رومان اور انقلاب کا شاعر، ساحد لدھیانوی
وہ ایک ایسا شاعر تھا جو اپنی زندگی میں ایک افسانوی حیثیت اختیار کر گیا اس کی شاعری محض اس کے افکارکا پرتو نہ تھی بلکہ خود اس کی زندگی کی کہانی تھی۔ جس متاثر ہو کر اداکار گرودت نے فلم ’’ پیاسا‘‘ بنا ئی تھی۔درحقیقت یہ فلم ایک شاعر کی غیر آسودہ زندگی اور ناکام محبت کی کہا نی تھی
ساحر نے اپنے بارے لکھا تھا کہ
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے مجھے لوٹا رہا ہو ں میں
ساحر لدھیا نوی کا حقیقی نا م عبدالحی تھا۔وہ 8ما رچ 19211کو لدھیا نہ (پنجاب) میں پیدا ہو ئے۔ ا س کی والدہ کا نام سردار بیگم تھا۔ جب ساحر 13 برس کا تھا تو اس کے والد نے دوسری شادی کر لی اور اس کی والدہ کو طلاق دے دی۔ کچھ عرصہ تک ساحر کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اس کے والدین کے درمیا ن مقدمہ بازی بھی چلتی رہی۔ خوف اور غربت کے ما حول میں اس نے اپنی والدہ کا ساتھ نہ چھوڑا اور والد کے پا س کبھی نہ گیا۔ گورنمٹ کالج لدھیانہ میں دوران تعلیم ہی اس کی غزلیں اور نظمیں معروف ہوئیں۔ کا لج سے اسے نکال دیا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی محبوبہ سے کالج میں پرنسپل کے لان میں ملاقات کر رہا تھا، 1943 میں اس نے لا ہو ر میں سکو نت اختیار کر لی اور یہ زمانہ اس کی زندگی کا ہنگامہ خیز دور تھا۔ یہاں اس کا پہلا مجموعہ کلام ’’ تلخیاں‘‘ شائع ہو ا۔ جس نے ساحر کے نام کو ادبی افق کا سب سے روشن ستارہ بنا دیا۔لا ہو ر میں ساحر لدھیانو ی نے معروف ادبی جرائد کی ادارت بھی کی۔ جن میں ’’ سویرا‘‘۔ ’’ ادب لطیف ‘‘۔’’ شاہکار‘‘اور ’’پریت لڑ ی ‘‘ شامل ہیں۔ اسی زمانے میں انجمن ترقی پسند مصنفین سے منسلک ہو ا۔ کیمو نسٹ نظریات کے پرچار کے جرم میں اس کی گرفتاری کے وارنٹ جا ری ہوئے۔1949 میں ساحر لدھیانوی لاہور سے دہلی منتقل ہو گیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ بمبئی کے لیے عازم سفر ہو ا جہا ں وہ زندگی کے آخری ایام تک رہا۔ اس کی شاعری نے دھوم تومچارکھی تھی لیکن فلم اسکرین بھی اس کے نام کی منتظر تھی اور پھر اس نے بالی وڈ میں قدم رکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساحر لدھیانوی کے گیتوں نے ایک سحر طار ی کر دیا۔ اس کے ہم عصر شعرا میں کیفی اعظمی بھی فلمی گیت لکھتے تھے لیکن ساحر کی مقبولیت ان سے کہیں بڑھ کے تھی۔ اس کی ادبی شاعری کی طرح فلمی شاعری بھی نوجوانوں کے دل کی دھڑکن بن گئی۔ بالی وڈ میں کئی ایک تنا زعے بھی ساحر کی شخصیت کے ساتھ جڑے ہو ئے ہیں۔ ایک بار اس نے کہا کہ وہ لتا منگیشکر کو ملنے والے معاوضے سے زیادہ وصول کر ے گا۔جس کے بعد لتا نے اس کے ساتھ کام کرنے سے انکا ر کردیا تب ساحر لدھیانوی گلوکارہ سدھا ملہوترا کو متعار ف کرایا جو اس کی محبوبہ تھی ایک مو قف اس کا یہ بھی تھا کہ مو سیقار سے زیادہ شاعر کی اہمیت ہو تی ہے۔ جس کے بطور خاص موسیقار ایس ڈی برمن نے برا منایا۔ اس زمانے میں فلمی دھن پہلے تیا ر ہو تی تھی اور شاعر اس پر گیت تخلیق کرتا تھا لیکن ساحر لدھیانوی نے اصرار کرکے یہ بات تسلیم کر ائی کہ وہ پہلے گیت لکھے گا بعد ازاں اس پر دھن بنائی جا ئے۔ مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ اس کی رفاقت دیرینہ رہی۔ جیسے گرودت فلمز کا وہ لا زمی حصہ تھا ا س کے بعد وہ پروڈیوسر ڈائریکٹر بی آر چوپڑا کی فلموں کا لازمی جزو بن گیا۔ساحر لدھیانوی زندگی بھر عورتوں کا محبوب شاعر سمجھا گیا البتہ پنجابی کی شاعرہ امرتا پریتم نے جو ا س شاعری کو بے حد پسند کرتی ساحر لدھیانوی سے اپنے عشق کا اعترا ف برملاکیا۔ امرتا پریتم نے اپنی خودنوشت ’’ رسیدی ٹکٹ ‘‘ میں اس عشق کی روداد لکھی ہے۔ ساحر بھی اس محبت کی قدر کیا کرتا تھا، اور یہ بات بھی عام ہو چکی تھی کہ شاید دونوں کی شادی ہو جائے۔ لیکن ساحر حسب عادت اس بندھن سے بھا گ گیا اور امرتاپریتم نے ایک مصور امروز سے شادی کرلی۔کثر ت مے نوشی کے باعث ساحرلدھیانوی دل کے عارضے میں مبتلا ہوگیا۔ 25 اکتوبر 1980 کو ہارٹ اٹیک کے باعث اس کا انتقال ہو گیا۔ لیکن وہ سینکڑوں گیت نظمیں اور غزلیں چھوڑ گیا جو اس کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کا فی ہیں۔
ساحر لدھیانوی کا کلام
چلو ایک بارپھر سے اجنبی بن جا ئیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتو ں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لو گ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
میرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہاری ساتھ گزری ہو ئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ بن جا ئے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لا نا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
***
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے
ابھی زندہ ہو ں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے
انہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھوکر جی لیا میں نے
بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بے کار امیدو
بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیامیں نے
***
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
اس رینگتی حیا ت کا کب تک اٹھا ئیں بار
بیمار الجھنے لگے ہیں طبیب سے
اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
جیسے کو ئی نبھا رہا ہو رقیب سے
***
ساحر لدھیا نوی کی مجرد زندگی۔ناکام عشق اور مے نوشی سب کچھ اس کی اپنی شاعری کے لیے ہی تھا۔ اس نے محبت کو ہی اپنا مو ضوع نہیں بنا یا تھا بلکہ غیر منصفانہ نظام زندگی میں استحصال کا شکا ر انسانوں کے شب وروز بھی اس کی شاعری کا مو ضوع تھے جیسا کہ اس کی نظم ’چکلے‘ تھی۔ وہ یقیناایک رومانی اور باغی شاعر تھا۔ جو اس نظام زیست کوبدلنے کی سعی کر تا رہا۔ لیکن اسے اپنے خواب کی تعبیر زندگی میں نہ مل سکی۔ ساحر کی شاعری کی مقبولیت کسی
بھی دور میں کم نہ ہو ئی۔
ماخوز از فیسبک پیج
https://www.facebook.com/sana.u.khan.733/posts/10208658665004487