مصنفہ : رقیہ سخاوت حسین (برطانوی ہندوستان /موجودہ بنگلہ دیش)
اردو ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی (نیوزی لینڈ)
[1]
ایک شام میں اپنی خواب گاہ میں آرام کرسی پر بیٹھی ہندوستانی عورت کی حالت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ شاید میں سو گئی تھی۔ لیکن ، جہاں تک مجھے یاد تھا ، میں پوری طرح سے جاگی ہوئی تھی۔میں نے دیکھا کہ چاندنی سے روشن آسمان ، ہزاروں ہیروں جیسے تاروں سے جگمگا رہا تھا ، بہت واضح طور پر۔
اچانک ہی ایک خاتون میرے سامنے کھڑی ہوگئی ؛ وہ اندر کیسے آئی ، میں نہیں جانتی۔وہ شاید میری دوست ، سسٹر سارہ تھی۔
“صبح بخیر” ، سسٹر سارہ نے کہا۔ میں اندر ہی اندر مسکرائی کیونکہ میں جانتی تھی وہ صبح نہیں تھی، بلکہ تاروں بھری رات تھی۔ بہرحال ، میں نے جواب دیا ، ” کیسی ہو ؟”
” میں اچھی ہوں ، شکریہ ۔ کیا تم باہر آؤگی اور ایک نظر اپنے باغ پر ڈالوگی ؟”
میں نے کھلی کھڑکی سے ایک بار پھر چاند کو دیکھا ، اور سوچا کہ اس وقت باہر جانے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ سارے مرد ملازمین باہر گہری نیند سورہے تھے، اور میں سسٹر سارہ کے ساتھ بہت خوشی سے چہل قدمی کرسکتی تھی۔
جب ہم دارجلنگ (بنگال کا ایک گاؤں) میں تھے ، میں سسٹر سارہ کے ساتھ چہل قدمی کیا کرتی تھی۔ کئی مرتبہ ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ، ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہوے نباتیاتی باغ ( Botanical gardens) میں چہل قدمی کی تھی۔ میرا خیال تھا کہ سسٹر سارہ ممکن تھا ایسے ہی کسی باغ میں مجھے ساتھ لیجانے کے لیے آئی تھیں اور میں نے فوری حامی بھر لی اور ان کے ساتھ چلی گئی۔
چہل قدمی کرتے ہوے میں نے حیرت کے ساتھ محسوس کیا کہ وہ تو ایک بہترین صبح تھی۔شہر تو پوری طرح جاگ چکا تھا ، لوگوں کی ہلچل کے ساتھ سڑکوں پر زندگی لوٹ آئی تھی۔ مجھے یہ سوچ کر بڑی شرم آرہی تھی کہ میں سڑک پر دن کی روشنی میں چہل قدمی کررہی تھی، لیکن وہاں کوئی مرد دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
کچھ پاس سے گذرنے والے راہگیر میرا مذاق بھی اڑا رہے تھے۔میں ان کی زبان تو سمجھ نہیں پارہی تھی، لیکن مجھے احساس تھا کہ وہ مجھ پر ہنس رہی تھیں ۔ میں نے میری دوست سے پوچھا ،” یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟”
” خواتین کہہ رہی ہیں کہ تم بہت مردانہ دکھائی دیتی ہو۔”
“مردانہ ؟ “میں نے کہا ، ” اس سے کیا مطلب ہے تمھارا ؟”
“ان کا مطلب ہے تم مردوں کی طرح شرمیلی اور ڈرپوک ہو۔”
[2]
” مردوں کی طرح شرمیلی اور ڈرپوک ؟” یہ تو واقعی ایک مذاق تھا۔ میں بڑی پریشان ہوگئی ، جب مجھے یہ پتہ چلا کہ میری ساتھی سسٹر سارہ نہیں بلکہ کوئی اجنبی تھی۔ اوہ ، میں بھی کتنی بیوقوف تھی کہ سسٹر سارہ کی بجائے کسی اور خاتون کو اپنی پیاری اور پرانی دوست سمجھ بیٹھی۔
ہم چونکہ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چہل قدمی کر رہے تھے ، اس لیے اس نے محسوس کیا کہ میری انگلیاں اس کے ہاتھ میں کانپ رہی تھیں ۔
“کیا بات ہے ، میری پیاری دوست ؟” اس نے بڑی محبت سے کہا۔ “میں کچھ شرمندگی محسوس کر رہی ہوں ،” میں نے ندامت کے ساتھ کہا ، ” ایک پردہ نشین عورت ہونے کے ناطے میں بے نقاب باہر جانے کی عادی نہیں ہوں۔”
” تمھیں کسی مرد کا سامنا ہوجانے پر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ “عورتوں کی دنیا ” (Ladyland) ہے ، گناہ اور نقصان سے بری ۔ یہاں تو نیکی حکومت کرتی ہے ،”
ساتھ ہی ساتھ میں مناظر سے لطف اندوز بھی ہورہی تھی۔ ویسے سچ مچ بڑا شاندار تھا۔ایک سبز گھاس کے قطعہ کو مخملی گدا سمجھ بیٹھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کسی مخملی قالین پر چل رہی تھی ، میں نے نیچے دیکھا کہ راستہ کائی اور پھولوں سے بھرا تھا۔
“یہ سب کتنا خوبصورت ہے ۔” میں نے کہا۔
