روئیے کس کے لیے اور کس کا ماتم کیجیے
گزشتہ مہینوں میں علم و ادب کی دلعزیز اور قابل قدر شخصیات اپنے پیاروں کو داغ مفارقت دے گئیں، یقیناً یہ ایسا دکھ ہے جسے فوری طور پر بھلایا نہیں جاسکتا ہے، زخم بھرتے بھرتے وقت لگتا ہے۔ آج ہم سب ان شخصیات کے ادبی و عملی کاموں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مرکز پر جمع ہوئے ہیں جو دنیائے آب و گل سے کوچ کرگئے ہیں، یہ بات حاضرین کے علم میں ہے کہ آج کا پروگرام ادبی تنظیم مماثلات اسرار اور پریس کلب کے تعاون سے منعقد ہو رہا ہے۔
اس تقریب سے قبل بھی مماثلات اسرار نے تقریب کتب اور تقسیم ایوارڈز کے پروگراموں کا انعقاد کیا ہے اور اس سلسلے کا پہلا ایوارڈ فہیم انصاری کو ان کی ادبی خدمات پر نوازا گیا تھا۔ آج صغیر احمد صدیقی، پروفیسر حسن اکبر کمال، اسرار حسین شاکی اور عابدہ اقبال آزاد کے ادبی کاموں کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ اسرار حسین شاکی جوکہ ممتاز صحافی اور ادیب زیب اذکار حسین کے چھوٹے بھائی تھے، اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں اور اوصاف حمیدہ کے باعث ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، وہ بہت اچھے شاعر اور ادیب تھے، تنقیدی مضامین گاہے بگاہے لکھا کرتے تھے، ان کی تحریریں قاری کو متاثر کیے بنا نہیں رہتی تھیں۔ ان کی شاعری میں یاسیت کا رنگ زیادہ گہرا ہے۔ بقول میرؔ نہ جانے کتنے درد و غم جمع کیے تو یہ دیوان بنا۔
پروفیسر حسن اکبر کمال اور احمد صغیر صدیقی غالباً ایک ماہ میں عارضی زندگی کی رہگزر سے منہ موڑ کر سوئے عدم روانہ ہوئے۔ اسی حوالے سے آتش نے کیا خوب کہا ہے۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے اور کس کا ماتم کیجیے
حسن اکبر کمال سے تقریبات کے مواقعوں پر ملاقات ہوتی تھی لیکن سلام و دعا کی حد تک، البتہ کئی بار فون پر گفتگو رہی، اس کی وجہ ہندوستان سے آنیوالا جریدہ ’’پہچان‘‘ تھا اور ان کے ہی ذریعے میرا ان سے باقاعدہ تعارف اور میری کتابیں ہندوستان میں پہنچیں، چونکہ ’’پہچان‘‘ کی مدیرہ نے مجھ سے یہی کہا تھا کہ آپ اپنی ادبی چیزیں اور کتابیں حسن اکبر کمال کو بھیج دیجیے۔ ان کی رحلت کی خبر اچانک ہی سننے کو ملی، بہت افسوس ہوا کہ ہماری قطار سے ایک شخص اور علم و ادب اور شعر و سخن کے حوالے سے ان کی اہمیت مسلم تھی۔ احمد صغیر صدیقی کو میں کافی عرصے سے جانتی تھی۔ گاہے، بگاہے ان کی تحریریں بھی پڑھنے کو ملتی رہیں۔
’’ادھ کھلی کھڑکیاں‘‘ کے عنوان سے منتخب افسانوں کا ایک مجموعہ بھی انھوں نے مجھے عنایت کیا جس پر میں نے مضمون بھی لکھا تھا۔ ان کے ادبی شہ پاروں کے قارئین بے شمار تھے ۔ جن میں خاکسار کا بھی شمار تھا، طنز و مزاح کی کاٹ، شگفتگی اور سادگی ان کی تحریروں کا خاصا تھا، ان کا ایک افسانہ ’’لفٹ‘‘ اپنی خوبیوں سے مرصع ہے۔ مزاح کا رنگ اس افسانے میں اپنی انفرادیت اور دلکشی کے ساتھ غالب آگیا ہے، مذکورہ افسانہ پڑھ کر ہنسنے پر مجبور نہیں ہوا جاتا بلکہ بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے۔
احمد صغیر کا غزلیات اور نظمیہ شاعری میں بھی بلند مقام ہے۔ ندرت بیان اور سطوت خیال شعر میں ایک تازہ روح پھونک دیتا ہے۔ ان کی غزل سے چند اشعار نذر سامعین:
