برطانوی ناول نگار اور ریاضی دان ایڈون ایبٹ 1884 میں اپنی کتاب فلیٹ لینڈ میں ایک کہانی لکھتے ہیں۔ فلیٹ لینڈ دو ڈائمنشن والی دنیا ہے جہاں پر جیومیٹری کی شکلیں رہتی ہیں۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک چوکور ہے۔ ایک روز اس دنیا میں تین ڈائمنشن والی سپیس لینڈ سے ایک مہمان آتا ہے۔ یہ مہمان ایک سفئیر (کرہ) ہے۔ فلیٹ لینڈ میں رہنے والوں کو اس سفئیر کا صرف وہی حصہ نظر آتا ہے جو ان کے پلین میں موجود ہے جو کہ ایک دائرہ ہے۔ چوکور اس کو دیکھ کر حیران ہے۔ یہ دائرہ بڑا یا چھوٹا کیسے ہو جاتا ہے (یہ سفئیر کے اوپر یا نیچے ہونے کی وجہ سے ہے) یا یہ غائب ہو کر ایک نئی جگہ پر واپس نمودار ہو جاتا ہے (جب سفئیر اس پلین کو چھوڑ کر واپس آتا ہے)۔ سفئیر اس چوکور کو تیسری ڈائمینشن کا تصور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ چوکور اگرچہ جیومیٹری کا ماہر ہے لیکن وہ اس تیسری ڈائمنشن کا تصور نہیں سمجھ پا رہا۔ لمبائی اور چوڑائی تو ٹھیک ہیں لیکن یہ موٹائی کیا شے ہے؟ اور یہ “اوپر” سے آنے کا کیا مطلب ہے؟ اوپر تو شمال ہوتا ہے۔ سفئیر اس کو کئی تشبیہات سے اور جیومٹری سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ایک سے دو ڈائمنشن میں کیسے جایا جاتا ہے اور دو سے تین میں کیسے لیکن چوکور کو یہ “اوپر” کا خیال ہی مضحکہ خیز لگتا ہے۔
تنگ آ کر سفئیر اس چوکور کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اس کو کھینچ کر فلیٹ لینڈ سے باہر تیسری ڈائمنشن میں لے جاتا ہے۔ چوکور اب نیچے اپنی دنیا کو دیکھ سکتا ہے۔ وہ لوگوں کے گھروں کو دیکھ سکتا ہے۔ رہنے والوں کو اندر سے دیکھ سکتا ہے۔ چوکور کہتا ہے،
“ایک ناقابلِ بیان دہشت مجھ پر طاری ہو گئی۔ تاریکی تھی، پھر ایک سر چکرا دینے والا منظر۔ میں نے سپیس دیکھی جو سپیس نہیں تھی۔ میں خود تھا بھی اور نہیں بھی تھا۔ جب میں بولنے کے قابل ہوا تو میں نے چیخ ماری کہ یہ کیا پاگل پن ہے۔ سفئیر کی طرف سے جواب آیا کہ نہیں، یہ نالج ہے، یہ تیسری ڈائمنشن ہے، آنکھ کھولو اور ذرا سکون سے اس کو دیکھنے کی کوشش کرو۔ میں نے دیکھا اور میں ایک نئی دنیا دیکھ رہا تھا۔
چوکور جب واپس فلیٹ لینڈ لوٹتا ہے تو وہ سب کو اس تیسری ڈائمنشن کا بتات ہے لیکن کوئی بھی اسکی بات نہیں سمجھتا۔ تیسری ڈائنمشن بتائی نہیں، محسوس کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفسیات کا لٹریچر عام طور پر چھ بنیادی جذبات کے بارے میں بات کرتا ہے۔ مسرت، اداسی، خوف، غصہ، کراہیت اور حیرانگی۔ لیکن انسان اس سے زیادہ چیزوں کا تجربہ کر سکتا ہے جس میں سے ایک روحانی تجربہ ہے۔ اس کا ایک کمزور احساس تو ہر ایک کو کہیں نہ کہیں ہوتا ہے۔ کچھ خاص مقامات پر جا کر جہاں سے عقیدت کا رشتہ ہو یا پھر کوئی یادیں منسوب ہوں، کوئی شے دیکھ کر جس کا اپنی زندگی کے خاص واقعات سے تعلق ہو، کسی خاص ہستی سے ملاقات کر کے، کوئی دل گرما دینے والا کام ہوتا دیکھ کر۔ ہر ایک کی اپنی ذاتی کائنات میں ایسے تقدیس والے مقامات ہوتے ہیں جو روزمرہ کی زندگی سے کھینچ کر اسے اس تیسری ڈائمنشن کا ذائقہ چکھا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائیٹ کو پہلی بار اس ڈائمنشن کی موجودگی کا احساس اپنے ایشیا کے سفر کے دوران ہوا۔ انہوں نے اس پر لوگوں سے سوال کرنا شروع کئے۔ انہوں نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور طلباء سے اس طرح کے سوال پوچھنا شروع کئے کہ جب کوئی بہت اچھا کام کسی کو کرتے دیکھتے ہیں تو کیا کچھ محسوس ہوتا ہے؟ کیا محسوس ہوتا ہے؟ کہاں پر محسوس ہوتا ہے؟ اس کے بعد کچھ عمل کرنے کا دل کرتا ہے؟ اس پر انہیں کئی طرح کے جواب ملے۔ ایک گرمجوشی والا احساس، ایک روشن کر دینے والئ کیفیت، سینے کی طرف اشارہ کیا، کسی نے کہا کہ اس وقت رقت طاری ہو جاتی ہے، گلا رندھ جاتا ہے، آنکھ سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں یا پھر سردی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ زیادہ تر نے کہا کہ اس احساس کے بعد وہ خود بھی کچھ اچھا کام کرنے کی خواہش کرتے ہیں یا خود میں کچھ مثبت تبدیلی لانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ الگو اور ہائیٹ سات سال سے اس جذبے پر تحقیق کر رہے ہیں۔ شرکاء کو جب ہیروز اور ایثار کے بارے میں دل گرما دینے والی ڈاکومینٹری دکھائی جائے تو اس کا اثر اچھے مزاح والی ڈاکومنٹری سے بالکل مختلف ہے۔ یعنی یہ خوشی نہیں۔ اسی طرح جب کسی اچھی مہارت والی، جیسا کہ کسی کو باسکٹ بال میں غیرمعمولی مہارت دکھانے والی ویڈیو دکھائی جائے تو اس کا اثر بالکل مختلف ہے یعنی یہ دوسرے سے متاثر ہونے والا جذبہ نہیں۔
اخلاقی خوبصورتی والے کاموں کو دیکھ کر ہونے والا ری ایکشن اور اس سے جنم لیتی کیفیت الگ ہی ہے۔ اس میں متاثر ہونے والا ایک نظام سمپیتھیٹک نروس سسٹم ہے اور اس میں ویگس نرو متحرک ہوتی ہے۔ یہ وہ نرو ہے جو دل کی دھڑکن کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ اس کی کیمسٹری میں شناخت ہونے والا ایک ہارمون آکسی ٹوکسن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تیسری ڈائمنشن میں داخلے کا راستہ صرف اچھائی نہیں۔ فطرت کی خوبصورتی اور وسعت بھی اسی طرح روح کو چھیڑتی ہے۔ کانٹ کے مطابق، “روحانیت سر پر تاروں بھرا آسمان اور دل میں اخلاقی قانون کی موجودگی کا احساس ہے”۔ ڈارون بھی جنوبی امریکہ کے سفر میں ایسے ہی روحانی تجربے کا ذکر کرتے ہیں، “میں برازیل کے اس عظیم جنگل میں کھڑا ہوں، اپنی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ یہاں پر اس سب کی عظمت کیسے بیان کروں، یہ میرے ذہن کو کہیں اور ہی لے گئی ہے۔ اس نے میرا یقین پختہ کر دیا ہے ہے کہ انسان اپنے جسم کی سانس سے بڑھ کر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک ہمیں جتنے کلچر ملے ہیں، ان میں سوائے اسکیمو کے، تمام کلچر کوئی نہ کوئی سائیکوایکٹو ڈرگ استعمال کرتے رہے ہیں۔ (اسکیمو اس لئے نہیں کہ برف میں ایسا کوئی پودا نہیں اگتا)۔ ہزاروں سال سے ایسا کرنے کی بڑی وجہ یہ تجربہ حاصل کرنا تھی کہ یہ اس میں مدد کرتا ہے۔ اس کو کامیابی سے والٹر پاہکنے نے 1962 میں کامیابی سے ٹیسٹ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحانیت کے اس عارضی احساس کے علاوہ ایک اور احساس روزمرہ کی زندگی کی گزر بسر میں ہے لیکن اس کا ایک اور طاقتور احساس بھی ہے۔