” تمھیں پسند ہے یہ سب ؟” سسٹر سارہ نے پوچھا۔ ( میں ابھی بھی اسے سسٹر سارہ کہہ رہی تھی اور وہ بھی مجھے میرے نام سے بلا رہی تھی۔)
” ہاں ، بہت ؛ لیکن مجھے نازک اور پیارے پھولوں کو روندنا پسند نہیں ہے۔”
“کوئی بات نہیں ، عزیزی سلطانہ ؛ تمھارا ان پھولوں کو روندنے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ تو را ستے میں اگے پھول ہیں۔”
” یہ تو ساری جگہ ہی باغ دکھائی دیتی ہے ، ” میں نے ستائشی انداز میں کہا۔” تم نے بڑی مہارت سے ہر ایک پودے کی دیکھ بھال کی ہے۔”
” تمھارا کلکتہ اس سے بھی بہتر باغ بن سکتا ہے اگر صرف تمھارے ہم وطن اس طرح چاہیں تو۔”
“ان کا خیال ہے کہ کاشت اور باغبانی پر دھیان دینا بیکار ہے جب تمھارے پاس کرنے کے لیے دوسرے کئی ضروری کام ہوں۔”
” انھیں اس سے بہتر بہانہ نہیں مل سکتا تھا ،” اس نے مسکراتے ہوئےکہا۔
میں بہت زیادہ متجسس ہوگئی یہ جاننے کے لیے کہ سارے مرد کہاں ہیں۔ چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے سو سے بھی زیادہ خواتین ملیں ، لیکن مرد ایک بھی نہیں دکھائی دیا۔
“یہاں کے سارے مرد کہاں ہیں؟”میں نے اس سے پوچھا۔
” وہ اپنی اپنی مناسب جگہوں پر ہیں ، جہاں انھیں ہونا چاہیے ۔”
[3]
” مہربانی فرما کر بتائیں گی ،’ اپنی اپنی مناسب جگہوں پر’ سے آپ کا کیا مطلب ہے ۔”
” اوہ ، اچھا ، میری غلطی ہے ، تمھیں ہمارے رواجوں اور رسومات کا علم نہیں ہے کیونکہ تم اس سے پہلے یہاں کبھی رہیں نہیں۔ ہم نے اپنے آدمیوں کو گھروں کے اندر بند کر رکھا ہے۔”
“جیسے ہم لوگ زنانخانہ میں محدود ہوتے ہیں ؟”
” بالکل اسی طرح۔”
“کتنا مضحکہ خیز ہے ،” اور میں زور سے ہنسنے لگی۔ سسٹر سارہ بھی ہنسنے لگی۔
” لیکن پیاری سلطانہ ، یہ کتنی ناانصافی ہے کہ بیچاری بے ضرر عورتوں کو بند کردیا جاے اور آدمیوں کو کھلا چھوڑ دیا جاے۔”
” کیوں؟ ہمارے لیے یہ غیر محفوظ ہے کہ ہم زنانخانہ سے باہر آئیں ، کیونکہ ہم قدرتی طور پر صنف نازک ہیں۔”
” ہاں ، یہ محفوظ نہیں ہے جب مرد سڑکوں پر گھوم رہے ہوں ، اور نہ ہی جب کوئی جنگلی جانور بازار میں داخل ہوجائے۔”
” بالکل نہیں۔”
” فرض کریں کہ ، کچھ پاگل اپنی پناہ گاہ سے فرار ہو کر عام انسانوں کو ، گھوڑوں کو ، اور دوسرے جانداروں کو پریشان کرنے لگیں ؛ ایسی صورت میں تمھارے ہم وطن کیا کریں گے؟”
” وہ انھیں پکڑنے کی کوشش کریں گے اور واپس ان کی پناہ گاہوں میں چھوڑ آئیں گے۔”
“شکریہ ! اور کیا تم ایسا نہیں سوچتیں کہ سمجھداری اس میں ہوگی کہ صحیح الحواس ، باشعور انسانوں کو پناہ گاہ میں محفوظ کردیا جاے اور پاگلوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے؟”
” بالکل نہیں !” میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
” حقیقت یہ ہے کہ تمھارے ملک میں ایسا ہی ہوا ہے ! وہ مرد جو یہ سب کرتے ہیں ، یا کم از کم اس قابل ہیں کہ لوگوں کو پریشان کرنے والی حرکتیں کر سکیں انھیں کھلا چھوڑ دیا گیا ، اور معصوم عورتوں کو زنانخانہ میں بند کردیا گیا ! تم کیسے ان غیرتربیت یافتہ آدمیوں کو گھر سے باہر چھوڑ سکتے ہو ؟”
“ہمارے سماجی مسائل کی سنوائی کے لیے انتظامیہ میں ہمارا کوئی حامی اور مددگار نہیں ہے۔ انڈیا میں مرد مالک اور آقا ہے ، سارے اختیارات اور مراعات اس نے اپنے قبضہ میں کرلیے اور عورتوں کو زنانخانے میں بند کر دیا۔”
” تم کیوں خود کو بند کروانے پر راضی ہوئیں ؟”
” کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا ، کیونکہ وہ عورتوں کے مقابلہ زیادہ مضبوط اور توانا ہیں ۔”
[4]
” ایک شیر آدمی سے زیادہ توانا ہے ، لیکن یہ اسے انسانی نسل پر حاوی نہیں ہونے دیتا۔تم نے اپنے تئیں اپنے فرض کو نظرانداز کیا ہوا ہے ، اور خود کی ذاتی دلچسپیوں سے آنکھیں بند کر کے اپنے فطری حقوق کھو چکی ہو ۔”
” لیکن میری پیاری سسٹر سارہ ، اگر ہم خود ہی سب کرلیں ، تو پھر مرد کیا کریں گے؟”
“انھیں کچھ نہیں کرنا چاہیے ، معاف کرنا ؛ وہ کسی قابل ہیں ہی نہیں۔ انھیں پکڑو اور زنانخانے میں ڈال دو۔”
