مجھے بار بار ملک سے باہر بتائے گئے پچیس برس کا ذکر کرنا پڑتا ہے جس دوران پاکستان میں کم از کم دو نئی نسلیں مد مقابل آن کھڑی ہوئیں یا آگے نکل گئیں چاہے کسی بھی حوالے سے۔ پیشہ ورانہ میدان میں یا علم و ادب سے وابستگی اور پرداخت میں۔ وہ تو بھلا ہو ایرینا میکسیمینکو کی کوششوں کا جنہوں نے پاکستان میں ریڈیو صدائے روس ( مرحوم ) کے سامعین کی پہلی کالفرنس کا اہتمام کیا چونکہ روس کا ثقافتی مرکز کراچی میں تھا اس لیے کانفرنس کے لیے اس شہر کو چنا گیا تھا۔
اتفاق سے 2010 کی اردو کانفرنس بھی انہی دنوں میں تھی۔ میں اور ایرینا صاحبہ پی سی میں قیام پذیر تھے کہ شام کو راحت بھائی احمد شاہ کے ہمراہ لابی میں تشریف لائے ، ہم دونوں سے ملاقات کی۔ مقالے ہمارے ذمے لگائے اور ہمیں بطور بین الاقوامی مندوبین کے کانفرنس میں شامل ہونے کا پیغام دے کر یہ جا وہ جا۔
اس ہی کانفرنس میں ڈاکٹر امجد طفیل سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ چند روز پہلے میں سانجھ پبلیکیشنز میں امجد سلیم منہاس کے ساتھ بیٹھا اس کے خیالات سے مستفید ہورہا تھا کہ ایک صاحب تشریف لائے۔ امجد سلیم نے بتایا کہ یہ امجد طفیل ہیں اور انہیں بتایا کہ یہ ڈاکٹر مجاہد مرزا ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے ان کا نام سن رکھا ہے اور انہوں نے یاد کیا کہ ان کی مجھ سے ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے کراچی کانفرنس میں ہوئی ملاقات یاد آ گئی یعنی چھ سال کے عرصے میں ایک دوسرے کو پھر سے یاد کیا جا سکتا ہے مگر دس گیارہ سال بعد کم از کم نام یاد نہیں رہتا، شکل چاہے یاد رہ جائے۔
ڈاکٹر امجد طفیل نے حلقہ ارباب ذوق کی ایک روزہ کانفرنس میں آنے کو کہا اور میں نے حامی بھر لی۔ جمعہ 9دسمبر کو دیرینہ دوست تنویر اقبال کے بیٹے کی دلہن کی رخصتی تھی پھر تنویر اقبال واحد دوست ہے جو جب سے میں پاکستان پہنچا ہوں مجھے ملنے کو بلاتا رہا ہے۔ بابر تنویر کی اس خوشی میں شریک ہوا۔ اگلے روز ولیمہ تھا۔ دن میں میں نے ڈاکٹر افتخار بخاری کو فون کیا جو دو تین ہفتوں سے ملنے کو کہہ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر قاسم بوگھیو صاحب آئے ہوئے ہیں۔ شام کو آپ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں۔ مجھے ولیمہ میں جانا تھا چنانچہ انکار کر دیا مگر بعد میں سوچا کہ بوگھیو صاحب سے ملاقات تو کرنی چاہیے۔ تنویر اقبال کو فون کیا۔ کسلمندی کا اظہار کرتے ہوئے ولیمہ میں شمولیت سے معذرت کی۔
ایک گلی میں قیام ہے جہاں کی لوکیشن ریڈیو ٹیکسی کو دی نہیں جا سکتی۔ شاید ان کی نیویگیشن میں نہیں یہ گلی۔ سوٹ میں ملبوس گلی میں مارومار کرتا باہر نکلا کیونکہ کوئی رکشہ لارنس گارڈن جانے کو تیار نہیں تھا۔ دو ایک نے تو انگریزی نام سن کر پھر سے پوچھا کہ کہاں جی۔ آخر کار ایک رکشے والا مانا اور پوری کینٹ کی سڑکوں پر لگی " کیٹ بلکہ ڈائنوسار آئیز" پر سے اچھالتا ہوا لارنس گارڈن کے مال روڈ والے گیٹ پر لے گیا۔ لگتا تھا جیسے ہر عضلہ اپنے طور پر تھرتھرا کر دکھی ہو چکا ہے۔ خیر کاسموپولیٹن کلب پہنچا تو ڈاکٹر بخاری صاحب کہیں نکلے ہوئے تھے۔ ان کے انتظار میں افضل ملک صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ ان کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا دکھ تھا۔ وہ اپنی سنانے کے علاوہ دوسرے کی سن کر بھی ان سنی کر رہے تھے۔ خیر شخصیت خوب ہیں۔ کہیں ڈیڑھ گھنٹے بعد بخاری صاحب نے کلب کی لائبریری سے ملک صاحب کو فون کیا۔ ان کے پاس پہنچے۔ چند منٹ بعد مجھے ایک فون آگیا۔ اس دوران کچھ مزید لوگ آ گئے۔ میں نے بوگھیو صاحب کو دیکھ کر فون بند کیا۔ نزدیک پہنچا تو پہلے ڈاکٹر آصف اسلم فرخی کو دیکھا۔ تحریر و تصویر سے شناسائی کے علاوہ انہیں بھی کراچی کانفرنس میں دیکھ چکا تھا۔ ہم دونوں تپاک سے گلے لگے تو ڈاکٹر امجد طفیل ٹوپی اتار کر نمودار ہوتے ہوئے بازو پھیلا کر بولے " یعنی زمین گول ہے"۔ ان سے معانقے کے بعد ایک اور صاحب سے خشوع و خضوع کے ساتھ ملا۔ نام لگتا تھا کہ حمید ہوگا۔ آخر میں بوگھیو صاحب سے ملا۔ ہمارے افضل ملک صاحب نے محفل چرا لی۔ مہمان خاموش رہے بیچارے البتہ ان کے باقاعدہ میزبان حلقہ ارباب ذوق کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر امجد طفیل ملک صاحب سے بات چیت کرتے رہے۔ میں نے بھی گفتگو میں ٹانگ اڑانے کی ناکام سی کوشش کی مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے پرتو میں ملک بھر میں ہو رہی بدعنوانی کا زہر ملک صاحب سے اگلے بنا نہیں رہا جا رہا تھا۔
خیر کھانے کے بعد تصویریں بنائیں تو بوگھیو صاحب نے کارڈ دیتے ہوئے ہنس کر کہا " واٹس ایپ کے لیے بھی"۔ صبح اٹھ کر انہیں تصاویر واٹس ایپ کرنے کے لیے ان کا کارڈ نکالا تو پتہ چلا کہ وہ اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین ہیں۔ تصاویر بھیجتے ہی ان کی جانب سے تشکر کا پیغام آ گیا۔ میں یہی سمجھا کہ انہوں نے اسلام آباد سے ہی لکھا ہوگا۔
آج اتوار تھی۔ رات کو واپسی کے لیے مال روڈ کی سڑک بمشکل پارک کرکے اس جانب سے جو رکشہ بعد از دقت ملا تھا وہ گلبرگ کے راستے لے گیا یوں جھٹکوں سے محفوظ رہا ۔ آج چھٹی کی وجہ سے رکشے ایک تو کم تھے دوسرے رکشہ والوں کو اوریئنٹل کالج کا پتہ نہیں تھا تیسرے نجانے اس جانب کیوں جانا نہیں چاہ رہے تھے۔ بڑی مشکل سے ایک رکشے والے کو سمجھایا کہ انارکلی کے نزدیک۔ وہ میرے کیولری گراونڈ کہنے پر بقول اس کے کویلری سے ہی گذرا۔ میں نسبتا خالی سڑکوں پر اڑتے ہوئے رکشے میں بیٹھا یوں مسکراتا جا رہا تھا جیسے میں اڑنے کھولے پر سوار تھا۔
• رکشے والا پرہجوم پرانی انارکلی میں گھس کر بولا" چاچاجی اب کہاں جانا ہے؟"۔ اتنے ہجوم سے بوکھلا کر میں نے کہا مال روڈ پر نکلو۔ وہ اور بھری ہوئی روڈ سٹریٹ سے نکل کر مال پر پہنچا تو میں نے کہا سیدھا نکلو۔ مال سے نئی انارکلی تک اتوار کی وجہ سے لنڈا بازار بنا ہوا تھا۔ بھیڑ کو چیر پھاڑ کے جب وہ نئی انارکلی کے دہانے پر پہنچا تو میں نے کہا کہ بائیں کو لے لو۔ جہاں ایک زمانے میں لاکالج ہوتا تھا وہاں بڑا سا بند گیٹ تھا اور اوپر لکھا تھا اوریئنٹل کالج۔ یہیں روک دو بھائی۔ اب میرے پاس یا ہزار روپے کا نوٹ تھا یا ٹوٹے ہوئے ایک سوستر روپے مگر اس سے دو سو طے تھے۔ گیٹ میں داخل ہو کر جو پہلا بک سٹال لگا تھا اس پر بیٹھے نوجوان سے تیس روپے ادھار لے کر رکشے والے کے پیسے پورے کیے۔ شام کو جب تیس روپے لوٹانے پہنچا تو وہ نوجوان جا چکا تھا۔