اس تین ڈائمنش والی سپیس لینڈ پر لکھی گئی ایک بہت ہی عمدہ کتاب “ڈارون کا کیتھیڈرل ہے” جس میں ولسن انسانی کلچرز کی خوبصورت کشیدہ کاری کو دیکھتے ہیں اور بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ ویسا کیوں ہے، جیسا نظر آتا ہے اور یہ سب رنگ کہاں سے آتے ہیں اور تضادات کی کیا وجہ ہے۔ وہ اپنے لئے بدترین اذیت ایسے لوگوں کی محفل میں شرکت کو کہتے ہیں جہاں پر فلیٹ لینڈ کے رہنے والے اور گروپ سلیکشن کے طریقہ کار سے بے خبر “دانشور” مذاہب کی منافقتوں پر بات کی کر رہے ہوں۔ ان کی کتاب اس لحاظ سے منفرد ہے کہ سائنس اور فیکٹس کی مدد سے ولسن اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ سمبلزم کی اس دنیا میں محض سائنس اور فیکٹس کی مدد سے معاشرے اور کلچر قائم نہیں رہ سکتے۔
اس کتاب میں ایک معمہ جو وہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ روحانیت، خواہ جہاں پر بھی اور جس بھی طرح کی ہو، اس میں شخص اور ذات کی نفی کیوں کی جاتی ہے اور اپنے سے کسی بڑی حقیقت سے ملاپ کا ذکر کیوں ہوتا ہے۔ ہندو یا بدھ مراقبہ یا یوگا کر کے سمادھی کی کیفیت پانے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں ذات اور کائنات ایک ہو جاتے ہیں۔ کرسچن اور مسلمان صوفیوں میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے۔ امام غزالی، جنہوں نے شام کے صوفیاء کے ساتھ کئی سال لگائے، لکھتے ہیں، “صوفی کے لئے پہلی شرط دل کو خدا کے سوا ہر شے سے خالی کر دینا ہے۔ اس سے اگلا قدم عاجزی کا ہے، دعا کا ہے اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینے کا ہے۔ اس سے دل کو کشادگی ملے گی۔ یہ صوفی کی زندگی کی ابتدا ہے۔ صوفی ازم کی انتہا خدا کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہو جانا ہے”۔
ولسن کی نظر میں روحانی تجربہ ذات کے لئے “آف” کا بٹن ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ذات کی نفی ہو تو انسان ایک بڑے کل کا حصہ بن سکتا ہے۔ ایک بڑے جسم کا ایک خلیہ۔ ایک بڑے کل کا ایک ناقابلِ ذکر جزو۔ اس سے ہونے والے اثرات عام طور پر لوگوں کا خدا سے رشتہ مضبوط کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس کُل کا حصہ ہونے والے دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور مدد کا جذبہ پیدا ابھرتا ہے۔
نیوروسائنٹسٹ اینڈریو نیوبرگ اس تجربے سے گزرنے والوں کی دماغی کیفیت کی سٹڈی کر چکے ہیں، جب وہ مراقبہ کر رہے ہوں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ یہ “آف” کا سوئچ کہاں پر ہے۔ دماغ کے پچھلی طرف اور اوپر کی سائیڈ پر پارئیٹل لوب ہیں جو کورٹیکس کے دو ٹکڑے ہیں۔ نیورنبرگ ان کو سمت بندی طے کرنے والے حصے کہتے ہیں۔ بائیں طرف والا حصہ ہمیں ذہنی طور پر اپنے جسم کی حد کا احساس دلاتا ہے۔ دائیں طرف والا حصہ جسم سے باہر آس پاس کی جگہ کا نقشہ رکھتا ہے۔