“لیکن کیا یہ اتنا آسان ہوگا انھیں پکڑ کر چار دیواری میں بند کرنا؟ “میں نے کہا۔ ” اور اگر یہ ہو بھی گیا تو ان کے سارے کاروبار __ سیاسی اور تجارتی __ بھی زنانخانہ میں چلے جائیں گے؟”
سسٹر سارہ نے کوئی جواب نہیں دیا سوائے ایک پیاری سی مسکراہٹ کے۔شاید اس نے سوچا کہ اس سے بحث کرنے سے کیا فائدہ جو ایک کنویں کی مینڈک سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس وقت تک ہم سسٹر سارہ کے گھر پہنچ چکے تھے۔اس کا بنگلہ نالی دار لوہے کی چادر سے بنی چھت کے ساتھ ایک دل کی شکل کے باغ کے بیچوں بیچ واقع تھا۔ہماری عمدہ اور امیر عمارتوں سے بہتر اور ٹھنڈا تھا۔میں بیان نہیں کر سکتی کہ وہ گھر کتنا صاف ستھرا ، اچھے ساز و سامان سے آراستہ اور نفاست سے سجا ہوا تھا۔
ہم ساتھ ساتھ ہی بیٹھ گئیں ۔ وہ کمرے سے ایک کشیدہ کاری کا نمونہ لے آئی اور ایک نیا ڈیزائین بنانے لگی۔
“کیا تم بُنائی اور کڑھائی جانتی ہو ؟”
” ہاں ؛ زنانخانہ میں ہمارے کرنے کے لیے اور کچھ تو ہوتا نہیں۔”
“لیکن کڑھائی کے معاملہ میں ہم اپنے زنانخانہ کے ساتھیوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے !” اس نے ہنستے ہوے کہا ، ” ایک مرد کے پاس اتنا صبر نہیں ہوتا کہ وہ سوئی کے سوراخ میں دھاگا بھی ڈال سکے !”
“یہ سارا کام تم ہی نے کیا ہے؟” میں نے کڑھائی شدہ تپائی پر پڑے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے پوچھا۔
” ہاں۔”
“تمھیں وقت کیسے مل جاتا ہے یہ سب کرنے کے لیے ؟ تمھیں تو آفس کا کام بھی کرنا پڑتا ہے ؟ ہے نا؟”
” ہاں۔ میں تھوڑی نہ سارے دن لیباریٹری سے چپکی رہتی ہوں۔ میں اپنا آفس کا کام دو گھنٹوں میں ختم کردیتی ہوں۔”
” دو گھنٹوں میں ! کیسے نپٹا لیتی ہو ؟ ہمارے وطن میں تو آفیسرز ___ ججز ، مثال کے طور پر ___روزانہ سات گھنٹے کام کرتے ہیں۔”
[5]
” میں نے کچھ لوگوں کو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ کیا تم سمجھتی ہو کہ وہ سات گھنٹے کام کرتے ہیں؟”
” بالکل ، کرتے ہیں وہ !”
“نہیں ، پیاری سلطانہ ، وہ نہیں کرتے ہیں۔ وہ تو اپنا وقت سگریٹ پینے میں ضائع کرتے ہیں۔کچھ تو آفس کےدوران ہی دو سے تین چرٹ پی جاتے ہیں۔ وہ اپنے کام کے بارے میں باتیں زیادہ کرتے ہیں ، لیکن کام کم کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک چرٹ (سگریٹ) کو ختم کرنے میں آدھا گھنٹہ لگتا ہے ، اور ایک آدمی اگر ہر روز بارہ چرٹ پی جاتا ہے تو تم ہی دیکھو ، وہ ہر روز چھے گھنٹہ ضائع کرتا ہے صرف چرٹ پینے پر۔”
ہم نے کئی موضوعات پر گفتگو کی ، اور میں نے جانا کہ وہ موضوعات کوئی وبائی مرض ، اور نہ ہی کوئی مچھروں کے کاٹنے سے بیمار ہونا ، جیسے ہم بیمار ہوتے ہیں ، جیسے موضوعات نہیں تھے ۔میں تو یہ جان کر بے حد حیران ہوئی کہ عورتوں کی دنیا(Ladyland) میں کوئی جوانی میں نہیں مرتا سسوائے شاذ و نادر کسی حادثہ کے۔
” کیا تم ہمارا باورچی خانہ دیکھنا چاہوگی ؟”
” بہت خوشی سے ،” میں نے کہا ، اور ہم باورچی خانہ دیکھنے کے لیے چلے گیے۔مردوں سے کہا گیا تھا کہ وہ سب باہر چلے جائیں جب میں وہاں جارہی تھی۔باورچی خانہ ایک خوبصورت ترکاری کے باغ میں واقع تھا۔ ہر بیل ، ہر ٹماٹر کا پودا بذات خود آرائش کا حصہ تھا۔ باورچی خانہ میں کوئی دھواں نہیں تھا اور نہ ہی کوئی چمنی ۔۔۔ بہت صاف اور چمکتا ہوا تھا ؛ کھڑکیاں باغ کے پھولوں سے سجی تھیں۔ وہاں کوئلہ یا آگ کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
” تم لوگ کھانے کیسے بناتے ہو؟” میں نے پوچھا۔
“شمسی توانائی سے ،” اس نے کہا ، اور اسی وقت مجھے وہ نلکی دکھانے لگی جس میں سے سورج کی روشنی اور توانائی کثیف ہو کر گذرتی تھی۔ اور اس نے وہیں پر ، کچھ پکا کر ، اسی وقت عملی طور پر اس کا طریقہ کار مجھے دکھایا۔
” تم اس شمسی توانائی کو کیسے جمع کرتی ہو اور محفوظ کرتی ہو؟” میں نے تعجب سے پوچھا۔
