یہ تعارف ایک ایسی روحانی شخصیت کا ہے جو بچپن سے ہی ایک نادیدہ قوت کے عشق میں محصور رہیں اسی کی تلاش انہیں ہر طور رہی رات بھر عبادات سے اس کی خوشنودی کےحصول میں کوشاں رہیں کیونکہ حقیقت سے آگاہی نے انہیں بے چین کیئے رکھا تھا ۔ بچپن سے ہی اس کی نادیدہ ذات سے عشق کسی موجود حقیقت کی طرح روبرو لگنے لگا اور اس کی پہچان و قربت، مذہب کی راہ سے ہی پانے کی طریقت نے مذہب کے راستے کو ہی ان کی ترجیحات قرار دے دیا۔ اور ساتھ ساتھ اس کی خوبصورت کائنات کو جاننے اور لطف اندوز ہونےکی لگن و ترجیح بھی ترجیحاتء اولین میں قرار پائی۔ طہارت و پاکیزگی جنون کی حد تک مقدم تھی۔ ذکر وقصائد اور پھر تعلیم وحقیقتء مذہب کی طلب سے مذہب کے مطالعہ اور تقاریر نے علوم کی بہرہ وری اور ادراکء خالقء کل عطا کیا اور اس ذات اقدس نے اپنے وجود کی روشنی سے ذہن و قلب کو منور فرما دیا ۔ خالقء ہست و بود نے خلقتوں کے مقاصد و وجوہ کے غیبی ادراک سے آراستہ فرما دیا اور پھر اسے لکھ کر کائنات میں پھیلانے اور اپنی آواز میں خاص و عام تک پہنچانےکی ذمہ داری سونپ دی تاکہ توفیق ربانی سے کچھ ملین عاشقانءحق و طلب گارانء حقیقت بیداری حاصل کر سکیں اور نجات پا جائیں۔ لہذا ان کی شاعری ان کے سفرء حقیقت اور عشقء حقیقی کی وارفتگی اور اس میں پوشیدہ پیغام الہی کے مشن کا نتیجہ ہے جسے پڑھ کر کئی نصیبوں کے دھنی اور معرفت کے جہان کے راہی اپنی منزل کی آگہی سے مستفیض ہو سکیں گےاور عام قفسء وجود کے قیدی اس شاعری کو سمجھنے سے قطا" بے خبر ہی رہیں گے اور شناسائی کے مضطرب و متمنی وجودء شناختء کنز خفی پا سکیں گے۔ جیسے کہ شوہر اور بچوں کی جدائی کے بعد تڑپتے ہوئے سجدہ سے سر اٹھانے پر روبرو لگی شیشے کی "یاحیی و یا قیوم" کی پینٹنگ ان سے مسکراتے ہوئے جانے کیا کہنا چاہ رہی تھی، کہ وہ تڑپ کر اس تصویر کو جو کہ اسم محبوب تھی، اس سے ہم کلام ہوئیں کہ
پتھر کا تو اک بت اور میں اک جان مسلماں۔
پوجوں گی تجھے یوں ہی تو ہو جاوں گی کافر
کچھ بول میرے ساتھ کہ یزداں تجھے مانوں
توحئ و یا قیوم ہے یہ کیسے میں جانوں
وہ بولا نہ ضد کر کہ
میں ہوں عشق دبستہ
اور جان میں تیری بھی تو ہوں میں ہی پیوستہ
خود کو جو تو چاہے گی تو چاہ لے گی مجھے ہی
خود کو جو تو پا لے گی تو پا لے گی مجھے ہی
یہ بات جو سوجھی تو پھڑک اٹھی رباب
اک جھٹکے سے تب اس کے کھلے سارے حجاب
ڈاکٹر طاہرہ رباب صاحبہ کی شاعری خدا، کتاب خدا، کائنات خدا کی تشریحات کو خود میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اشعار اس جمیلء حقیقی کے گرد طواف کرتے ہیں جو خود حسین ہے اورحسن و جمال کو پسند فرماتا ہے خود کہتا ہے کہ(اللہ جمیل و حب الجمال) اور انہیں خود بھی ان حسین موجودات سے اسی طرح ہی عشق ہے جو ان کے محبوب کی خود اپنی پسند ہے۔ خوبصورت بننا، خوبصورت رہنا خوبصورت دکھنا خوبصورت سوچنا خوبصورت و خوبصورتی کو سمجھنا، خوبصورت بولنا یعنی گفتگو کرنا جو جھوٹ ولغویات و غلاظت سے پاک ہو، پاکیزہ اعمال سے منسلک رہ کر اپنے خالق جوجمیلء حقیقی ہے اس سے منسوب رہنا، قرب پائے ہوئے رہنا، بس یہی ان کا مدعاءحیات ہے۔ وہ حسین اور خوشبودار زندگی کو عشق کرتی ہیں کیونکہ وہ اسے پاکر وصال ذات پا لیتی ہیں اور پھر میٹھے درد وصال کی لذت سے سرشار ہوکر خوب روتی ہیں اور خوشحال ہو جاتی ہیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ
میں بچپن میں دعائیں کرتی رہتی تھی کہ اے اللہ مجھے وقت کا ولی و قلندر بنا دے مگر مٹی میں لتھڑا ہوا اور بدبو دار نہیں بلکہ سلک میں لپٹا اور خوشبووں میں مہکتا ہوا اور بس یہی اس نے مجھے دے دیا
ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ ذات ونفس کی پاکیزگی روح کی قوتء بالیدہ کی وسعت و استحکام کا سبب ہوا کرتی ہے۔ لہذا سوچ و فکر اور پاکیزگیء اعمال دوسروں کی عزت نفس کی تکریم آپ کی وہ طہارت کہلاتی ہے جس سے آپ اپنے قلب میں پوشیدہ کتاب مکنون کو پڑھ سکنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر علومء بیکراں بحر بیکراں کی مانند آپ کی ذات سےپھوٹنے، ابھرنے اور بکھرنے لگتے ہیں اور یہی ان کی شاعری کا مطلب و مقصد ہے جو خود میں آیات قرآنی کی تفسیر اور روشن پیغام چھپائے ہوئے ہے۔ وہ اپنی ذات سے اس کے وجود کی موجودگی کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتی ہیں ۔
یہ بجلیوں کا سراپا سہائے بیٹھے ہیں
تیرا وجود جو خود میں سمائے بیٹھے ہیں
تو بے خبر تو نہ تھا اپنے ہی کمالوں سے
تو کیوں یہ حیرت کن ہم اٹھائے بیٹھے ہیں
یا پھر
کون کہتا ہے کہ میں خاک کی اک پتلی ہوں
میں نفقت من روحی کو بھی لے نگلی ہوں
ارتقائی کو سجائی ہے میری بزم حیات
میں بھی تسخیر دو عالم کے لیئے نکلی ہوں۔
قصئہ عشق سے مجھکو نہ ڈرانا جاناں
میں تو معراج کے منظر کی حسین بجلی ہوں
مجھ کو آغاز سے انجام کا ادراک ملا
تبھی قوسین کے جلووں سے بہت پگھلی ہوں
کس کو اب ڈر ہے زمانے کے بگڑنے کا رباب
میں تو تشہیر قرابت کے لیئے مچلی ہوں
معرفت اور تصوف کی راہ کی یہ مسافر 18 اگست 1951 کو پاکستان کے شہر رسالپور میں پیدا ہوئیں جبکہ ان کے فوجی والدکا تبادلہ اس وقت رسالپور کی چھاونی میں تھا ان کا نام طاہرہ رباب رکھا گیا ان کے والد صاحب کا نام غلام محمد جعفری اور والدہ محترمہ کا نام عنایت بیگم ہے ۔ یہ اپنے والدین کی اولاد میں سے 9 بہن بھائی تھے ۔ جن میں سے ایک بھائی جو دوسرے نمبر پر تھے اور ایک بہن جو سب سے چھوٹی تھیں ان دونوں کا انتقال ہو چکا ہے ۔ ابھی یہ چار بھائی اور تین بہنیں موجود ہیں ۔
