روح كى حقيقتت
زندگی اور موت ،مرنے کے بعد روح کس شکل ميں دوبارہ زندگی حاصل كرتى هے اور کيا وه اسى دنيا ميں دوبارہ واپس آتی ہے۔ يه تهے وہ سوالات اور محركات جن كو ميں قران کی روشنی ميں سامنے لانے کی کوشش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔
ارتقاء-
ارتقاء هوتا هے کسی چيز كا بلند هونا اور اوپر کی طرف بڑھنا ۔قران نے کائنات اور انسانی تخليق كے متعلق کہاکہ ان کی تخليق ارتقائی انداز سے عمل ميں آئی ہے،مثلاً جو اج نظر ا رها هے يه ايک دم سے آسی طرح نهي نمودار هوا بلكه ان كى پيدائش کا اغاز عالم امر ميں اللہ کی مرضى كے مطابق ايك نقطه سے ہوا اور پھر جب يه نقطه عالم خلق ميں ايا تَو وه وهاں اپنے نقطہ أغاذ سے نشو نما پاتا ہوا منزل با منزل بتدريج اپنے ارتقاء كى جانب اپنی تکميل كى طرف بڑھتا چلا کيا .
اور اج جس شكل اور هيت ميں نظر ا رها هے وہ بھی اسکی انتہا نہی بلکہ أرتقاء كا عمل هر ان اور هر لمحه جارى هے ۔
"اس طرح مخلوق كو طبقاً طبقاً منزل با منزل اوپر کی طرف لیے جا رہا ہے"،71/14-84/19-
"اسی اعتبار سے اللہ کو "سيڑھيوں والا اللہ بھی کہا گيا هے"70/3.
"يه سب كچھ اللہ کے قانون ارتقاء كى ره سے ہوتا ہے ،جس ميں ہر انسان ميں اوپر چڑھنے کی صلاحيت ركھ دی گی ہے،اور اگر اس کے ساتھ انسان کی کوشش اور عمل صالح( وه اعمال جن سے انسانيت كى بهترى اور نشو نما) بهى لگ جائیں تو پھر اس ارواء كى رفتار تيز هو جاتى هے"35/10.
انسانوں کے معاملے ميں انسانی زندگی جن دو عوامل سے ملکر بنی ہے وہ ہے طبيعى جسم اور روح(ويكيم) نفس،
"انسان کی طبيعى ذندگی ايك مدت كے لیے ہے"، 6/2-
"انسانی زندگی آگے بھی چلتی ہے"، 17/49-32/10-"ايك بار اور بھی "20/55-
"جس طرح ابتدا هوئی تھی آسی طرح موت كے بعد حيات نو بهى ملے گی"3/11-21/104-29/19-30/11-50/3-50/4-
موت سے انسانی جسم ختم هوتا هے مگر نفس ،روح يا ويكيم چونکہ توانائی ہے اور توانائی مرتی نہی بلکہ اپنی ماہيت بدل ليتى هے اس لیے موت سے روح انسانى نهي مرتى بلكه وه اپنے ارتقاء كا سفر جارى ركهتى هے اور اپنی زندگی کی اگلی منزل کی طوف بڑھ جاتی ہے۔
موت کے بعد کی زندگی کی ماہيت اور كفيت كو زهن انسانى نهي سمجھ سکتا کيونكه اس كا علم الله كی سواے کسی کے پاس نہی۔
قران ہميں صرف اتنا بتاتا هے کہ زندگی رکتی نہی بلکہ مسلسل آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
قران کی رو سے انسان کی موجودہ زندگی اس کے سلسلہ ارتقاء كى پہلی کڑی ہے ،اس سطح پر جو نفس اپنے اندر آگے بڑھنے کی صلاحيت پيدا كر ليتا هے وہ مرنے کے بعد سلسلہ ارتقاء كى اگلی کڑی پر فائز ہونے کے قابل ہو جاتا ہے،موت انسانی ارتقاء كى اخرى کڑی نہی "حتكه جنت بھی اس سلسلے کی اخرى منزل نهي بلكه اگلی کڑی ہے اور زندگی اس سے بھی آگے بڑھتی چلے گی.
