونکہ حضرت محمد صلعم جتنے روحانی شخص نہ آج تک دنیا میں پیدا ہوئے نہ ہوں گا ۔ میں نے جو کچھ سیکھا انہی کی زات پاک سے سیکھا ۔
روح بچہ کہ ساتھ ماں کہ پیٹ سے آتی ہے اور یہ ایک بہت تیز روشنی کی مانند ہے ۔ ایک انرجی ہے اور دل اور دائیں طرف کہ دماغ سے آپریٹ کرتی ہے ۔ دائیں طرف کا دماغ یا consciousness اس کا اینٹینا ہے پوری کائنات کہ ساتھ ۔ اس کی روشنی کی چمک سورج سے کئ گنا زیادہ ہے ۔ یہ پرواز کرتے وقت کچھ ڈاکٹروں نے امریکہ میں محسوس کی ، ان کی اس پر کتابیں بھی ہیں ۔ لیکن یہ time اور space سے باہر کا معاملہ ہے اس لیے عام پانچ حواس سے بلکل پرواز کرتے وقت نظر نہیں آتی ۔ یہ پھر عالم ارواح میں چلی جاتی ہیں جس space کو مغربی دنیا Akashic records سے منسوب کرتی ہے جس میں انسان کا سارا ریکارڈ ہے خیالات ، الفاظ ، تقریبات ، اعمال اور جزبات وغیرہ کا ۔ یہاں امریکہ میں کچھ میڈیم ایسے ہیں جو اُن لوگوں کا ریکارڈ پڑھ دیتے ہیں جو یہاں سے کُوچ کر گئے ہیں ۔ میرے اپنے خیال میں یہ سب کچھ کہیں نہ کہیں یقینا recorded تو ضرور ہے ٹھیک پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ میں کوئ حتمی رائے اس بارے نہیں قائم کر سکتا جب تک خود اس قابل نہ ہوں ۔
سوچ اور الفاظ کی اپنی ایک انرجی ہے ، vibration ہے اور اسی فریکوینسی پر جا کر اسے سنا جا سکتا ہے ۔ ایک جرمن سائنسدان شوُمن نے دنیا کی ان vibrations کو دنیا کہ electromagnetic field نے جو جینریٹ کی ان کی resonance کہ حساب سے دریافت کرنے کا طریقہ نکالا جیسا کہ اس کہ مطابق وہ کم از کم 4.11 Hz پر محسوس کی جا سکتی ہیں ۔
ایک عام انسان کی resonant frequency 5 Hz پر measure کی گئ ۔ اس میں پھر stress اور discomfort بہت اثر ڈالتا ہے ۔ اس سے فریکوینسی بدلتی ہے ۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ لوگ اچھے انرجی لیولز حاصل کرنے کے لیے پُر فضا مقامات پر جاتے ہیں اپنے آپ کو اس ماحول سے نکالتے ہیں جو ان کہ انرجی لیول کو drain کر رہا ہے ۔ میری ایک follower آجکل بہت شدید stress میں ہے ، میں نے اسے یہی سمجھایا کہ اس سے نکلنے کے لیے اس سوچوں کہ بھنور سے اپنے آپ کو نکالنا ہو گا جو آسان بھی ہے اور نہیں بھی ۔ کیونکہ ہم self pity بہت پسند کرتے ہیں ۔ وہ سوچیں مزہ دے رہی ہوتی ہیں ۔ روح کی انرجی چونکہ سوچ سے منسلک ہے ۔ جیسی سوچ ویسی انرجی ۔ ہم روحانی طور پر کنگال ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
آپ سوچیں آجکل virtual world کی بات ہو رہی ہے جہاں انسان کو robot بدلیں گے سرجری کے لیے ، ڈرائیونگ میں بھی اور فیکٹریوں میں بھی ۔ لیکن ان robots میں روح نہیں ہو گی ۔ ہم مادہ پرستی کی زندگی میں اتنے محو ہو گئے ہیں کہ میکینیکل انسان کی اصطلاح ایجاد ہوئ ۔ اور اب روبوٹ ۔ انسان ہی رہیں تو زیادہ بہتر ہے اور روح کی مانیں تو کامیابی یہاں بھی اور بعد کی دنیا میں بھی ۔
حال یا موجودہ لمحہ میں ہی سب کچھ ہے ۔ جس میں ماضی بھی ہے مستقبل بھی ۔ یہ moment to moment چل رہا ہے ۔ اسے ایسے ہی لیں ۔ نہ لمبی پلاننگ کریں جو آپ کہ بس کی بات نہیں اور نہ ہی ماضی کہ دکھ پھرو لیں جو گزر گیا ۔ حال میں رہیں رُوزویلٹ کہ ہرنوں کی طرح ۔ جو لمحہ بہ لمحہ جیتے ہیں ۔ مجھے بھی خوش کرتے ہیں اور خود بھی مست ہر دم ۔
آپ نے اکثر لوگوں کو کسی بہت زیادہ خوشی میں یہ کہتے سنا ہو گا “واہ ، روح خوش ہو گئ” ان واقعات اور لمحات کی جنت میں رہیں جس سے روح خوش ہو جائے ۔ اربوں روپیہ اور جاتی امرا کے محل نواز شریف کی روح کو سکون نہ پہنچا سکے ، جس چیز نے سکون پہنچانا تھا وہ تھی مخلوق کی خدمت ، کیونکہ اس نے کائنات سے یہ فریضہ خود مانگا ، تین دفعہ مانگا ۔ تینوں دفعہ روح سے دھوکہ کیا ، اصل میں اپنی جسمانی خواہشات اور اپنی دولت اور جاہ و جلال میں ۲۲ کروڑ لوگوں کا معاشی قتل کر گیا جس سے روح کی روشنی بجھ گئ اور وہ ایک زندہ لاش کی طرح بھٹک رہا ہے ۔ اسی لیے روحانی لوگ سیاست دان کو شیطان کا چیلا کہتے ہیں ۔ اوشو کو تو اس بات پر امریکہ سے بھی نکالا گیا اور ہندوستان میں بھی پابند سلاسل ۔ جو لوگ روح کہ نور کی بات کرتے ہیں وہ اس استحصالی دنیا کہ حکمرانوں کہ دشمن گردانے جاتے ہیں ، لہٰزا وہ منظر سے غائب ہو جاتے ہیں اور پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں ۔ صرف کچھ ان میں دنیا میں رہ کر تبدیلی کی بات کرتے ہیں ۔ وہ تبدیلی جو روحوں کو منور کرنے کی بات کرتی ہے ، جس سے اصل میں ڈاکٹر لوگ فارغ ہو جائیں گے ۔ جس سے بادشاہتیں اور استحصال ختم ہو جائے گا ۔ ایسی دنیا کی طرف بڑھتے ہیں ۔ اس مین ہی سب خوشیاں اور کائنات کا رقص چُھپا ہوا ہے ۔ اس پر میں مزید لکھتا رہوں گا جیسے جیسے آپ میرے سے سوال کرتے رہیں گے ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر ایک Inbox کا جواب دوں ، آپ دوبارہ پوچھ سکتے ہیں ۔ میں بھی آپ سے بہت کچھ دیکھتا ہوں ۔ یہ علم کی شئیرنگ کا معاملہ ہے نہ میں استاد نہ آپ ۔ جستجو جاری رکھتے ہیں ۔ اپنا بہت خیال رکھیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