روح اور ڈی این اے کا پیچیدہ معاملہ ۔
دراصل روح ہی ہمارا ساری کائنات اور زندگی سے ایک تعلق ہے ، ڈی این اے تو مردہ میں بھی موجود ہے ۔ روح کا جسم کے ساتھ تعلق ڈرائیور جیسا ہوتا ہے ۔ جسم کار کی طرح کسی حد تک modify بھی کیا جا سکتا ہے جیسے کچھ vaccines سے ڈی این اے۔
کیونکہ روح کی پرورش ، پرواز اور نشو نما کوئ اتنی آسان نہیں لہازا ہم جسموں تک ہی اسے محدود رکھتے ہیں ماسوائے چند خاص شخصیات کے ۔ چونکہ روح کا تعلق پوری کائنات کے ساتھ ہوتا ہے لہازا اس کا ایک اپنا محور ہے ۔ ایک اپنی انرجی ہے ۔ وہ ایک طاقت ہے ، زندگی ہے ۔ ایک بجلی کی مانند کرنٹ ہے جو جسم جیسے کھلونے کو چارج کر رہا ہے ۔
اسی لیے تمام عبادات ، چلہ اور مراکبہ روح تک ہی محدود ہیں اور در اصل جسم کو مکمل اس کے تابع لانے کے طریقے ۔
پچھلے دنوں میں نے اپنے ڈی این اے ٹیسٹ کا سیمپل بھیجھا ہے بڑی شدت سے نتیجہ کا انتظار ہے ۔ گو کہ اس سے میری روحانی زندگی کے بارے میں تو کچھ نہیں پتہ لگ سکے گا لیکن میرے ڈی این اے کے تاریخی پہلو روح کو جسم کو کنٹرول کرنے میں ضرور مدد کریں گے ۔
ہم لوگوں کی بہت بڑی اکثریت روح کے بارے میں تو پریشان ہی نہیں ہے بس جسمانی معاملات ہی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کا زیادہ تر دارو مدار ڈی این اے پر ہوتا ہے ۔ آپ کے آباؤ اجداد کے رویے ، طور طریقے ۔ اچھے برے پیشے کام ، وغیرہ وغیرہ ۔ وہی زندگی کو متاثر کرتے ہیں ۔ اسی رنگ میں آپ رنگے جاتے ہیں ۔
کل مجھے نیو یارک سے میرے ایک دوست ایک حقیقی واقعہ بتا رہے تھے کہ وہ لندن میں مہاتر محمد کی فیملی کے chauffeur تھے ۔ تو ان کی مہاتر کے بیٹے سے ایک دفعہ بات ہو رہی تھی تو وہ بتانے لگے کہ جب عمران خان نے مہاتر کو پاکستان بلایا تو واپسی پر ایدھی سینٹر سے ٹوکری میں تین عدد لا وارث بچیاں بھی ملائشیا میں لے پالک ہونے کے لیے دیں ۔ اور اس نے مزید کہا کہ مہاتر نے ایک چیف جسٹس کو دی ، دوسری اپنے کسی منسٹر کو اور تیسری کاروباری شخص کو ۔
میرے دوست نے مہاتر کے بیٹے سے کہا پھر تو وہ بہت اعلی مقام پر پہنچ گئ ہوں گی ؟ مہاتر کے بیٹے نے نفی میں جواب دیا ۔ اس نے کہا چیف جسٹس والی prostitute بن گئ ، منسٹر والی نشہ پر لگ گئ اور کاروباری شخص والی چور چکاری پر ۔ اس نے کہا کہ ہم نے جب ایدھی والوں کو بتایا تو انہوں نے کہا ان میں سے زیادہ ہم کوڑے کے ڈھیروں یا ہسپتالوں سے لیتے ہیں جو لوگ چھوڑ جاتے ہیں ۔ لہازا ہم کیا تبصرہ کر سکتے ہیں ۔
پچھلے اتوار میں مینلو مال میں کتوں کی نمائش دیکھ رہا تھا ، اس میں چھوٹے کتے کی خرید پر سب سے زیادہ زور pedigree پر تھا ۔ حتی کہ جب انگریز بر صغیر پاک و ہند پر حکومت کر رہے تھے تو وہ بھی افسر لگاتے وقت ان کا شجرہ نسب دیکھتے تھے ۔ بلکہ اپنے ہاں انگلستان میں بھی royal blood کو بہت ترجیح دی جاتی تھی ۔
اس سے یقینا روح کا کام زرا آسان ہو جاتا ہے ، ڈی این اے ٹھیک ہو تو معاملات خود بخود سیدھے وگرنہ روح کو ڈی این اے ٹھیک کرنے کا معاملہ کافی کشت ، محنت ، تقوی اور ریاضت و عبادت والا ہے ۔ اس کام میں نہ کوئ پڑھنا چاہتا ہے اور نہ پڑھتا ہے ۔ اس میں بھی بنگالی بابا ڈھونڈتے ہیں ۔
یہ جو بے حسی ہماری قوم میں ہے اور برائیوں کی اتنی زیادتی کہ کرپشن کرنے والا فخر سے اپنے مال و دولت کی نمائش کرتا ہے ۔ اس کی وجہ ڈی این اے کی پلئتی ہے ۔ انجام گلستان یہی ہونا تھا ۔
ابھی بھی وقت ہے اپنی روحوں کی جانب توجہ کا اس کے لیے کوئ عمر نہیں ۔ تاکہ آپ کی دنیاوی اور آخرت کی زندگی گل و گلزار بن جائے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