ذیل میں دیے گئے ویب سائٹ کے لنک پر موجود معلومات بلکہ اس ویب سائٹ پر موجود اوریا مقبول جان اور زید حامد ٹائپ کی گھلمل یقین پیشن گوئیوں کے حوالے سے ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر کسی گاڑی کے بارے میں کوئی میکینک یہ کہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ چار سال اور چل جائے گی تو اسے غیب دان اور روحانی کیوں نہیں کہا جاتا؟ حالانکہ ایسے تجربہ کار ماہرین اور لوگوں کی پیشن گوئیاں اکثر پوری ہوتی رہتی ہیں جبکہ ان باباؤں کی احمقانہ باتوں کے پورے ہونے کا لوگ صدیوں سے انتظار ہی کررہے ہیں اور انشاء اللہ قرن ہا قرن انتظار کرتے ہی رہیں گے……!
ہم یہ سب خرافات برسوں سے دیکھ رہے ہیں …….. ہمارے خیال میں اس طرح کی سوچ رکھنے والے افراد اس سٹے باز کی ذہنی سطح پر ہوتے ہیں جو کسی خبط الحواس دیوانے کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہتا ہے اور جب اس پاگل کی زبان سے کوئی احمقانہ سا جملہ ادا ہوتا ہے تو یہ ازخود اس جملے سے آج کا سٹے کا نمبر اخذ کرلیتا ہے…………. سو میں سے ایک مرتبہ سٹے کا کوئی نمبر لگ جائے تو وہ پاگل آدمی بابا بن جاتا ہے اور اس کے پاس تواہم پرستوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے…..!
موضوع کے اعتبار سے یہاں ہم اپنی کتاب ’’ظلمتِ شب‘‘ سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہیں گے:
’’جین ڈکسن کی ایک مشہورمعروف پیشین گوئی یہ تھی کہ 5 فروری1962ء کو ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو دنیا میں انقلاب کا باعث بنے گا اور بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ساری دنیا کو ایک واحد عقیدے پر متحد کردے گا۔ اس بچے کے ذریعہ ایک نیا مذہب عالمِ وجود میں آئے گا، جو خدا تعالیٰ کی دانائی اورحکمت کاسبق دے گا اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس پرایمان لے آئے گی۔ دنیا کو اس عظیم شخصیت کی روحانی قوت کا احساس 1980ء تک ہوسکے گا۔ اس کے بعد آنے والے دس سالوں میں دنیا کی حالت بدل جائے گی، 1999ء تک وہ بہت زیادہ طاقتورہوجائے گا اوردنیا بھر کے لوگ اس کی صداقت سے آگاہ ہو جائیں گے۔
جین ڈکسن کا کہنا تھا کہ جس امن کی دنیا کو تلاش ہے، وہ 1999ء تک قائم ہوسکے گا۔ اس وقت لوگوں میں ایک خاص طرز کا روحانی انقلاب برپا ہوچکا ہوگا۔ امریکا کوچین سے لڑنا پڑے گا، روس اورچین کی جھڑپیں شدید نہ ہوں گی مگر امریکا اپنی عیش وعشرت کی فراوانی کی وجہ سے برباد ہوجائے گا اور جنگ میں لوگوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوجائے گی۔ آخرکار ایک مقدس شعلہ نمودار ہوگا جو دنیا کے لیے پیغامِ رحمت بنے گا اور دنیا کے لیے مکمل امن کا سبب بن جائے گا۔
جین ڈکسن نے کہا تھا کہ 1980ء کے بعد کا زمانہ بے انتہا ہنگامہ خیز نظر آتا ہے، مگر اس روحانی شخصیت کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ 1999ء میں وہ تمام روئے زمین پر امن قائم کردے گا اور عالمگیر حکومت کا سربراہ بن جائے گا۔