"جنت بھی اخرى مقام نهي ،أهل جنت كا نور ان كے اگلے راستے روشن کرے گا"57/12-66/8-
"اخرى منزل كونسى هے اس کا علم ہمارے شعور کی موجودہ سطح پر نہی ديا گيا بس اتنا هى كها گيا هے کہ "ارتقاء كا رخ رب كى طرف هے"، 53/42-79/44-
قران کہتا ہے کہ" تخليق كى ابتدا كے بعد اسے مختلف گردشيں دے رہا ہےاور اس ميں ہر شے کا قدم اس کے ارتواء يعنى متعين كرده منزل كى طرف اٹھ رہا ہے"،10/4-10/34- 27/64-29/19-30/11.
يه سب كآرگہ کائنات ايك متعين مدت كے لیے وجود ميں لايا گيا"30/8-
انسانی جسم کی موت کے بعد جو چيز قبر ميں جاتی ہے وہ فنا ہونے والا جسم ہوتا ہے مگر جو چيز دائمی ہے اور جس کو فنا نہی وہ نفس ،روح يا ويكيم هے جو اپنی اگلی منزل کی طرف بڑھ جاتا ہے ۔اور وہ مقام جہاں سے اس اگلی زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے قران اسے "برزخ " سے تعبير كرتا هے ۔
برزخ دو چيزوں کے درميان حد كو روك كو اور پردہ کو کہتے ہيں ۔
قران جہاں پر سمندر ميں موجود کھارے اور ميٹھے پانی ، گرم اور ٹھنڈے پانی کے درياوں کی بات کرتا ہے کہ وہ ساتھ ساتھ بھتے چلے جاتے ہيں مگر آپس ميں نہی ملتے کيونكه ان می درميان ميں ايك روک (برزخ) رهتى هے ۔ 25/53-55/19,55/20,سورة فرقان اور رحمان .
اور ذندگی اور موت کے متعلق قران سورة مؤمنون ميں بيان كرتا هے،" جب تم ميں سے کسی کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے ،اے ميرے پروردگار اگر تو مجھے واپس لوٹا دے تو ميں ضرور عمل صالح كروں"، قران کہتا ہے" مرنے کے بعد کوئی واپس نہی ا سکتا ،ان کے پيچھے ايك روک "برزخ" هے جو يوم بعث يعنى دوباره زنده هونے کے دن تک جسکو ہم يوم اخرت كهتے ہيں ،تک ہے۔23/100-
يه كهنا كه انسان كى روح بار بار اس دنيا ميں آتی ہے اپنی تکميل كے لیے ،عير قرآنى تصور هے جو يونانى اور هندوں سے مستعار کيا .اس كو نظريه "تناسخ يا آواگون" کہتے ہيں ،جسکے مطابق انسان کی روح مرنے کے بعد بار بار اس دنيا ميں آتی ہے اور انسان اپنی مکتی کے چکر ميں پھنسا رہتا ہے تانکہ وہ اپنی زات کو اپنی ہستی کو فنا کر دے اسی کو وہ نردان کہتے ہيں انسانی زندگی کا منتہا۔
روح انسانی اللہ کی طرف سے اس کی عطا کردہ توانائی ہے جو فنا ہو نہی سکتی۔
قران زندگی کا جو تصور پيش كرتا هے ،اسكى رو سے انسانی زندگی مختلف ارتقائی مراحل طے کرتی پيكر بشريت ميں ظاهر هوئی جہاں اسے طبيعى زندگی کے ساتھ انسانی زات ،اللہ کی توانائی کا ايك شمه ملى ،جس ميں مزيد ارتقائی منازل طے کر کے بلند سے بلند تر ہوتے چلے جانا ہے ۔ موت کے بعد کی زندگی کا ہم اس وقت ادراک نہی کر سکتے ،اس کا تعين انسان كے اس دنيا ميں اعمال کے مطابق ہو گا ۔
قران واضح طور پر کہتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ اس دنيا ميں نہی اے گا ۔ وہ نظريه تناسخ كى ترديد كرتا هے اور کہتا ہے انسانی زندگی کی حركت دورى يعنى cyclic نهي بلكه وه ايك سيدهى اور متوازن رَآه صراط مستقيم پر آگے کے سمت روان ہے ۔ اسکی مثال دريا كے پانی کی طرح هے جو واپس نہی آتا بلکہ آگے چلتا چلا جاتا ہے ۔ جہاں يه پانی رک جاے وھاں يه جوهڑ بن جاے گا اور اس ميں تعفن اور سرانڈ پيدا هو جاے گی ۔ اسی طرح موت سے انسانی جسم کی نشونما رک جاتی ہے اور اس ميں تعفن پيدا هو جاتا هے مگر روح كا سفر مسلسل جارى رهتا هے اس لیے اس ميں زندہ رہنے اور آگے بڑھتے چلے جانے کی قوت ہوتی ہے۔ ،
