روح کا تصور خواب سے شروع ہوا۔
قدیم انسان نے جب خواب میں مردہ بزرگوں عزیزوں سے ملاقات کی، ان کے ساتھ شکار کھیلا مل بیٹھ کر کھایا پیا، اچانک شیر نے حملہ کیا تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ یہ سب کیا تھا؟ اسے لگا کوئ چیز جسم سے نکل کر باہر جاتی ہے اور پھر جسم میں داخل ہوتی ہے۔ ہم دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے روح اور موت کے بعد دوسری زندگی کا تصور ہر مذہب کا حصہ بن گیا۔
مذاہب جسے روح کہتے ہیں نیورو سائکالوجی اسے mind کہتی ہے۔ دماغ میں 100 ارب neuron cells ہوتے ہیں۔ ہر نیوران 10،000 نیورو ٹرانسمیٹرز سے جڑا ہوتا ہے جو photons کی صورت کیمیکل سگنلز کے ذریعے ہمارے خیالات جذبات احساسات تصورات کو process کر کے memory bank میں سٹور کرتے اور بوقت ضرورت کام میں لاتے ہیں۔ اس تمام پراسس کو “شعور” کہتے ہیں۔
بیماری حادثے یا بڑھاپے میں جب نیوران سیلز مرنے لگتے ہیں تو ان کے کنیکشن بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ خیالات احساسات جذبات تصورات یاداشت کے تمام فنکشنز منتشر ہونے لگتے ہیں۔ اس انتشار میں مرنے والا کبھی سفید ریش بزرگ کو دیکھتا ہے۔ کبھی خود کو بادلوں کی طرف اڑتا محسوس کرتا ہے۔ کبھی باغ عدم سے انے والی خوشبوئیں محسوس کرتا ہے۔ تیماردار یہ کیفیات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
جب دماغ کے تمام سیلز اور فنکشنز مر جاتے ہیں تو ڈاکٹر کلینیکل ڈیتھ کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتا ہے۔ جس کا میڈیکل سائنس میں مطلب ہے کہ مردہ سیلز کو کوئ معجزہ کوئ دعا عبادت دوبارہ زندہ نہیں کر سکتے۔ یہ رعایت اوتار اولیا انبیاء کرام کو بھی دستیاب نہیں۔ جو مر گیا سو مر گیا۔
جسم مادی ہے اور دماغ مادی جسم سے جڑا ہے۔ لہذا دماغ عقل شعور سب مادی ہے۔ جسم سے علیہدہ کیا ہوا دماغ سوچ سکتا ہے نہ خواب دیکھ سکتا ہے۔ جسم و شعور سب خاک میں مل کر دوبارہ ایٹمز اور انرجی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور یہ انرجی پھر گھاس پودے درخت پھول بن کر کسی اور شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ انرجی کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ موت کے بعد زندگی کا سائنس میں کوئی تصور موجود نہیں۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں۔
(غالب)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...