روبینہ میر تلاش ذات کی شاعرہ
روبینہ میر صاحبہ ایک ایسی شاعرہ ہیں جن کی زندگی کا زیادہ تر وقت اپنےآپ کو یا اپنی ذات کو تلاش کرنے ، اپنے دل کو ڈھونڈنے اور مظلوم عوام کے ساتھ ساتھ خاص طور پر مظلوم اور بے بس خواتین کے جائز حقوق کے بارے میں جدوجہد کرتے گزر رہا ہے جس کے لئے ان کو ہر قسم کی مشکلات اور امتحانات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔ وہ زندگی کی تلاش میں تنہا چل پڑی ہیں جن کی راہ میں کوئی سایہ دار شجر بھی نہیں ہے ۔ لیکن ان کی بہت بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے خاوند محترم کا قدم قدم پر ساتھ رہا ہے ورنہ وہ جس مقام پر آج کھڑی ہیں شاید اس مقام پر کبھی بھی نہ پہنچ پاتیں جس کا وہ خود بھی اعتراف کرتی ہیں ۔
روبینہ صاحبہ کا اصل نام روبینہ اختر ہے اور قلمی نام روبینہ میر اور تخلص روبینہ ہے وہ 15 اگست 1969 کو( خطٕ پیر پنچال میں واقع ) ضلع پونچھ کے ایک سیاحتی مقام چھتہ پانی میں پیدا ہوٸیں ۔صوبہ جموں کے ضلع راجوری میں واقع گاٶں” بھروٹ۔ کھبلاں “ ان کا آباٸی گاٶں ہے۔تعلیمی سفر کا آغاز گورنمنٹ پرائمری اسکول کبھلاں سے کیا۔چھٹی جماعت میں گونمنٹ مڈل اسکول راجدھانی میں داخلہ لیا۔وہاں سے مڈل پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ ہاٸی اسکول بھروٹ سے میٹرک پاس کرنے کے بعدگورنمنٹ ہاٸیر سکینڈری اسکول تھنہ منڈی سے بارہویں جماعت نمایاں کامیابی کے ساتھ حاصل کی۔تعلیم جاری رکھنے کی غرض سے ڈگری کالج راجوری میں داخلہ لیا۔لیکن باقاعدہ تعلیم مکمل نہ ہو سکی۔چنانچہ 1993 میں محکمہ تعلیم میں ٹیچر کی حثیت سے ملازمت مل گٸی۔بعد ازاں مواصلاتی تعلیم کے ذریعے جامعہ اردو علی گڑھ سے بی۔اے۔اور بی۔ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔اس وقت گورنمنٹ بواٸیز ہاٸیر اسکینڈری اسکول راجوری میں ماسٹر کی حثیت سے تعینات ہیں ۔
ادب اور دین داری کا خانگی ماحول انہیں اپنے دادا مرحوم الحاج عبدالرحیم میر کے بعد اپنے والدین سے وراثت میں ملا ۔ان کے نانا مرحوم کامریڈ غلام قادر میر ، سیاسی، سماجی،علمی اور ادبی شخصیت کے لٸے ریاست بھر میں مشہور و معروف تھے ۔
۔ 19 93 میں شادی پونچھ کے ایک نامی گرامی گھرانے میں مرحوم خواجہ غلام رسول( منڈی پونچھ) کے صاحبزادے محمد فرید سے ہوٸی۔جو اس وقت درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ تھے۔ جو بعد ازاں Kps کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے محکمہٕ پولیس میں آفیسر تعینات ہوٸے۔ اور کامیابیوں کی سیڑھیاں طے کرتے ایس۔ایس ۔پی کے عہدے تک پہنچ گٸے۔ شادی کے بعد ان کے سسرال میں بھی ان کو اسی طرح کا دینی ماحول ملا۔ ان کو تخلیقی سفر میں ان کے سرتاج یعنی شوہرِ نامدار( ایس۔ایس۔پی) فرید صاحب کی رفاقت شاملِ حال رہی۔ورنہ یہ دشوار گزار مرحلہ طے کرنا لٸے ممکن نہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ربِ دو جہاں کی اس عنایت اور بخشش کے لٸے جس قدر بھی شکر بجا لاٶں کم ہے۔اور اپنے محسنوں کی طرف سے ملنے والے حوصلوں کے لٸے اُن کی احسان مند ہوں۔