قران کہتا ہے" حيات اخروى كے بعد پھر موت نہی ہو گی"، اس لیے بار بار مرنے کا تصور غير إز قران هے ،37/57to 37/59–
"تم اپنی پيدائش سے پہلے مردہ تھے (بے جان) اد کے بعد تمھيں زندگی ملی اسکے بعد پھر يهاں موت اے گی اور پھر زندگی ملے گی (اخرت كى زندگی) اور اس کے بعد موت نہی ہو گی"،2/27-35/36-43/77-44/56-
اس سے بھی بات واضح هو جاتی ہے کہ دنيا كى موت كے بعد پھر اس دنيا ميں واپسی نہی ہو گی"، 23/100-23/107/32/12-39/58-42/47-کيونكه اس دنيا ميں جو بھی ايا اسے موت ضرور اے گی"، 3/184-
قران کے مطابق موت کيا هے۔
قران کريم موت اور ذندگی کے الفاظ كو حقيقى معانوں ميں ليتا هے اور مجازی ميں بھی۔
جب انسان کے طبيعى جسم پرموت آتی ہے تو وہ اسے مردہ کھتا ہے اور آسکی روح جو اس دنيا كو چھوڑ کر اپنے ارتقاء كى اگلی منزل ميں برزخ كے پار نکل جاتی ہے جہاں سے اس جہاں اور اس دنيا ميں روک لگا دی جاتی ہے اسے حيات اخروى ،يا حيات نو كهتا هے ۔
قران کی رو سے ذات انسانى ،نفس نا تَو طبيعى قانون كی تحت پيدا هوتا هے اور نا ہی ان قوانين كی تابع ہوتا ہے اس لیے اس پر موت وارد نہی ہوتی اس روح يا ويكيم كو قران "نفس" كهتا هے۔ جسم کی موت کے بعد نفس آگے جاتا ہے اور اس زندگی ميں اپنی نمود کے لیے کونس شكل ميں جاتا هے اس کی حقيقت سے انسان اس وقت واقف نہی ۔
انسانی شعور انسان کا تعلق انسان کے دماغ سے نہی ہوتا کيونكه دماغ اس كے طبيعى جسم كا حصه هوتا هے جو موت کے ساتھ مر جاتا ہے ۔ دماغ ذندگی ميں عمل شعور کے تابع ہو کر کرتا ہے۔
شعور کا تعلق انسانی زات اسکے نفس سے ہوتا ہے ،اس لیے نفس انسانی کے تسلسل کا لازمی نتيجه انسانى شعور كا تسلسل هے۔
انسان کی طبيعى زندگی کی موت اور اخروى زندگی کے درميان جو وقفه اتا هے اس کو وران عالم برزخ كهتا هے ،يه وه مقام هے جہاں ہر شعور اپنی خوابيده حالت ميں ہوتا ہے ،اسکے بعد جب شعور بيدار هو کر اپنی اگلی منزل کی طرف سفر شروع کرتا ہے اسکو قران حيّات اخروى كهتا هے۔
قران کی رو سے مرنے والوں کا اس دنيا سے کوئی تعلق باقی نہی رھتا۔
قران کی رو سے طبيعى كائنات کا سلسلہ لا متناہی ہے ،يه ايك مدت تک قائم رہے گا۔ موت کے بعد افراد اس طبيعى دنيا سے چلے جاتے ہيں اور جب کائنات کا سلسلہ فنا هو جاے گا تو اس کے بعد اس پر انسانوں کے رہنے گا سوال ہئ نہی پيدا هو گا ۔ انسان اس کائنات ميں تب تک ہيں جب تک يه كائنات قائم ہے۔اس اعتبار سے قران نے اس دنيا كو اس كے لیے،"مستقر " ٹھرنے کا مقآم قرار ديا اور اسكے بعد کی دنيا (حيات اخروى) كو "مستودع" (جس كی سپرد اس کو کر ديا) کہا۔
قران کہتا ہے ،
"مرنے کے بعد زندگی ،يوم القيامته كو هو گی"، 23/15-24/16-
(پليز اس بات كا ضرور خيال ركهيں کہ يه ميرى سمجه اس ضمن ميں ہے ، اگر کسی بات سے اختلاف هو تَو وه آپکا حق هے ،يه ايك كاوش هے اس ضمن ميں ،کوئ حرف اخر نهي)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“