یہ جو مرا وجود ہے، میرا مکان ہے
کچھ اپنی طرز کا یہ انوکھا مکان ہے
رہتی ہے مجھ میں میری اداسی سکون سے
رہنے کو اس کے پاس اک اچھا مکان ہے
احمد صغیر صدیقی نے ادب کی بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک اچھے مترجم تھے۔ انھوں نے بے شمار غیر ملکی کہانیاں تخلیق کیں۔ ان کی بہت سی کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں۔ وہ زرعی ترقیاتی بینک میں بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ بے حد نیک اور کھرے انسان تھے۔ بعض اوقات ان کا مدمقابل ان کے تنقیدی رویے پر ناراضگی کا اظہار کیا کرتا تھا لیکن ان کی غیر موجودگی میں۔ انھوں نے دو ہزار سے زائد کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا، یہ کہانیاں ڈائجسٹوں میں شایع ہوئیں، نفسیات اور مختلف علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے۔
مرحوم نے بے شمار مضامین لکھے اور یہ مضامین 24 کتابوں کی شکل میں سامنے آئے۔ احمد صغیر صدیقی کے چار شعری مجموعے اشاعت سے گزر چکے ہیں، بعنوان ’’سمندری آنکھیں‘‘، ’’کاسنی گلپوش دریچے‘‘، ’’اطراف‘‘ اور ’’لمحوں کی گنتی‘‘ تنقید کے حوالے سے ’’گوشے اور جالے‘‘شایع ہوچکی ہے۔ اس کتاب میں وہ تحریریں ہیں جو انھوں نے مختلف کتابوں اور موضوعات پر لکھی تھیں۔ 1938ء میں پیدا ہونے والے ممتاز قلمکار کا انتقال امریکا میں ہوا۔
جیساکہ میں نے بالائی سطور میں عرض کیا تھا کہ اسرار حسین شاکی کی شاعری حزن و ملال سے مرصع ہے، یوں لگتا ہے جیسے مرقد سامنے ہو اور جینے کی خواہش انگڑائی لے رہی ہو۔ کچھ دن اور جیا جائے۔ اور کمال کیا جائے۔
پھیل نہ جائے پلکوں تک
دل کا زخم سیا جائے
کچھ تصویر نہیں کہتی… شیشہ توڑ دیا جائے
پھر شیشہ واقعی ٹوٹ گیا، زندگی کا، چاہنے والوں کے دلوں کو کانچ کے ریزے زخمی کر رہے ہیں۔ ایک اور شعر :
گلیاں گرد آلود آوارہ میں اور میرا دکھ
ایک طرح کے روگی ایک سا دھیما پن
عابدہ اقبال آزاد کی چھوٹی بہن، شازیہ تسنیم جوکہ خود بھی صحافی ہیں اپنی مرحومہ بہن کی محبت میں ہر سال برسی کے موقع پر تشریف لاتی ہیں۔ عابدہ اقبال آزاد ایک بہت اچھی صحافی، شاعرہ، افسانہ نگار، کالم نگار اور آرٹسٹ تھیں، (فائن آرٹ) فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والا شخص حساس دل کا مالک ہوتا ہے، عابدہ اقبال نے بھی زمانے کے دکھوں کو اپنے دل میں اتار لیا تھا اور پھر یہی درد ان کی شاعری میں سما گیا ہے۔ چند اشعار نذر حاضرین:
کئی سالوں سے میں نے ایسی بارش نہیں دیکھی
مجھے آج اس بارش میں بھیگ جانے دو
برستی بارشوں کا سواگت پیار سے کرلوں
برستے موتیوں سے اپنا آنچل آج میں بھرلوں
کہو پانی کے قطروں سے مجھے وہ چومتے جائیں
کہو بارش کی بوندوں سے میرے بالوں میں چھپ جائیں
ان کی شاعری میں مظلوم عورتوں کا دکھ پنہاں ہے، معاشرتی جبر کو انھوں نے اپنے اشعار میں ڈھالا ہے، حق مغفرت کرے۔ مرحومین کے حوالے سے یہ کالم اختتام پر تھا کہ خبر ملی، ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار نجم الحسن رضوی طویل بیماری سے لڑتے لڑتے جنگ ہار گئے۔ افسوس صد افسوس اناللہ و انا الیہ راجعون۔ (نوٹ: تقریب میں پڑھا گیا)
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“