طاہرہ رباب صاحبہ اپنے والد کی اولاد میں سے تیسرے نمبر پر پہلی لاڈلی بیٹی ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر گریجویشن تک لاہور پاکستان میں ہی علم حاصل کیا ۔ 1970 میں والدین کی مرضی سے 18 سال کی عمر میں ان کی شادی گرافک ڈیزائنر محمد الیاس صاحب سے ہوئی جس کے بعد وہ اپنے شوہر کے نام کی نسبت سے اپنا نام طاہرہ رباب الیاس کہلانے لگیں ۔ 1976 میں شوہر کےاپنی تمنائے وسعتء تعلیم بطور ڈیزائنر آنے مگر وسائل کی کمی کے تحت تلاش معاش کے سلسلے میں اپنے شوہر محترم کے ہمراہ جرمنی منتقل ہو گئیں جو کہ 44 سال سے وہیں پر مقیم ہیں ۔ اس دوران انہوں نے ابو ظہبی کے ممتاز علمائے دین سید ذیشان حیدر جوادی محقق اور مفسر ابو ظہبی یونیورسٹی اور سید فیروز حیدر عابدی صاحب کے ہاتھوں ڈاکٹریئٹ اور روحانیت کی سند وصول پائی جبکہ ابھی بھی وہ مزید ڈگری کی تگ و دو میں آن لائن مصروف کار ہیں ۔
ڈاکٹر طاہرہ رباب صاحبہ بچپن سے ہی تقریبا" 7 سال کی عمر میں لاشعوری طور پر عشق الہی اور شاعری کی طرف راغب ہو گئیں ۔ چوں کہ وہ روحانیت کے درجے پر فائز ہیں ان کی بہت سی باتیں ہم جیسے عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں ۔ شاعری میں استاد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ شاعری میں خود خدا تعالی ان کے استاد ہیں اور عشق میں خدا تعالی ان کے محبوب ہیں۔ کیونکہ اصل روحانیت کے لیئے آپ کو دنیا کے استاد نہیں ذات سے ذات کا رابطہ ہی علوم حقیقی سے بہرہ وری دیتا ہے اور تب دنیا کے تعلیم یافتہ لاجواب ہو کر ماننے پہ مجبور نظر آتے ہیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپ کبھی کسی فرستادہء الہی یا عارف و عاشقء حقیقی کو کسی استاد سے سیکھتے اور کسی مدرسے میں بیٹھے نہیں دیکھیں گے، بلکہ وہ آپ کو الہی اسرار و رموز سے بہرہ وری دیتے دکھائی دیں گے قطع نظر اس کے کہ کوئی انہیں فی الوقت مان رہا ہے یا نہیں۔ یوں بےخبر انہیں رد کرتے اور صاحبان معرفت انہیں تسلیم کرتے دکھائی دیں گے۔
ڈاکٹر صاحبہ کو اللہ تبارک و تعالی نے 2 خوب صورت بیٹوں رضا الیاس اور ذیشان الیاس کی نعمتوں سے نوازا ہے ۔ طاہرہ رباب صاحبہ اردو، پنجابی، ہندی، انگریزی اور جرمن سمیت 5 زبانیں بولتی ہیں ۔ جرمنی میں وہ جرمن گورنمنٹ کی سرکاری ترجمان برائے کریمنل پولیس اور جرمن انٹر پول کے عہدے پر بھی فائز ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ کی اب تک 5 کتابیں شایع ہو چکی ہیں جن میں 2004 سے 2019 تک کے درمیان میں ان کی شاعری کی 4 کتابیں شایع ہوئی ہیں ان میں شاعری کی پہلی کتاب "رب سے رباب لمحہ بہ لمحہ " اور اس کی دوسری جلد بھی شایع ہوئی جبکہ تیسری "از مکاں تا لامکاں" اور چوتھا شعری مجموعہ " رزم گاہء شعور " ہے ۔ 