(Last Updated On: )
سنگا پوردھر ہم سے زيادہ پيچيدہ حالات کا سامنا کر رہا تھا۔ وہاں کی عوام نسلى تعصبات جس ميں چايئنى، ملائئ اور تامل قوم جو کہ مذہبى حوالوں سے بدھ، ہندو،مسلمان اور کئ غير واضح عقيدوں والے مناقشوں کا شکار تھى۔ رياستى ڈھانچہ جنگ عظيم کے بعد تک برطانيہ کے فوجى بحرى اڈے کے اثر ميں تھاُ غربت اور بھوک کى کوئئ انتہا نہيں تھى ۔علاقے کى اپنى کو ئئ معتبر جغرافيائئ اور سياسى افاديت نہيں بچى تھى۔ اس کى رہائش پذير آبادى 20 لاکھ کے اندر تھى جبکہ مجموعى رياست کا رقبہ صرف 721۔5 مربع کلو ميٹر تھا۔ رقبے کے لہاظ سے عالمى افق پر اس کا نمبر 190 کى پوزيشن پر آتا ہے۔حيرت کى انتہا ديکھيں اس کا رقبہ ہمارے بلوچستان کے نسبتا” چھوٹے ضلع ٻارکھان کے 1،74،000 نفوس والے مجموعى ضلع کے رقبے يعنى 3402 مربع کلو ميٹر سے بھى چار گنا چھوٹا ہے اس کے مقابلے پر پاکستان کا رقبہ 8،82،000 مربع کلو ميٹر جبکہ آبادى 22کروڑ ہے اس ميں اگر بلوچستان کا عليحدہ بھى موازنہ کيا جا ۓ تو اس کا رقبہ 3,47,190 مربع کلو ميٹر جبکہ صوبے کى آبادى ايک کروڑ چو بيس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ملک کوتقریبا” ایک ہزار کلو ميٹرکا ساحل لگتا ہے۔ بہترين نہرى نظام موجود ہے ۔دنيا کی پانچ ميں سے چار برف پوش چوٹياں ادھر موجود ہيں۔آعلئ قدرتى جنگلات سيرو سياحت کے وسيع و عريض علاقے اور دوسرى طرف چار بڑے ريگستان موجود ھيں۔جوکہ مدفون اور سولر و ہوا کى توانائئ کے نہ ختم ہو نے والے قدرتى خزانے ھيں۔ سونے ،تانمبے اور کوئلے کے دنيا کے معلوم چوٹى کے ذخائر موجود پڑے ہيں۔ مگر اپنى تاريخ ديکھو تو شرم سے نگاھيں جھک جاتى ہيں، آدھا ملک گنوا ديا آ ج تک ذمہ داری کا تعين نہ کر سکے۔ جہالت اتنى بڑھائئ ہے کہ معلم اور ديگر اوباش طبقےکمسن بچوں اور بچيوں کو جنسى تشدد کر کے مار ڈالتے ہيں پوليو جيسى بيمارى پر عملے کو گو لياں مارنے کو مذہبى تقا ضا سمجھتے ہيں ۔مسلکى اور مذہبى تشدد کو اپنا فرض گردانتے ہوۓ دوسروں کى زندگى اجيرن کرنے سے سکون پاتے ھيں ۔چور، رياکار اور بد کردار شخص کو ووٹ دے کر اس سے مستقبل کى اميد لگاتے ھيں۔ عوامى خدمات کے محکموں بجلى ،گيس، پانى پر بل نہ دينے کو مذہب اور ايمان کى تعليمات سے متصادم نھيں سمجھتے۔سرمايہ دار اور ذمينداروں نے ڈائرکٹ ٹيکس دينے کى بجاۓ انڈائرکٹ ٹيکس ديھاڑى دار کى آمد کے تناسب پر رکھنے کو ڈھٹائی سے منظور کرا رکھے ھيں۔ بڑی بڑی کارپوريٹ انڈسٹرى مافيہ نے کاڑٹيل بنا کر وفاقى و صوبائى کابيناؤں پر قبضہ جما رکھا ہے۔صنعت کار ٹيکس چھپانے اور سروسز پر بل نہ دينے کو کوئئ آر نہيں سمجھتے۔ تمام ريگوليٹرى باڈييز کے چيرمين اپنى مرضى سے تعينات کرواکر مقابلے کى فضا اپنے اپنے حق ميں کروالیتے ہيں۔ ڈيفنس کے اداروں سے ريٹائرڈ فوجی افسروں اورججوں کو کارپوريٹ اتھاٹيز کے چير مين بنا کر مخصوص منافع بخش شعبہ جات جيساکہ تعميرات، ہاوسنگ، ٹرانسپورٹ، تعليم، مواصلات وغيرہ پر اجارہ داری قائم کر دى گئ ہے۔ نوکر شاہى اپنے حصے کى کميشن خورى اور بھتے کى بندر بانٹ کوپروجيکٹ کے تخمينے ميں شامل کرانا لازمى حصہ گردانتى ہے ايسے ميں پيدوار ى لاگت باوجود کروڑوں جوان اور سستے انسانى وسائل کے عالمى مقابلے کى سکت کھو دیتی ہیں۔ پھر بات يہاں تک موقوف نھيں رہتی بلکہ ان ہى منصوبوں کى عملدارى اور آپریشنل اخراجات پر صبح و شام وزيروں، اسمبلى ممبران،انتظامى افسران اور ٹھيکداروں کے درميان نا ختم ہو نے والى جنگ چل رہى ہوتى ہے۔ اکثر يہ رسہ کشى حکومتوں کے انہدام تک جاپہنچتی ہے۔ اس بدحواسی اور فائر فائٹنگ کے ماحول سے معاشرتى اقدار کا جو حال ہو رہا ہے وہ تو کان پکڑنے سے آگے تقاضا کرتى ہے۔
ستم کى بات يہ ہے کہ کوئئ بھى ايسا انتخاب نھيں ہوتا جس کى قبضہ گیرقوتيں انتخابات سے قبل منصوبہ بندى کر کے نمائندوں کى نامزدگى تک فائنل نہيں کر ليتیں اور بعد ميں اس مکروہ عمل کو انتخابى ڈرامےسے تصديقى مہر بھى لگوا لى جاتى ہے۔ جہاد اور دفاعى حکمت عملى کا جواز تراش کر کے ہمسايوں اور اپنى سر زمين کو لہو لہان کر نے کو اسٹریٹجک گہرائی کا نام دیا جاتا ہے۔اپنى خود مختيارى کى يہ حالت کردى گئ کہ ؤزراے آعظم بدؤوں کى گاڑيوں کو خود ڈرائيو کرنے کے عمل کو معاشى حکمت عملى سمجھتے ھيں۔ الغرض ہم دنيا کى ان قوموں ميں شمار ہو نے لگے ہيں جن کو ناقابل اصلاح سمجھا اور ناقابل حکمرانی سمجھا جاتا ہے۔ ايساکيوں نا ہو جب انصاف کے رکھوالے ٻھى ايگزيکٹو کے آگے کچى ريت کى ديوار بن جا تے ہیں۔ پارليمنٹ جيسے اداروں کے اندر پٹے دار سياستدان بغليں بجا رہے ہوتے ہيں جبکہ غير جمہورى ادارے اتنے شرمناک حادثوں سےعبرت پکڑ کر دنيا کےمروج تقاضوں سے متصادم پاليسيوں سے ہٹنے کو تيار نہ ہوں تو لامحالہ گماں ہوتا ہے کہ کچھ بدلنے والا نھيں۔ وجہ شاہد يہ بھى ہو کہ يہ نظام ان کى ضروريات سے ہم آہنگ ہے مگر عوام تو ايک نہيں بلکہ ہر ضلع ميں ايک ايک مسٹر لى کا انتظار کر رہى ہے۔