رومان! مگر کب تک!
لکڑی کا شیشہ‘ پرانا ٹیبل تھا اور دونوں طرف بان کی کھردری چارپائیاں۔ میز پر شیشے کے جگ میں نہیں‘ مٹی کے صراحی نما گھڑے میں پانی تھا۔ یہ ایک ٹرک ہوٹل تھا۔ ساتھ پرانا ساتھی اللہ بخش تھا۔ جب بھی گائوں یا اپنے علاقے میں جانا ہوتا ہے‘ گاڑی وہی چلاتا ہے۔ ہم نے ایک پلیٹ سبزی کی منگائی‘ ایک دال کی‘ تنور کی تازہ خستہ روٹیاں تھیں جو گرم گرم‘ چنگیر میں رکھی جا رہی تھیں۔ مانا کہ ایک طرف شاہراہ تھی جس پر مہیب ٹرک اور دیو آسا بسیں گزر رہی تھیں مگر دوسری طرف تو کھیت تھے۔ حدِ نظر تک‘ وسعت کو اپنے اوپر تانے‘ گندم کی فصل‘ سبز چادر سر پر اوڑھے‘ اپنے حساب سے اونچی ہو رہی تھی۔ درخت تھے‘ سنہری نرم دھوپ جیسے ان کی ٹہنیوں سے بور کی طرح اتر رہی تھی ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
پرندے تھے‘ بادلوں بھری فضائوں کے معصوم مسافر۔ کھانے تو اس کرۂ ارض پر‘ ملک ملک‘ بہت کھائے۔ بحرالکاہل کے جنت نظیر کناروں پر آباد ریستورانوں میں سی فوڈ سے لے کر‘ ٹھٹھرتے وسط ایشیا کے سر بہ فلک فائیو سٹار ہوٹلوں میں گراں بہا
Caviar
تک۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کُلُّ شئیٍ یَرْجِعُ اِلیٰ اَصْلہٖ جو مزا بان کی کھردری چارپائی پر‘ اور مٹی کے پیالے میں اور مٹی ہی کی صحنکی یا طباق میں‘ لسی کے گھونٹ سے‘ چُپڑی ہوئی تنور کی روٹی سے‘ رات کی بچی ہوئی مسور کی ٹھنڈی دال سے اور گندم کے موٹے آٹے کے بنے ہوئے حلوے سے حاصل ہوتا ہے‘ اس کا کیا جواب اور کیا مقابلہ!
مگر ہم جیسے لوگ‘ جن کی اصل ان خاک اڑاتے قریوں میں ہے‘ جو اٹھے اور شہروں میں آن بسے‘ ایک عجیب منافقت کا شکار ہیں۔ ذہنوں میں وہی رومانیت آباد ہے جس میں ہم نے بچپن اور لڑکپن گزارے۔ کچی گلیاں‘ جو بارش میں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں‘ بڑے بڑے آنگنوں میں ایک طرف رہائشی چارپائیاں اور دوسری طرف ڈھور ڈنگر‘ فضا میں گوبر اور اُپلوں کی تیرتی خاص بُوباس۔ ان پڑھ چرواہے جن کی جوانی اور ادھیڑ عمر مویشیوں کو ہانکتے گزر جاتی ہے۔ کوسوں تک پیدل چلتے مرد جن کے پیچھے پیچھے‘ جوتے ہاتھوں میں اٹھائے ان کی عورتیں! مٹی کے پیالے‘ چراغ‘ دودھ اور دہی۔ یہ ہیں وہ دیہات جو یاد کے دریچوں سے دکھائی دیتے ہیں اور ذہنوں میں آباد ہیں۔
مگر یہ وہ زندگی ہے جو ہم خود اب بسر نہیں کر سکتے۔ ذہنی طور پر وہی ہیں لیکن جسمانی اعتبار سے ہم کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ ہمیں تو اب انٹرنیٹ درکار ہے‘ وہ بھی چوبیس گھنٹے‘ کسی تعطل اور کسی رخنے کے بغیر‘ جو صبح چار پانچ بجے‘ جب ہم بستر پر نیم دراز ہوں‘ امریکہ کا‘ شرق اوسط کا اور بھارت کا تازہ ترین پرنٹ میڈیا حاضر کردے۔ صبح ہمیں اخبارات کا موٹا سا پلندہ چاہیے۔ چائے وہ پیتے ہیں جس میں تعویذ نما گتھی پڑی ہوئی ہو‘ جس کا دھاگہ پیالی سے باہر لٹک رہا ہو اور دودھ اتنا ڈالتے ہیں جتنی ہماری گفتگو میں سچائی ہوتی ہے۔ راتیں ہماری جاگتی ہیں۔ یو پی ایس اور جنریٹر زندگی کا جزو بن چکے ہیں۔ بچے جن سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور جن دفتروں‘ کمپنیوں اور اداروں میں کام کرتے ہیں‘ ان کا ان خاک اڑاتے قریوں میں کوئی وجود ہے نہ تصور!