2019 میں ان کی نثری کتاب " سر کتاب و فکر رباب " علیگڑھ بھارت سے شایع ہوئی جو کہ ان کے ایک عقیدت مند پروفیسر ڈاکٹر رضا عباس نے اپنے خرچے سے ان کے لیئےشایع کرائی جس کو پروفیسر ڈاکٹر رضا عباس صاحب اپنے لیئے اعزاز سمجھتے ہیں جبکہ خود طاہرہ رباب صاحبہ کےلئے بھی یہ ایک اعزاز کی بات ہے ۔ ڈاکٹر طاہرہ رباب صاحبہ کی مزید 2 کتابیں زیر طبع ہیں جن میں ایک شعری مجموعہ " کلید حجاب " اور ایک نثری کتاب "تلازم کونین و وجدان رباب " ہے ۔ نثری کتابیں دراصل قرآن اور متمدن دنیا کی تشریحات کا احاطہ کیئے ہوئے ہیں کہ قرآن کیسےکائنات کی سب سے بہترین گائیڈ بک (رہنمائے کتاب ) ہے اور آج اس کی ہدایت پر کیسے چلاجائے جس سے خود سائنس بھی راہ نمائی لےکر زندگی کی حقیقتوں کو جان کر شہادتیں دیتی نظر آتی ہے۔ کیونکہ اس میں چھپے لاجک کو آج کی تحقیق ماننے پر مجبور پے ۔
شاید راہ حق کے مسافروں کےلئے آزمائشیں اور امتحانات بھی مستقل طور پر ہوتے رہتے ہیں، لہذا 2002 میں ڈاکٹر صاحبہ کے رفیق حیات جناب محمد الیاس صاحب کا انتقال ہو گیا یہ ان کی ازدواجی زندگی کا بہت بڑا سانحہ تھا کہ اس سے کچھ ہی عرصہ بعد ان کے بڑے بیٹے اپنی اہلیہ کے ہمراہ امریکہ منتقل ہو گئے اور چھوٹے بیٹے کام کی غرض سے دبئی چلے گئے ۔ اولاد تو ویسے ہی والدین اور خاص طور پر ماں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہیں مگر ڈاکٹر صاحبہ کو اپنے بڑے فرزند سے بے پناہ محبت ہے اس لیئے ان کو ان کی جدائی سے بہت بڑا دلی صدمہ ہوا لیکن جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے عزیز ترین فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کی محبت میں رو رو کر بینائی کھونے کے باوجود اللہ تبارک و تعالی کی محبت کو اپنے فرزند کی محبت پر مقدم رکھا اسی طرح ڈاکٹر طاہرہ رباب صاحبہ نے بھی اپنے فرزند کی محبت پر عشق الہی کو مقدم رکھا لیکن اپنے فرزند کی جدائی میں ڈاکٹر صاحبہ ابھی بھی تنہائی میں گریہ و زاری کرتی رہتی ہیں۔ جبکہ ان کے چھوٹے بیٹے نے انہیں اس درد سے نکالنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اپنی ماں کا سایہء راحت و تسکین بننے کی تگ و دو میں دل و جان سے مصروف عمل رہتے ہیں اور اکثر نم آنکھوں سے کہتے ہیں کہ میں خود پر مغرور ہوتا ہوں کہ میں ایسی منفرد ماں کا بیٹا ہوں جو مادی جھگڑوں، تنازعوں اورالجھنوں سے بے نیاز معرفت و روحانیت کے جہاں میں مست رہتی ہیں اور کسی کو بھی اس کی بدسلوکی پہ سرزنش نہیں کرتیں ۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحبہ عشق الہی اور دینی کار الہی میں شب و روز مصروف عمل ہیں اور ہزاروں عقیدت مند ان سے روحانیت کے علم کے حصول اور رشد و ہدایت پانے کی خاطر رابطے میں رہتے ہیں جن میں مسلم اور غیر مسلم سبھی شامل ہیں اور ان کے علم سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے 1976 میں جرمنی آتے ہی مذہب اور عزاداری کے پروگراموں کی بنیاد