• کانفرنس کا پہلا سیشن جاری تھا۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب صدارت کر رہے تھے۔ سیشن فوری تمام ہو گیا۔ سٹیج پر جا کر امجد طفیل کو اپنے پہنچنے کا وعدہ وفا کرنے بارے باور کرایا۔ لوگوں میں گھرے تارڑ صاحب سے مصافحہ کیا۔ کیونکہ بوگھیو صاحب بھی سٹیج پر موجود تھے۔ ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چائے پینے کی خاطر گئے۔ بوگھیو صاحب سے کام کی باتیں کرکے ان کو لوگوں میں گھرا چھوڑ کر کوریڈور میں نکلا۔ وہاں تارڑ صاحب کے گرد چند نوجوان تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ نے شاید پہچانا نہیں، میں ماسکو سے ہوں مجاہد مرزا۔ ان سے نہ تو پہلی بار ملا تھا اور نہ ہی گذشتہ کئی ملاقاتیں سرسری سی تھیں بلکہ گھنٹوں پر محیط مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ انہوں نے مجھے نہیں پہچانا اور عذر یہ پیش کیا کہ بھائی بوڑھا ہو گیا ہوں ہر روز صبح بیدار ہو کر بیوی سے پوچھتا ہوں کہ میرے ساتھ موجود تم کون ہو۔ میں لاہول پڑھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ مجھے لگا شاید انہوں نے بدلہ لیا تھا۔ 2013 میں لاہور کے پی سی میں ہوئی ریڈیو وائس آف رشیا کی کانفرنس میں ان کے دیر سے پہنچنے کی وجہ سے میں نے مہمان خصوصی کی کرسی پر کسی اور کو بٹھا دیا تھا۔ خیر ممکن ہے میں نے غلط سوچا ہو اور وہ واقعی بوڑھے ہو گئے ہوں۔
بوگھیو صاحب نے بتایا تھا کہ انہیں بیلا روس کی زبان جاننے والا ایک نوجوان ملا ہے جس کی وہ خدمات لیں گے۔ جب میں چائے کے کمرے میں میں داخل ہوا تو ایک خوش پوش اور خوش شکل جواب لپک کر میری جانب بڑھا۔ بوگھیو صاحب نے کہا کہ یہی وہ نوجوان ہے تو فروان نام کے اس نوجوان نے کہا کہ وہ مجھے جانتا ہے بلکہ میرا پرستار ہے۔ یہ نوجوان ڈاکٹر بقول اس کے میڈیسن پر چھ کتابیں تحریر کر چکا ہے جو کئی ممالک میں پڑھائی جا رہی ہیں۔
چائے کے اس وقفے میں اس شناسا شخصیت سے بھی ملاقات ہو گئی جن کا محض حمید صاحب نام صبح فیس بک سے دیکھ کر درست کیا تھا یعنی ایم حمید شاہد۔ پوچھا کہ جناب آپ کیا کرتے ہیں تو مسکرا کر کہا کہ میں کیا کرتا ہوں، ایک بینکار ہوں۔ چپ رہا کیونکہ میں پوچھنا چاہتا تھا کہ ان کا ادب کی کس صنف سے تعلق ہے۔ خیر معلوم ہو گیا کہ کہانی کار ہیں یعنی افسانہ نگار۔ آصف فرخی نے نشاندہی کی کہ کانفرنس کے منتظمین نے ان کا نام ایم حمید شاید لکھ دیا ہے۔ پھر بولے کہ میرے نام کی تو لوگ خود سے تصحیح بھی کر لیتے ہیں اور فرخی کی جگہ فرضی لکھ دیتے ہیں۔ خیال ظاہر کیا کہ شاعروں اور افسانہ نگاروں کے لیے " شاید" اور " فرضی " سے بہتر نام کیا ہو سکتے ہیں؟
