::: " روح کا عالمی تصّور اور خصوصی مسائل دینیات" ۔۔ ایک فکر انگیز منفرد نوعیت کی کتاب" :::
یہ کتاب مجھے 2008 میں جے پور راجھستاں ، بھارت سے فراز حامدی سے ارسال کی تھی۔ آج کئی سال بعد اس کو دوبارہ پڑھا۔ اوراب یہ کتاب پہلے سے زیادہ اچھی لگی اور اس کی تفھیم بھی پہلے سے بہتر طورپر ہوئی۔ کتاب کے سرورق کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی مذھبی کتاب ہوگی مگر ایسا ہرگز نہیں۔ اس کتاب میں مذھب کی خوشبو بھی محسوس ضرور ہوتی ہے مگراس کا انداز نگارش منطقی اور سائینسی محققانہ نوعیت کا ہے۔ اس کے بیانیے میں استدلال اور روح کے فکری مسائل کا وسیع النظری سے تجزیہ و تشریح کی ہے۔ کتاب میں ایقان، و شریعت۔ فکر، منطق، فلسفہ، تصوف، اخلاقیات۔ عقائد دینیہ اور فقہیی مسائل کی ضمیحات پر بڑی گہرائی سے روح کے نظریات اور فکریات پر غور و فکر کے بعد بڑی مہارت سے حیات و کائنات کے مسائل کو بھی چھیڑا ہے۔ مشرق اور مغرب کے قدیم و جدید مفکریں کے روح کے افکار سے متعلق ہے ۔ جس نے فکر آرائی کو مزید سنوارہ ان تصورات کی تزئین کی اور اسکو قاری کے لیے مفید بنایا۔ اس کتاب کو پڑھکر یہ احسا س ہوتا ہے کہ دیگر علوم محض اکتسابی اور مفروضاتی ہیں۔ کیونکہ انسانی عقل ایک حد تک ناقص ہے اور کسی بھی معاملے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ علم، ہر علم موضوعی تجرب بن کر غیر حقیقی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ اس طرح کسی بھی فکر اور خیال اور آرا کو آفاقی نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ ایک مفکر اور اہل دانش کا انفرادی تناظر اور زاویہ فکر ہوگا۔ کتاب کے" اظہاریہ" میں فراز حامدی رقمطراز ہیں" دور حاضر کے مسلّمہ سائنسی اصولوں مثلا اصول مقداریہ، اصول مقاصرہ اور متحدہ میدان توانائی کو ادراک کی کسوٹی پر رکھا۔ اور روح کے وجود سے بحث کی گئی ہے۔ یعنی روح سے متعلق سیر حاصل تفصیلات بہم پہنچائی گئی ہیں جو قارئیں کو چونکاتی ہی نہیں بلکہ کچھ سوچتے پر مجبور بھی کرتی ہے۔" { صفحہ ۱۰} اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے بہلا حصہ روح کے عالمی تاور کا ہے تو دوسرا حصہ دور جاضرہ کے کچھ خصوصی موضوعات دینیہ پر منطقی انداز فکر میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب کے منددجات دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس میں سلیس انداز میں موضوعات کو بڑے سلیقے کے ساتھ لکھا گیا اور سمیٹا گیا ہے۔ خاص کر جلال الدین رومی، ابن سینا ، ابن رشد ،شاہ ولی اللہ اور " نیایہ سوتر، نیایہ وشیشکا اور نظریہ روح، سانکھیہ فلسفہ اور نظریہ روح "بڑے معرکے کے مضامین ہیں۔ جس سے فکری اگاہیاں ہوتی ہیں۔ اوران کو قرات کے بعد روح کی اصل " روح" کا دارک اور تفھیم ہو جاتی ہے۔ کتاب کے آخری میں " منتخن کتابیاَت " میں 82 کتابوں کی فہرست دی گی ہے۔
کتاب کے مضنف سید محمد رضی الدین 13 اپریل 1934 میں سوئی پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا وطن ثانی ٹونک ، راجھستان، بھارت ہے۔ انھوں نے ایم اے انگریزی،ایم اے تاریخ اور بی ایڈ کی اسناد حاصل کی ہیں۔ راجھستان ایڈمسٹریٹو سروس سے متعلق رہے ہیں۔ 1991 میں ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ کئی درسگاوں میں استاد بھی رہے ہیں۔ علم نجوم اور کف کے ماہر بھی ہیں۔ ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