یہ دونوں علاقے حسیات سے اِن پُٹ لیتے ہیں اور آس پاس کی جگہ اور اس میں جسم کی موجودگی کا نقشہ ہر وقت رکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب مراقبے میں روحانی کیفیت طاری ہوتی ہے تو یہ حصے اپنی ایکٹیویٹی کم کر دیتے ہیں اور ان تک پہنچنے والے سگنل کم ہو جاتے ہیں۔ بائیں طرف والا حصہ جسم کی باونڈری طے کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے لیکن اسے ملتی نہیں۔ دائیں طرف والا حصہ اس میں اپنی جگہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے، اسے بھی یہ نہیں ملتی۔ اپنی ذات کا گم ہو جانا اور اپنی ذات کا اپنے ارد گرد سپیس میں پھیل جانا اکٹھا ہی ہوتا ہے۔ مراقبہ کرنے والا اس وقت میں اپنے آپ کو کسی بڑی شے میں ضم ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ ذات اور کائنات کے ہم آہنگ ہونے کا احساس ہے۔
نیوبرگ کا خیال ہے کہ اس کیفیت تک پہہنچنے کے لئے وہ رسومات جن کو بار بار دہرایا جائے، مخصوص طریقے سے حرکتیں، آوازیں اور خاص طور پر اس وقت جب یہ کئی لوگوں کے ساتھ مل کر کیا جائے۔ اس سے ریزوننس کے وہ پیٹرن بنتے ہیں جو اس کیفیت تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس کیفیت تک، جس کو تمام عمر فلیٹ لینڈ میں رہنے والے سمجھ نہیں سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیم مک نیل اسی نتیجے تک ایک بالکل مختلف راستے سے پہنچے تھے۔ ان کو امریکی فوج میں بھرتی کیا گیا۔ جب ٹریننگ کے لئے پہنچے تو ٹریننگ ہتھیاروں کی نہیں تھی، پریڈ کرنے کی تھی۔ کہتے ہیں کہ پہلے تو میں پریشان ہوا کہ یہ کیا ہے۔ میں تو عسکری تربیت کے لئے آیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں کی ٹریننگ کے بعد اندازہ ہوا کہ مارچ کرنا شعوری حالت بدل دیتا ہے۔ اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سب کے ساتھ مل کر یکجا ہو کر ایک بڑے پن کا احساس جس میں ہم سب اکٹھے ہیں۔ اصل ٹریننگ تو یہ تھی۔ ہتھیار تو ہر کوئی چلا لیتا ہے۔
مک نیل لکھتے ہیں کہ اکٹھے مل کر کی جانے والی ہم آہنگ ہو کر کی جانے والی حرکات، انہوں نے دنیا کی تاریخ میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ گروپس کو اکٹھا کر دیتی ہے۔ اس سے ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ذات کی نفی ہوتی ہے۔ مک نیل کی کتاب سے اقتباس۔
“میں آہستہ آہستہ ہم میں بدل جاتا ہے۔ میرا، ہمارے میں۔ ایک فرد کی قسمت اہمیت کھو دیتی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والا لافانیت کا جذبہ اپنی جان قربان کر دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتا۔ اپنے گروپ کے لئے یہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ میں گِر جاوٗں گا لیکن مروں کا نہیں کیونکہ میں اپنے ساتھیوں کے اندر زندہ رہوں گا”۔
اپنی ذات سب سے بڑی نہیں، اس سے بڑا بھی کچھ ہے۔ لوگوں کو زندگی میں مقصد کا احساس دینا جس کے لئے وہ اپنی جان سے بڑھ کر ہو۔۔۔ اس جذبے کے بغیر نہ تہذیب ہوتی اور نہ تاریخ۔ خواہ ایک کا عظیم مقصد دوسرے کے لئے عظیم برائی ہی کیوں نہ ہو۔
اس پر کتاب