یہاں پہنچ کر آپ کو کچھ یاد آیا ….؟ اگر آپ کی یادداشت کمزور نہیں ہے تو پھر یقیناً آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے ملک میں بعض افراد نے ایف بی آئی کی ایجنٹ جین ڈکسن کی اس پیش گوئی کو اپنے الفاظ میں دوہرا کر، خود کو اس کا پیش گو قرار دیتے ہوئے کس قدر شہرت حاصل کی تھی اور لاکھوں یا ہزاروں افراد کو اپنے اردگر جمع کرلیا تھا۔ مکڑی کے جالوں کی مانند کمزور اُمیدوں کے جال میں اپنا گھر بنانے والے بے عمل لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُن نام نہاد روحانی بزرگوں کی عقیدت مند بن گئی تھی۔ کئی ایک نے تو ڈھکے چھپے لفظوں میں اور کئی نے ببانگِ دہل خود کو 1962ء میں پیدا ہونے والا وہی بچہ قرار دے ڈالا تھا، جس نے مذاہب عالم میں انقلاب برپا کرنا تھا اور اُس کے بعد دنیا ایسے دور میں داخل ہونے والی تھی، جہاں امن و سکون انسانوں کا منتظر تھا۔
مذکورہ پیش گوئی کے حساب سے تو آج اس بچے کی عمر 54 برس ہونی چاہیے، جبکہ روحانی انقلاب کے لیے دیے گئے وقت کو بھی اب چودہ سال کا عرصہ گزرچکا ہے، لیکن نہ تو کسی عظیم شخصیت کی روحانی قوت نے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی تعلیمات سامنے آسکی ہیں جو مذاہب عالم میں انقلاب برپا کرسکیں۔ ہاں البتہ دنیا بھر میں ایک طرف اسلام کا نام دہشت گردی کے ساتھ جُڑ گیا ہے، اور دوسری جانب سائنسی میدان میں ترقی اس مرحلےمیں داخل ہوچکی ہے کہ اب انسانی اعضاء تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے تخلیق کیے جارہے ہیں۔
ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ انکشاف کہ جین ڈکسن ایف بی آئی کی ایجنٹ کے طور پر کام کرتی تھی، بہت ہی زیادہ چونکا دینے والا ثابت ہو، شاید بہت سے افراد کو اس پر یقین بھی نہ آئے، لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا بھی شاید اتنا آسان نہ ہو کہ دنیا بھر میں اور خاص طور پر مسلم ممالک میں عالمی اداروں کے خفیہ تنخواہ دار اور وظیفہ خوار مختلف معتبر و مقدس صورتوں میں اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ بعض سے تو ایسے ہیں، جو شاید بلامعاوضہ ہی اپنی ساری جدوجہد کا ثمر عالمی طاقتوں کو بہم پہنچا تے ہیں اور بزعم خود یہ خیال کیے بیٹھے ہیں کہ وہ عالم اسلام کی عظیم۔الشان خدمت فرما رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر دانشوروں کا خیال ہے کہ عالمی خفیہ اداروں کے تنخواہ داروں کے فرائض کا بنیادی ہدف مسلمان معاشروں میں تفرقہ و انتشار کو ہوا دینا اور جذباتی نعروں کے سحر میں گم کرکے خوش آئند مستقبل کے خوابِ غفلت میں مبتلا کردینا ہے۔ ایک حد تک تو یہ درست ہے، لیکن ہم یہاں یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ کیا مسلمانوں کی اکثریت گزشتہ ہزار سالوں سے اسی قسم کی شخصیات کے سحر کے زیرِ اثر نہیں چلی آرہی ہے….؟
ٍ آج ایسی شخصیات عالمی طاقتوں کے مفادات پورے کر رہی ہیں تو صدیوں پہلے ایسے لوگ مطلق العنان حکمرانوں کے ظلم و جبر پر پردے ڈالنے، ملوکیت کو تحفظ دینے اور عام مسلمانوں کو ذہنی پستی کے عمیق غار میں دھکیلنے کے لیے فقہی حیلے تراشا کرتے تھے، فروعی معاملات کا ہَوّا کھڑا کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کی اکثریت اپنی جہالت کے سبب دین و مذہب کے نام پر اپنی جانیں قربان کرتی جاتی تھی۔ آج بھی مسلمان معاشروں میں لوگوں کی اکثریت ایسی ہی شخصیات کے زیرِ اثر ہے۔
‘‘
(اقتباس کتاب: ظلمتِ شب۔ از جمیل خان۔ باب مسیحا کا انتظار، صفحہ 238 تا 239)
https://m.facebook.com/jamil.khan99/posts/1174179849267893