” میں تمہیں کچھ اپنی تاریخ کے بارے میں بتانا چاہوں گی۔ تیس سال پہلے ، جب ہماری رانی تیرہ سال کی تھی ، وہ اس تخت و تاج کی مالک بن چکی تھی۔ وہ رانی تو صرف نام کی تھی ، دراصل ملک پر حکومت تو وزیراعظم کی تھی۔”
” ہماری پیاری رانی سائنس کو بہت پسند کرتی تھی۔ اس نے ایک حکم نامہ جاری کروایا کہ اس کے ملک میں ساری عورتیں تعلیم یافتہ ہوں۔چنانچہ ، اس کے مطابق کئی لڑکیوں کے اسکول کھولے گئے جنھیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔پس عورتوں کی تعلیم دور دور تک پھیل گئی۔اور بچپن کی شادی بند کردی گئی۔کسی لڑکی کی شادی اکیس سال کی عمر سے پہلے نہیں ہو سکتی تھی۔اور تمھیں بتاؤں کہ ان تبدیلیوں سے پہلے ہمیں سخت پردے میں رکھا جاتا تھا۔”
[6]
” یہ کایا کیسے پلٹ ہو گئی ،”میں نے ہنستے ہوے مداخلت کی۔
“لیکن علیحدگی برقرار رہی،” اس نے کہا۔” چند ہی سالوں میں عورتوں کی الگ یونیورسٹیاں قائم ہوگئیں ، جہاں مردوں کا داخلہ ممنوں تھا۔”
” دارالسلطنت میں ، جہاں ہماری رانی رہتی ہے ، دو یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں سے ایک نے ایک حیرت انگیز غبارہ تیار کیا جس کو بے شمار نلکیاں لگی تھیں ۔ اس اسیر غبارے کے ذریعہ جسے بادلوں کے اوپر پہنچا دیا گیا تھا ، وہ جتنا چاہیں فضا سے پانی حاصل کر سکتے تھے۔ یونیورسٹی کے لوگوں کے لگاتار پانی نکالنے کی وجہ سے بادلوں کا جمع ہونا ختم ہوگیا ، اور ہو شیار خاتون پرنسپل نے بارش اور طوفان بھی بند کروا دیے،”
” سچ! اب میری سمجھ میں آیا کہ یہاں مٹی کیوں نہیں ہے !”میں نے کہا۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ اتنا سارا پانی نلکیوں میں جمع کیا جاسکتا تھا۔اس نے مجھے تفصیل بتائی کہ یہ کیسے کیا جاتا تھا، لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا، کیونکہ میری سائنسی معلومات محدود تھیں۔ بہر حال ، اس نے اپنی بات جاری رکھی ، “جب دوسری یونیورسٹی میں یہ خبر پہنچی ، وہ رقابت کے احساس میں مبتلا ہوگئے ، اور کوشش کرنے لگے کہ کچھ اس بھی زیادہ غیرمعمولی کیا جائے۔انھوں نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا جس کے ذریعہ جتنی چاہیں شمسی توانائی اکٹھا کی جا سکتی تھی۔ اور پھر انھوں نے اس توانائی کو محفوظ کرنا شروع کیا ، تاکہ دوسروں کی ضرورت پر انھیں بھی دیا جاسکے۔
“جب عورتیں سائنسی تحقیق میں مصروف تھیں ، اس ملک کے مرد ملک کی فوجی طاقت کو بڑھانے میں مصروف تھے۔جب انھیں پتہ چلا کہ خواتین کی یونیورسٹی کے اراکین فضا سے پانی حاصل کر رہے تھے اور سورج کی گرمی کو محفوظ کررہے تھے ، تو سارے مرد ہنس پڑے اور کہا کہ ساری عمل ” ایک جذباتی ڈراؤنا خواب !” (a sentimental nightmare) کے سوا اور کچھ نہیں۔”
” تمھاری یہ کامیابیاں واقعی شاندار ہیں !لیکن بتائیں کہ تم نے ملک کےمردوں کو زنانخانہ میں ڈالنے کا بندوبست کیسے کیا؟ کیا تم نے پہلے انھیں جال میں پھنسایا ؟”
” نہیں ۔”
” ممکنہ طور پر اس کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ ان کی آزاد اور کھلی فضا میں اپنی مرضی سے گذاری جانے والی زندگی کو چھوڑ کر زنانخانہ کی چار دیواری میں خود کو محدود کرلیں گے ! انھیں ضرور بہت مجبور کردیا گیا ہوگا ۔”
“ہاں ، انھیں زیر کیا گیا ! ”
“کس سے ؟ کسی خاتون۔جنگجو کی مدد سے ، میرے خیال سے ؟”
“نہیں ، ہتھیاروں سے نہیں۔”
” صحیح ، ایسا نہیں ہو سکتا ۔ مرد ، عورتوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ پھر کیسے ؟”
[7]
“ذہن کے ذریعے۔”
” لیکن ان کے دماغ بھی تو عورتوں سے بڑے اور وزنی ہیں۔ ہیں نا؟”
” ہاں ، لیکن کیا فائدہ ؟ ایک ہاتھی بھی تو آدمی کے دماغ سے بڑا اور وزنی دماغ رکھتا ہے۔ پھربھی انسان ، اپنی مرضی کے مطابق ، انھیں زنجیر وں میں جکڑ کر ان سے کام لیتا ہے۔”
” صحیح کہا ، لیکن مہربانی فرما کر بتائیں ، اصل میں یہ سب ہوا کیسے۔ ۔۔میں بہت بے چین ہوں جاننے کے لیے !”