آصف فرخی انتظار حسین پر خوب بولے ۔ خیر سے اہل زبان ہیں اور انتظار صاحب پر کتاب بھی لکھی ہے تاہم انداز گفتگو خوب تھا۔ مجھے بہت پسند آیا اور میں نے خوب تالیاں پیٹیں۔ ایم حمید شاہد بھی خوب بولے البتہ محمد عاصم بٹ کی غیر بٹ آنا دھیمی آواز نے ان کے مقالے کی دلچسپی بھی نیہوڑا دی تھی۔ بوگھیو صاحب نے سیشن کے صدر کی حیثیت سے نقادوں اور کھلاڑیوں کی بنت کو خوب سیدھا کیا۔ ذکر کیا کہ ایک بار پیر حسام راشدی نے لکھا تھا کہ سچل سرمست کو گوربخشانی کا سا نقاد میسر نہ آ سکا تھا اس لیے وہ شاہ لطیف سے نہ بڑھ پائے۔ اس پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی اچھے لکھنے والے کو کسی اچھے نقاد کی واقعی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ادب اہم ہے اگر ادب ہی نہ ہو تو نقاد بھلا کیوں ہوگا۔
ایک سیشن میں میں ذرا تاخیر سے شامل ہوا۔ صدارت کی کرسی پر حسب معمول اپنے عمومی یعنی کیژیول ملبوس میں سرمد صہبائی بیٹھے ہوئے تھے۔ سیشن کے شروع میں ایک خاتون نے جن کی بھنویں چن چن کر شمشیر کی مانند تیکھی اور باریک تھیں البتہ دوپٹہ سر پر تھا، غزل سے متعلق گفتگو یوں کی " آج غزل سوشل میڈیا کے بازار میں رقص کناں ہے"۔ پھر ابرار احمد سمیت بہت سے شعراء کی نظموں کے مناسب انگریزی ترجمے کرنے والی یاسمین شاہد صاحبہ نے نظاموں کی ہئیت کی جراحی کی۔ اب باری تھی صدر یعنی سرمد بھائی کی۔ انہوں نے غزل اور نظم میں تخصیص کرنے کے رواج کے پرخچے اڑا دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہئیت تو کوئی ایک متعین کر دیتا ہے اصل بات تو مواد کی ہوتی ہے۔ انہوں نے نقادوں کی جانب سے قاری کو ہوا بنا دینے کی بھی بھد0 اڑائی۔ مجھے ان کی بے باک اور لگی لپٹی کے بغیر کی گئی گفتگو کا اتنا مزہ آیا کہ میں نے شمعون کو وہیں سے لکھا کہ یار دل کرتا ہے تم بھی یہ باتیں سنتے۔
سیشن کے اختتام پر سرمد بھائی سے ملنے آگے گیا تو ایک پرانے یار اصغر ندیم سید سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے اپنے مخصوص انداز میں کہا،" اوئے توں ہیویں، تیکوں تاں اساں کڈھ چھوڑیا ہا"۔ اصغر کو نکلنا تھا، وہ تھوڑی دیر سرمد سے باتیں کرکے، لوگوں کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر مجھے فون نمبر دے کر رخصت ہوا۔ میں سرمد بھائی اور نوجوان فرقان اور اس کے دو ڈاکٹر دوستوں کے ہمراہ نیچے کینٹین میں جا بیٹھا۔کوئی چالیس منٹ بیٹھے رہے۔ مزہ آ گیا جیسے اڑتالیس سال پہلے بیٹھے ہوں۔ آخر میں فرقان نے سرمد سے سوال کیا سر پہلے کے بچپن اور اب کے بچپن میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔ سرمد نے اپنی مخصوص حیرت سے پوچھا " کونسا بچپن " ۔ فرقان بڑھاپے کو بچپن قرار دیے جانے بارے تشریح کرنے کو تھا کہ میں نے روکا ،" ارے بھائی ابھی تو ان کا پچپن ہے "- سرمد صہبائی کو سرمد بھائی کہنے کی وجہ منظر صہبائی کا میرا ہم جماعت ہونا ہے۔ اصغر ندیم سید کا بھائی صفدر میڈیکل کالج میں میرا ہم جماعت تھا مگر اصغر اس کی بجائے میرا دوست تھا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1649480941744676
“