رکھی جسے بعد میں اپنے گھر میں باقاعدہ مخصوص ہال تعمیر کر کے رواں دواں رکھا اور پھر جب 1984 میں ان کے والدین ان کی ویزہ کے حصول کی کاوشوں سے جرمنی تشریف لاچکےتھے تو تقریبا" 33 برس قبل انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے دینی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی غرض سے ایک مذہبی انجمن اس عمل صالح کے لیئے تشکیل دےدی جس میں وہ 1976 سے مصروف تھیں اوراس کے سلسلے کو باقاعدہ رجسٹرڈ بھی کروا لیا گیا اور حاسدین کی ہزارہا مخالفت کے باوجود آج تک اپنے خرچے (انتہائی محدود بیرونی مدد) پر اس تنظیم کو بھی توفیق الہی کے باعث ثابت قدمی سے چلا رہی ہیں ۔
وہ آج بھی کئی ایسے ہی لوگوں کی آنکھوں میں چبھنے والے کانٹے کی طرح ان لوگوں کے دئیے جانے والے درد کو سہہ کر انہیں دعائیں ہی دیتی رہتی ہیں، اور اپنے جہانء معرفت و آگاہی میں مسرور رواں رہتی ہیں۔ اور کہتی ہیں کہ
تم یہ سمجھے کہ میں ٹوٹی تو بکھر جاوں گی
میں ہواوں کے بھلا ہاتھ کہاں آوں گی
ڈاکٹر طاہرہ صاحبہ کی شاعری میں محبت کی فراوانی بھی ہے تو اضطراب اور ہجر و فراق کی کیفیت بھی نمایاں ہے ۔ دل مضطرب بھی ہے اور شاداں و فرحاں بھی ۔ یہی وہ قلبی کیفیت ہے جس میں ہجر و فراق بھی ہے تو وصال اور پیا ملن کی آس اور امید بھی ہے ۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے سرشاری کا ایک عجیب سا احساس جنم لیتا ہے جس میں حیرتیں اور حسرتیں بھی ہیں ڈاکٹر صاحب کی خوب صورت شاعری سے قارئین کے لئے خوب صورت تحفہ بہ طور نمونہ پیش خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتوں کی کہیں بھی کمی نہیں ہوتی
جنون عشق کی وارفتگی نہیں ہوتی
میں ڈھونڈتی ہوں سرابوں میں لذت تریاق
سمندروں میں بھی اب تو نمی نہیں ہوتی
وصال یار کے جلووں کا ارتباط ہے جو
نماز عشق قضا اب مری نہیں ہوتی
وہ جن کے نام کا ڈنکا جہاں بجاتا ہے
انہی کے راگ میں کچھ نغمگی نہیں ہوتی
رباب ترا جنوں تجھ کو مار ڈالے گا
خرد کے شہر میں دیوانگی نہیں ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں مثل تیری ہوں اور تو کمال ظاہر ہے
نہ کیوں وجود پہ میرے تو بھی غرور کرے
تو مجھ میں چھپ کے سدا یوں مجھے رلاتا ہے
بتا کبھی تجھے مجھ پہ بھی پیار آتا ہے
میں تجھ کو پا نہ سکوں پر تجھے کروں محسوس
بتا کسی کو کبھی یوں قرار آتا ہے
وہ بھی دل میں رباب ہیں آباد
جو رہے ہم کو در بدر کرتے
مجھ سے مت پوچھ تو شدت شب تنہائی کی
خود کو آنکھوں سے تمہاری میں بہا لاوں گی
دست قاتل سے مرا اپنا ہی خنجر نکلا
قصہ درد سنانے میں کہاں جاؤں گی
کمال حد مکاں سے ہے میں نے پایا تجھے
رباب کو نہ کیوں اب بے نیاز طور کرے
چلی میں تلاش مکان میں لیئے زاد راہ میں عشق کو
کہ جنون شوق وصال میں ترے لامکاں میں اتر گئی
ڈاکٹر طاہرہ رباب الیاس