“عورتوں کے دماغ آدمیوں کے دماغ سے زیادہ تیز ہوتے ہیں۔دس سال پہلے جب فوجی افسروں نے ہماری سائینسی دریافتوں کو ” جذباتی ڈراؤنا خواب ” کہا تھا ، کچھ نوجوان خواتین نے ان کی راۓ کا جواب دینا چاہا۔ لیکن دونوں خواتین پرنسپل نے انھیں روک دیا اور کہا کہ انھیں جواب الفاظ میں نہیں بلکہ کام سے دیں ، اگر موقع مل جاۓتو ۔ اور انھیں اس موقع کے لیے زیادہ انتظار کرنا نہیں پڑا ۔”
“کتنی حیرت انگیز بات !” میں نے دلی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تالی بجائی۔”اور اب یہ مغرور ذی مرتبہ لوگ خود ہی جذباتی خواب دیکھنے لگے تھے۔”
” کچھ ہی دنوں بعد پڑوسی ملک سے کچھ لوگ ہمارے ملک میں پناہ لینے کے لیے آئے۔ان سے کوئی سیاسی جرم سرزد ہوگیا تھا اور اب وہ مشکل میں تھے۔اورراجہ نے ،جس کوایک اچھی حکومت کے بجاے اپنی طاقت کی زیادہ بھروسہ تھا ، ہماری نرم دل رانی سے کہا کہ وہ ان افسروں کو واپس کر دے ۔ رانی نے انکار کردیا کیونکہ یہ ان کے اصول کے خلاف تھا کہ پناہ گزیوں کو واپس بھیج دیں۔رانی کے اس انکار پر راجہ نے ہمارے ملک کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔
“ہمارے فوجی افسران فوری تیار ہو کر دشمن سے لڑنے کے لیے نکل پڑے۔ ویسے دشمن ان سے کافی زیادہ طاقتور تھے۔ ہمارے سپاہیوں نے بے شک بہت بہادری سےمقابلہ کیا۔ لیکن ان کی ساری بہادری کے باوجود غیر ملکی فوج ہمارے ملک پر حملہ کرتے ہوئے قدم قدم آگے بڑھتی چلی گئی۔”
” قریب قریب سارے مرد جنگ پر جاچکے تھے ؛ یہاں تک کہ سولہ سال کے بچے کو بھی گھر پر نہیں چھوڑا گیا۔ بہت سارے جنگجو سپاہی مارے گئے، اور باقی گھر واپس بھجوادیے گئے ، اور دشمن پچیس میل دارالحکومت کے اندر گھس آئے۔”
“رانی نے محل میں کئی دانشمند خواتین کے ساتھ میٹنگ کی اور یہ مشورہ کرنے کے لیے کہ وطن کو بچانے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے۔ کچھ نے مشورہ دیا کہ فوجیوں کی طرح لڑا جاے ؛ دوسروں نے اعتراض کیا کہ عورتوں کو تلواروں اور بندوقوں سے لڑائی کرنے کی تربیت نہیں تھی ، اور نہ ہی وہ کسی بھی ہتھیار کے ساتھ لڑنے کی عادی تھیں۔اور تیسری پارٹی نے افسوس کے ساتھ رائے دی کہ وہ مایوس کن کمزور جسم کی مالک تھیں۔
[8]
” اگر آپ جسمانی طاقت کی کمی کی وجہ سے اپنے ملک کی حفاظت نہیں کرسکتیں تو ،” رانی نے کہا ، “ اپنی ذہنی قوت کے ذریعہ ایسا کرنے کی کوشش کریں۔”
کچھ منٹوں کے لیے مکمل خاموشی چھائی رہی۔ پھر عزت مآب رانی صاحبہ نے کہا ، ” مجھے خودکشی کرلینی ہوگی اگر میرا وطن اور میری عزت مجھ سے چھن جاے۔”
” پھر دوسری یونیورسٹی کی خاتون پرنسپل نے ( جس نے سورج کی تپش کو جمع کیا تھا) ، جو ساری مشاورت کے دوران خاموشی سے سوچتی رہی تھیں ، کہا کہ وہ سب ہار چکی تھیں ، اور بس ایک چھوٹی سی امید باقی بچی تھی۔ بہر حال ، ایک منصوبہ تھا جسے وہ آزمانا چاہتی تھیں جو ان کی پہلی اور آخری کوشش ہوگی ، اور اگر وہ ناکام رہیں تو ، ان کے لیے سوائے خودکشی کرنے کے اور کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ وہاں موجود ساری خواتین نے سنجیدگی سے قسم کھائی کہ جو کچھ بھی ہو وہ خود کو غلام نہیں بننے دیں گی۔
رانی نے سب کا دل سے شکریہ ادا کیا ، اور خاتون پرنسپل سے کہا کہ وہ اپنے منصوبہ کو رو بۂ عمل لانے کی کوشش کریں۔ خاتون پرنسپل کھڑی ہوگئی اور کہا ، ” اس سے پہلے کہ ہم باہر جائیں ، مردوں کو زنانخانہ میں داخل ہوجانا چاہیے۔یہ درخواست میں نے پردہ کی خاطر کی ہے۔”
” ہاں ، بالکل ،” عزت مآب رانی صاحبہ نے جواب دیا۔
