بچہ سیکھنے کی جبلت رکھتا ہے۔ پیر کا انگوٹھا منہ میں لے کر چوسنا، دوڑتے ہوئے ٹکرا جانا، کلکاری پر یا چیخ پر دوسروں کا ردِعمل، کھیل، لوری، یہ سب کچھ بچے کو اس دنیا میں رہنے کا طریقہ سکھا رہے ہیں۔
مشرقی یورپ میں کمیونزم کے دور میں 1966 میں رومانیہ کے صدر نکولائی چاوٗشسکو کے ذہن میں ایک خیال وارد ہوا۔ “ہمارے ملک کی آبادی کم ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ کام کرنے والے ہاتھ کم ہیں۔ اس لئے ہم ترقی نہیں کر پا رہے۔ اب ہم نے بچے پیدا کرنے ہیں۔”
مانع حمل طریقوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ حکومتی ڈاکٹر خواتین کا معائنہ کرتے کہ ہر کوئی ملک کی آبادی بزھانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ان خاندانوں پر ٹیکس عائد کیا گیا جن کے بچوں کی تعداد پانچ سے کم ہوتی۔ دس سے زیادہ بچے کرنے والی خوانتین کو ہیروئن ماں کا میڈل دیا جاتا۔ اقدامات موثر رہے۔ شرحِ پیدائش میں نمایاں اضافہ ہو گیا۔
کئی غریب خاندان ان کی پرورش نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے بچے پالنے کے لئے حکومتی اداروں کے حوالے کر دئے۔ حکومت نے دھڑا دھڑ ایسے ادارے کھولنے شروع کئے جہاں بچوں کو پالا جاتا تھا۔ جب تک چاوٗشسکو کی حکومت ختم ہوئی، ایک لاکھ ستر ہزار بچے ان اداروں میں رہائش پذیر تھے۔
سائنسدانوں نے جلد ہی پتا کر لیا کہ یہ بچوں کے ذہنی ڈویلپمنٹ کے لئے کس قدر برے نتائج کا حامل تھا۔ سرکاری پالیسیز نے کتنا زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ اس پر بوسٹن ہاسپٹل کے ڈاکٹر نیلسن نے جب اپنی سٹڈی کی تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان ننھے منے بچوں کے ساتھ مشینوں کی طرح سلوک کیا جاتا تھا۔ خوراک، کپڑوں، صفائی یا دوسری چیزوں کا مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ توجہ کا تھا۔ پندرہ بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے ایک شخص۔ اس کو ہدایت تھی کہ بچہ چاہے روئے یا کچھ کرے، اس کی طرف توجہ نہیں دینی۔ اٹھانا نہیں ہے، پیار نہیں کرنا۔ وہ خود ہی عادی ہو جائے گا۔ اتنی افرادی قوت نہیں کہ ان کے ناز نخرے اٹھائے جائیں۔ ان سے محبت جتانا منع تھا۔
ان کو ایک طرح کا لباس، ایک طریقے سے ٹوائلٹ ٹریننگ، ایک جیسی ھجامت، وقت پر کھانا دیا جاتا۔ بچوں نے سیکھ لیا تھا کہ رونا نہیں ہے۔
اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہ محبت کے بھوکے تھے۔ جب نیلسن ان بچوں کے کمرے میں گئے تو وہ بتاتے ہیں کہ ہر کوئی ان کے پاس آ گیا کوئی بازو پر چڑھ گیا، کوئی گود میں بیٹھ گیا، کسی نے ہاتھ پکڑ لیا، کوئی ان کے ساتھ چلنے لگا۔ یہ پہلی نظر میں تو پیاری چیز لگتی ہے لیکن نظرانداز کئے گئے بچوں کا یہ طریقہ ہے۔ اور یہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ جب بچپن میں والدین یا بڑوں سے محبت و شفقت نہ ملی ہو تو پھر زندگی میں کسی سے بھی بغیر نتائج کی پرواہ کئے تعلق بنانے کی کوشش، رشتے بنانے کے مسائل، لمبی مدت کی اٹیچ منٹ میں مشکلات۔
نیلسن یہ حالات دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ انہوں نے چھ ماہ سے تین سال تک کے 136 بچوں کو سٹڈی کیا جو شروع سے یہیں رہ رہے تھے۔ ان کے آئی کیو لیول عام سے کم رہ گئے تھے۔ ان کے دماغ کی ٹھیک نشوونما نہیں ہوئی تھی۔ جب ان کی ای ای جی کی تو نیورل ایکٹیویٹی کم تھی۔
ایسا ماحول جہاں جذباتی وابستگی نہ ملے اور ذہن محرک نہ رہے، اس میں دماغ نشوونما نہیں پاتا۔
نیلسن کی سٹڈی کی ایک مثبت سائیڈ بھی ملی۔ دماغ جلد ریکور کر سکتا ہے۔ ایسے بچے جن کو محفوظ اور پیار کرنے والے ماحول میں منتقل کر دیا جائے وہ بڑی حد تک نارمل ہو جاتے ہیں۔ دو سال تک کے بچے تو پوری طرح نارمل ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑے بھی بہت حد تک بہتر ہو سکتے ہیں۔
بچے مشینیں نہیں۔ اچھا انسان بننے کے لئے وقت اور توجہ مانگتے ہیں۔
ہم کہاں ہیں؟ اس کا بڑا گہرا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم کہاں رہے ہیں۔