ترقی یافتہ ملکوں میں دیہات کی شکل بدل چکی ہے۔ شہر اور گائوں میں فرق یہی رہ گیا ہے کہ ایک کی آبادی زیادہ ہے اور دوسرے کی کم! معیارِ زندگی یکساں ہے۔ طرزِ حیات ایک سا ہے۔ سہولیات دونوں جگہ وہی ہیں۔ وہی انٹرنیٹ‘ وہی لائبریریاں‘ وہی ہسپتال‘ وہی تعلیمی ادارے‘ اساتذہ اور ڈاکٹروں کے لیے دور افتادہ بستیوں میں جا کر کام کرنا لازمی ہے۔ ریٹائرڈ بوڑھوں اور بوڑھیوں کے لیے خصوصی گائوں آباد کیے جا رہے ہیں جو شہروں کے ہنگاموں سے دور ہوں مگر ہسپتال اور لائبریریاں اسی معیار کی ہوں جو شہروں میں میسر ہیں۔ پانی صاف ستھرا‘ خوراک خالص‘ ملاوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ مقامی حکومتیں ان دور افتادہ بستیوں میں اُسی چابکدستی‘ دیانت داری اور احتساب کے حوالے سے چوکس ہو کر دن رات عوام کی خدمت کرتی ہیں جس طرح صوبائی یا شہری حکومتیں کرتی ہیں۔
ہمارے دیہات ترقی یافتہ دنیا تو دور کی بات ہے‘ خود ہمارے اپنے شہروں سے سینکڑوں سال پیچھے ہیں۔ تعلیم کا یہ حال ہے کہ سکولوں کی چھتیں ہیں نہ دیواریں۔ اساتذہ ہیں نہ لائبریریاں نہ لیبارٹریاں۔ ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ پنجاب حکومت سرکاری سکولوں کو مرحلہ وار شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس پر لاکھوں کروڑوں روپے لگیں گے اور پھر شکوک و شبہات اور الزامات اور صفائیوں سے بھری ہوئی کہانیاں جنم لیں گی۔ دن کی روشنی میں کھلنے والے ان سکولوں کو شمسی توانائی کی نہیں‘ باعزت عمارتوں کی‘ فرنیچر کی‘ پینے کے صاف پانی کی‘ اہلیت رکھنے والے اساتذہ کی لائبریریوں کی اور لیبارٹریوں کی ضرورت ہے۔ آج‘ 2015ء میں بھی‘ حالت یہ ہے کہ مڈل اور ہائی سکول جانے کے لیے بچوں اور بچیوں کو طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی پیدل‘ کبھی سوزوکیوں کے پیچھے لٹک کر‘ اور کبھی بسوں کی چھتوں پر موت کی جھولی میں بیٹھ کر۔ کوئی سروے نہیں بتاتا کہ ملک کے دیہاتی علاقوں میں قائم سکولوں سے کتنے بچے بڑے ہو کر کیا کیا بن رہے ہیں۔ فوج میں افسر یہاں سے کتنے نکل رہے ہیں‘ سول سروس میں کتنے جا رہے ہیں اور دوسرے شعبوں میں کتنی تعداد ملازمتیں حاصل کر رہی ہے؟
صحت کا شعبہ اس قدر پیچھے ہے کہ اسے شعبہ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ تحصیل سطح کے ہسپتال شفاخانے نہیں‘ مقتل اور ذبح خانے ہیں۔ ادویات میسر ہیں نہ آلات‘ یہاں تک کہ مرتے ہوئے مریض کے لیے بسااوقات روئی اور قینچی تک نہیں ملتی۔ ہولناک برآمدوں میں لواحقین کھڑے ہو کر بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرات چائے پی رہے ہوتے ہیں یا کہیں پرائیویٹ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مریض کو مجبوراً کئی میل دور‘ کسی بڑے شہر کے نجی ہسپتال میں لانا پڑتا ہے جو دکان کی طرح چلایا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں جانا پڑا تو معلوم ہوا کہ لفٹ صرف مریضوں کے لیے چل سکتی ہے‘ وہ بھی پہلے عرض گزاری کرنا پڑتی ہے۔ مریضوں کے عمر رسیدہ لواحقین‘ سامان اٹھائے‘ چوتھی منزل تک سیڑھیوں سے جا رہے تھے۔ دیہاتی علاقوں سے لائے ہوئے مریضوں کے تیماردار ایسے عذاب سے گزرتے ہیں کہ شہروں میں رہنے والے اس کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ راتیں برآمدوں میں ٹھٹھرتے ہوئے‘ گرمیاں ہوں تو باہر لان کے سبزے پر یا سڑک کے کنارے کھڑے کھڑے گزرتی ہیں۔ آمدورفت میں ساری جمع پونجی ختم ہو جاتی ہے۔ یوں بھی جب سے بجلی آئی ہے اور موبائل فون عام ہوئے ہیں‘ کسانوں کے پاس نقد رقم ختم ہو گئی ہے۔ چودہ چودہ گھنٹے لوڈشیڈنگ پر رہنے والی بجلی کا بل باقاعدگی سے آتا ہے! ایک زمانہ تھا کہ کسان بچت کر لیتا تھا۔ اب جو رقم بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد بچتی ہے‘ وہ فضول شوق لے اُڑتے ہیں۔ سڑکیں اول تو کچی ہیں‘ دھول اڑاتی اور پکی ہیں تو ٹوٹی ہوئیں‘ مرمت کے لامتناہی انتظار میں۔
رومانی تصورات بجا! لیکن کیا کبھی وہ وقت آئے گا جب ہمارے دیہات گزرے زمانوں سے نکل کر آج کی دنیا میں قدم رکھیں گے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“