اگلے دن رانی نے سارے مردوں کو حکم دیا کہ وہ عزت اور آزادی کی خاطر زنانخانے میں چلے جائیں۔زخمی اور تھکے ہوے تو وہ پہلے ہی سے تھے ، یہ حکم انھیں کرم اور مہربانی ہی لگا ! انھوں نے سر تسلیم خم کیا اور بغیر کسی احتجاج کے زنانخانے میں چلے گیے۔ویسے بھی انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اس ملک کے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں بچی تھی۔
اور پھر خاتون پرنسپل دو ہزار طالبات کے ساتھ میدان جنگ کی طرف چل پڑیں ، اور وہاں پہنچ کر جمع کی گئی سورج کی روشنی اور تپش کی کرنوں کو دشمن کی سمت پھیر دیا۔
” وہ تپش اور روشنی ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔خوف و ہراس کے مارے ، بدحواسی میں یہ جانے بغیر کہ اس جھلسا دینے والی گرمی سے کیسے مقابلہ کیا جائے ، وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے۔بھاگتے ہوئے ، جنگ میں استعمال ہونے والی ساری بندوقیں اور گولہ بارود وہیں چھوڑ گیے ، وہ سب شمسی ۔تپش کے ذریعہ جلا دیے گئے۔ تب سے کسی نے کبھی ہمارے ملک پر حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔”
” اور تب ہی سے تمھارے ہم وطنوں نے کبھی زنانخانے سے باہر آنے کی کوشش نہیں کی ؟”
” ہاں ، وہ آزاد ہونا چاہتے تھے۔ کچھ پولیس کمیشنرز اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس نے رانی کو کہلا بھجوایا کہ فوجی افسروں کو یقیناً ان کی ناکامی پر جیل بھجوادینا چاہیے ؛ لیکن انھوں نے کبھی اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتی اور اس لیے انھیں سزا نہیں دینی چاہیے اور انھوں نے درخواست کی ہے کہ انھیں ان کے سابقہ عہدوں پر بحال کردیا جائے۔
[9]
” عزت مآب رانی صاحبہ نے ان کو مطلع کرتے ہوئے ایک مراسلہ بھجوا یا کہ اگر ان کی خدمات کی ضرورت ہوگی تو انھیں بھجوا دیا جائے گا، اور یہ کہ تب تک وہیں رہیں جہاں وہ تھے۔ اب چونکہ وہ پردےکے نظام کے عادی ہوچکے تھے اور اپنی تنہائی پر غصہ کرنا بھی چھوڑ چکے تھے ، ہم اسے” مردانہ نظام” کہیں گے بجائے “زنانخانہ” کہنے کے۔
” لیکن تم یہ سب کیسے سنبھالتی ہو ،” میں نےسسٹر سارہ سے پوچھا ، “بغیر پولیس اور مجسٹریٹ کے کسی چوری یا قتل کی صورت میں ؟”
” چونکہ ، یہاں ” مردانہ نظام ” قائم ہوگیا تھا ، یہاں کوئی جرم اور گناہ باقی نہیں رہا ؛ اس لیے ہمیں کسی پولیس والے کی ضرورت نہیں ہے کسی مجرم کو پکڑنے کی ، نہ ہی ہمیں ضرورت ہے کسی مجسٹریٹ۔۔۔ کی فوجداری مقدمہ چلانے کے لیے۔”
“بے شک ، یہ بہت اچھا ہے ۔ فرض کریں کہ کوئی بے ایمان شخص ہو تو اس کی سرزنش بڑی آسانی سے کی جاسکتی تھی۔جیسے تم نے یہ فیصلہ کن جیت حاصل کی بغیر خون کا ایک قطرہ بہائے ، اسی طرح تم جرم اور مجرمین کو بھی نکال پھینک دوگے بغیر کسی مشکل کے !”
” اب ، پیاری سلطانہ ، کیا تم یہاں بیٹھوگی یا میرے کمرے میں چلوگی ؟”اس نے مجھ سے پوچھا۔
” تمھارا باورچی خانہ رانی کی خلوت گاہ سے کم تو نہیں ہوگا !” میں نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا ، ” لیکن ابھی اسے چھوڑیں ؛ ورنہ مرد حضرات ہمیں بددعائیں دینے لگ جائیں گے، انھیں ان کے باورچی خانہ کے کاموں سے اتنی دیر تک دور رکھنے پر۔” ہم دونوں ہنسنے لگے۔
” میرے دوست کتنے خوش ہوں گے اور دنگ رہ جائیں گے ، جب میں واپس جاکر انھیں بتاؤں گی کہ بہت دور عورتوں کی دنیا میں ، خواتین ملک پر حکومت کرتی ہیں اور سارے سماجی معاملات بھی وہی سنبھالتی ہیں ، جب کہ مرد حضرات” مردانہ “ میں ہوتے ہیں ، بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، پکاتے ہیں اور تمام گھریلو کام کرتے ہیں ؛ اور پکوان ان کے لیے بڑی آسان سی چیز تھی کہ وہ کھانے پکاتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں!”
