امریکی سائنسدان جنہوں نے یہ زندہ روبوٹ ایجاد کئے ہیں، انہوں نے انہیں “زینوبوٹس” کا نام دیا ہے۔
اربوں سالوں کے ارتقائی سفر میں، جاندار اشیا نے خود کو تقسیم کرنے کےکئی طریقے نکالے ہیں جیسے کہ پودوں کےخود افزائش، جانوروں کا جنسی عمل کے تحت افزائش یا وائرس کا کسی خلیے کی تقسیم کے عمل کو ہائجیک کر کے خود کی کاپیاں بنانا۔
یہ زینوبوٹس جو ایک سینتھیٹک یا بناوٹی حیاتیات کی ایک قسم ہیں، یہ خود کو تقسیم کر کے نئے زینوبوٹس بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسے کہ باقی حیاتیاتی خلیے۔
مگر سائنسدانوں نے یہ روبوٹ کیسے بنائے؟
اسکے لئے 2020 میں انہوں نے مینڈک کے زندہ خلیوں کو سپرکمپوٹرز کی مدد سے ایک خاص ترتیب میں مصنوعی الیکٹروڈز کے ساتھ جوڑا۔جس سے انہیں الیکٹروڈس کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح یہ ایک زندہ حیاتیاتی مشین کی شکل اختیار کر گئے جو مختلف کام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جیسے کہ مختلف خوردبینی اشیا یا زرات کو دھکیلنا یا کسی خاص ترتیب میں حرکت کرنا شامل ہے۔ مگر اہم بات یہ کہ یہ زندہ مشینیں یا روبوٹس تقسیم کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جو انہیں بے حد منفرد بناتی ہے ۔یعنی ایک روبوٹ سے دوسرے روبوٹس کی پیدائش اور انکی تعداد کا بڑھنا۔
یہ زینوبوٹس 1 ملی میٹر سے بھی کم جسامت کے ہیں۔
فی الوقت ایک روبوٹ قریب 300 مینڈک کے خلیوں اور الیکٹروڈس سے ملکر بنا ہے اور جب یہ دو یا دو سے زائد روبوٹس میں تقسیم ہوتا ہے تو کچھ وقفے کے بعد نئے روبوٹ مر جاتے ہیں۔ مگر سائنسدان اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ کن نئی تراکیب سے ایسے روبوٹ بنائے جائیں جنکے بچے روبوٹ نہ مریں۔ اس سلسلے میں سپر کمپیوٹرز کی مدد لی جا رہی ہے۔
مستقبل میں ان روبوٹس پر مزید تحقیق سے ارتقا کے عمل کو مزید بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ انہیں مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے بھی استعمال لایا لایا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر بہتر ڈرگ ڈیلویری یعنی انکی صلاحیتوں کو استعمال کر کے انسانوں میں بہتر طور پر خاص مقامات جیسے کہ کینسر کے خلیوں کی مرمت کے لئے میڈیسن بھیجی جا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...