” ہاں ، انھیں سب بتانا جو تم نے یہاں دیکھا۔”
“ اچھا بتائیں ، کاشت کاری کیسے کرتی ہیں آپ سب ، زمین پر ہل چلانا اور دوسرے محنتی کام ۔ ”
” ہمارے کھیت بجلی کی مدد سے جوتے جاتے ہیں ، جو دوسرے مشکل کاموں کے لیے محرک طاقت مہیا کرتی ہے ، اور ہم سارے ہوائی نقل و حمل کے کام اسی سے لیتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ریل روڈ اور فٹ پاتھ والی سڑکیں نہیں ہیں۔”
” اسی لیے یہاں پر نہ ہی سڑک حادثے اور نہ ہی ریل حادثے واقع ہوتے ہیں ،” میں نے کہا۔ ” کیا کبھی آپ کو بارش کے پانی کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا ؟” میں نے پوچھا۔
” کبھی نہیں، جب سے ” پانی کے غباروں ” کو ترتیب دیا ہے۔ آپ دیکھ سکتی ہیں بڑا سا غبارہ جس کو نلکیاں جڑی ہیں۔ ان کی مدد سے جس قدر بھی پانی کی ضرورت ہو کھینچ لیتے ہیں۔”
[10]
نہ ہم سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں ، اور نہ ہی طوفان برق و باراں سے۔ ہم سب ہر وقت زیادہ سےزیادہ قدرت کی پیداوار حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ہم کبھی بیکار نہیں بیٹھے ہوتے اس لیے ایک دوسرے سے جھگڑنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ہماری عظیم رانی کو نباتیات سے بہت پیار ہے ؛ اور ان کی یہ تمنا ہے کہ پورے ملک کو ایک بہت بڑے باغ میں تبدیل کردیا جائے۔”
” بہترین خیال ہے۔ آپ کی خاص غذا کیا ہے؟”
“پھل”
” آپ گرمی میں اپنےملک کو ٹھنڈا کیسے رکھتے ہو؟ ہم سمجھتے ہیں کہ گرمی میں بارش کا ہوناخدا کی رحمت ہوتی ہے۔”
” جب گرمی ناقابل برداشت ہوجاے تو ہم مصنوعی فواروں سے زمین پر بہت سارا چھڑکاؤ کردیتے ہیں۔ اور سرد موسم میں شمسی ۔ توانائی سے اپنے کمروں کو گرم رکھتے ہیں۔”
اس نے مجھے اپنا غسل خانہ دکھایا جس کا چھت ہٹایا جاسکتا تھا۔ وہ جب چاہے چھت ہٹا کر ( جو ایک ڈبے کے ڈھکن کی طرح تھا ) فوارے کی نلکی کھول کر غسل سے لطف اندوز ہوسکتی تھی۔
” تم لوگ بہت خوش قسمت ہیں !” میں نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا۔ ” تم زندگی میں کسی کمی سے واقف ہی نہیں ہو۔ تمھارا مذہب کیا ہے ، کیا میں پوچھ سکتی ہوں ؟”
” ہمارے مذہب کی بنیاد محبت اور سچ پر ہے۔ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور بالکل سچے ہوں۔اگر کوئی جھوٹ بولے ، عورت یا مرد……”
“موت کی سزا دی جاتی تھی؟”
“نہیں ، موت کی سزا نہیں۔ ہم خدا کی مخلوق کو جان سے مار کر خوش نہیں ہوتے ، اور خاص طور پر انسان کو۔ جھوٹ بولنے والے سے کہا جاتا ہے کہ وہ یہ ملک چھوڑ دے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔”
” کیا گناہگار کو کبھی معاف نہیں کیا جاتا؟”
” ہاں ، اگر وہ اپنی غلطی پر سنجیدگی سے پشیمان ہو۔”
” کیا تمھیں اپنے رشتہ داروں کے علاوہ کسی اور آدمی سے ملنے کی اجازت نہیں ہے؟”
” کسی سے بھی نہیں ، سوائے محرم رشتوں کے۔”
” ہمارا مقدس رشتوں کا دائرہ بہت محدود ہے ؛ چچازاد یا ماموں زاد بہن بھائی کا رشتہ بھی نامحرم رشتہ (غیرمقدس رشتہ ) ہے۔”
[11]
” بہت خوب۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ پاکیزگی تمھاری اس زمین پر پوری طرح سے چھائی ہوئی ہے۔میں اس عظیم رانی سے ملنا چاہوں گی ، جو اتنی دانشمند اور دوراندیش ہے اور جس نے یہ سارے اصول بنائےہیں۔”
” ٹھیک ہے ،” بہن سارہ نے کہا۔
پھر سسٹر سارہ نے ایک چوکور لکڑی کے تختہ پر دو کرسیاں کیلوں کے ذریعہ لگائیں۔ اس تختہ کو اس نے دو ملائم اور پالش کی ہوئی گیندیں جوڑ دیں۔جب میں نے پوچھا کہ گیندیں کس لیے لگائی ہیں ، تو اس نے جواب دیاکہ وہ ہائیڈروجن گیندیں ہیں جو کشش ثقل کی قوت کو اپنے قابو میں رکھ سکتی ہیں۔ وزن کے مختلف مقدار کو قابو میں کرنے کے لیے ، مختلف صلاحیتوں کی گیندیں استعمال کی جاتی ہیں۔ پھر اس نے اس ہوائی کار کو دو پنکھ جیسے بلیڈ باندھ دیے ، جو اس نے بتایا کہ وہ بجلی سے چلتے تھے۔جب ہم آرام سے بیٹھ گئے ، اس نے ایک کنڈی کو چھوا اور بلیڈس گھومنے لگے ، ہر لمحہ تیز سے تیز تر ہوتے ہوئے۔ ابتدا میں ہم اندازاً چھے یا سات فٹ کی بلندی پر اڑے اور پھر اڑتے ہی چلے گئے۔ اور اس سے پہلے کہ میں سمجھ پاتی کہ ہم نے اڑنا شروع کردیا تھا ، ہم رانی کے باغ میں پہنچ چکے تھے۔
میری دوست ہوائی کار کو نیچے لینے لگی ، مشین کے کنڈوں کو الٹاتے ہوے ، اور جب کار نے زمین کو چھولیا تو مشین بند ہوگئی اور ہم باہر آگئے۔
میں نے ہوائی کار سے دیکھا تھا کہ رانی ، باغ میں اپنی چار سال کی بچی ،اور داسیوں کے ساتھ ٹہل رہی تھی۔
سسٹر سارہ کو دیکھ کر رانی نے چیخ کر کہا ،” ہیلو ! تم یہاں!” عزت مآب رانی صاحبہ سے میرا تعارف کروایا گیا۔اور انھوں نے ، بغیر کسی روایتی رسومات کے ، خلوص دل کے ساتھ میرا استقبال کیا۔
مجھے ان سے ملاقات کر کے بے حد خوشی ہوئی۔دوران گفتگو رانی نے مجھ سے کہا کہ انھیں اپنی عوام کو اس بات کی اجازت دینے میں کوئی اعتراض نہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت کریں۔ ” لیکن ، ” انھوں نے اپنی بات جاری رکھی ، “ان ممالک کے ساتھ کوئی تجارت نہیں کی جاسکتی جہاں عورتوں کو زنانخانہ میں رکھاجائے اور وہ باہر نہ آنے پائیں ہمارے ساتھ تجارت کرنے کے لیے۔ مرد ، ہم نے دیکھا کہ اخلاقی طور پر نچلے درجہ کے ہوتے ہیں ، اور اس لیے ہم ان کے ساتھ معاملات کرنا پسند نہیں کرتے۔ہم دوسروں کی زمین حاصل کرنے کی لالچ نہیں رکھتے ، ہم تو کسی ہیرے کے لیے بھی کبھی نہیں لڑتے چاہے وہ کوہ نور سے ہزار گنا زیادہ روشن ہی کیوں نہ ہو ، اور نہ ہی ہم اس حاکم سے رنجش رکھتے ہیں جس کے پاس تخت طاؤس ہو۔ ہم علم کے سمندر میں غوطہ لگا کر قیمتی پتھر پانے کی کوشش کرتے ہیں ، جو قدرت نے ہمارے لیے محفوظ رکھا ہے۔ ہم قدرت کے تحفوں سے زیادہ سے زیادہ لطف لیتے ہیں۔”
رانی سے رخصت ہو کر ، میں نے مشہور یونیورسٹیوں کا دورہ کیا ، اور وہاں ان کے کارخانے ، لیباریٹریز اور رصدگاہیں دیکھیں۔
میری دلچسپی کی جگہوں کا دورہ کرنے کے بعد ہم پھر ہوائی کار میں بیٹھ گئے ، لیکن جیسے ہی اس نے حرکت کرنا شروع کیا ، پتہ نہیں کیسے میں نیچے گرپڑی اور گرنے پر میں چونک گئی … اپنے خواب سے۔ اور آنکھیں کھولنے پر میں نے خود کو اپنی خواب گاہ میں اسی آرام کرسی پر پایا!
انگریزی میں عنوان :
Sultana’s Dream
مصنفہ کا تعارف:
رقیہ سخاوت حسین (**Rokeya Sakhawat Hossain)**، عام طور پر بیگم رقیہ کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ بیگم رقیہ برطانوی ہندوستان کے دور میں ایک نامور بنگالی مصنفہ ، معلم ، اور سرگرم انقلابی کارکن تھیں۔جنوبی ایشیا میں وہ حقوق نسواں اور آزادی نسواں کی بانی اور علمبردار رہی تھیں۔
“ سلطان کا خواب “ بیگم رقیہ کی انگریزی میں لکھی حقوق نسواں کی تصوراتی مثالی دنیا کو پیش کرتی ایک سائینسی ادب کا مختصر ناول ہے جو ۱۹۰۵ میں “The Indian Ladies Magazine” میں شائع ہوا۔پردے کے خلاف ایک ایسی تصوراتی دنیا جہاں مرد گھروں کے اندر محدود کر دیے جاتے ہیں اور خواتین کا دائرہ کار گھر سے باہر کی دنیا تھی ، جہاں وہ بغیر تشدد کے جنگ کو ختم کر کے دنیا کو ایک صحت مند اور خوبصورت معاشرہ عطا کرتی ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...