عام طور پر جس شاعر یا شاعرہ سے سوال کیا جاتاہے کہ ان کو شاعری کا شوق کب پیدا ہوا تو جواب ملتا ہے کہ مجھے شاعری کا شوق بچپن سے تھا اور بچپن ہی سے شاعری شروع کی لیکن روبینہ میر صاحبہ اور خواجہ ثقلین صاحب کے بارے میں یہ دلچسپ انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے بچپن کی بجائے بڑے پن میں شاعری شروع کی ہے۔خواجہ ثقلین صاحب نے 54 سال کی عمر میں 2017 میں جبکہ روبینہ میر صاحبہ نے 43 سال کی عمر میں 2012 شے شاعری شروع کی ۔جن کی پہلی نظم " وطن کی بیٹیوں کے نام " کے عنوان سے روزنامہ اڑان میں 2012 میں شایع ہوئی ۔ جس کے بعد وہ کبھی خود کو ڈھونڈنے نکلیں تو کبھی اپنے لاپتہ ہونے والے دل کی تلاش میں اور کبھی زندگی کی تلاش میں تنہا چل پڑی ہیں ۔جس طرح وہ کہتی ہیں کہ
میں نے سوچا بھی نہ تھا میں ڈھونڈتی رہ جائوں گی
خواہشوں کی بھیڑ میں دل لاپتہ ہو جائےگا
چونکہ ہمارے معاشرے میں مرد اپنے آپ کو آزاد و خودمختار اور عورت کو پابند سمجھتا ہے خود تو خواہ کچھ بھی کرتا پھرے اس سے عورت پوچھ نہیں سکتی لیکن عورت کو قبیح رسم و رواج میں جکڑا گیا ہے جس کو بس مرد کے ہر ظلم و جبر ،زیادتیوں اور ناانصافیوں پر سر جھکا کر خاموش رہنا ہے اسی تناظر میں روبینہ میر صاحبہ نے عورت ذات کی نمائندگی کرتےہوئے کیا خوب کہا کہ
میں قید ہو کے رہ گئی رسم و رواج میں
ڈالی جو اس نے پائوں میں زنجیر کیا لکھوں
لیکن اس کے باوجود یہی عورت سب کا بھلا چاہتی ہے اور بلا امتیاز مذہب و ملت، جنس و،زبان اور تہذیب و ثقافت اور تمدن کے دعا مانگتی نظر آتی ہے روبینہ میر کا کہنا ہے کہ
میسر ہو سب کو سکوں زندگی کا
میں سب کیلئے یہ دعا مانگتی ہوں
روبینہ صاحبہ کے اب تک 4 شعری مجموعے چھپ کر قبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں جن میں " آئینہ خیال " 2013 میں " تفسیر حیات " 2016 میں " حرف راز " 2017 میں جبکہ ایک شعری مجموعہ کشمیری زبان میں " نوید قلم" کے نام سے 2019 میں شایع ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت کے مختلف اخبارات اور رسائل میں ان کی غزلیں نظمیں اور مضامین وغیرہ شایع ہوتے ریے ہیں ۔ ان کے پسندیدہ شعراء میں مرزا اسد اللہ غالب اور علامہ محمد اقبال شامل ہیں ان کی پسند سے مجھے یاد آیا کہ ڈاکٹر لبنی آصف صاحبہ کی طرح روبینہ میر صاحبہ کی پسند کے شعراء کی فہرست میں بھی کوئی خاتون شاعرہ شامل نہیں ہے ۔ روبینہ میر صاحبہ کہیں ظلم و جبر اور ناانصافیوں کے خلاف توانا آواز بن رہی ہیں تو کبھی اور کہیں اپنی تعمیر حیات اور تکمیل ذات کی غرض سے کچھ معصوم سی خواہشات کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں ۔ ان کی خوبصورت شاعری سے کچھ انتخاب آپ کی نذر کر رہا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانا زخم سلنا چاہتی ہوں
میں اب خود سے ہی ملنا چاہتی ہوں
ہوائے عشق چھو میرے بدن کو
میں بھی پھولوں سا کھلنا چاہتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی تم دیر مت کرنا
میں روٹھوں تو منانے میں
مجھے واپس بلانے میں
چراغ دل جلانے میں
اندھیروں کو مٹانے میں
دیار دل سجانے میں
کہ میرے پاس آنے میں
کبھی تم دیر مت کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ہر گام پر مشکل کھڑی تھی
میں ان راہوں پہ تنہا چل پڑی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہی جائے گا آتے آتے ہی
میرے دل کے قرار کا موسم
کس قدر دل کو زخم دیتا ہے
گردش روزگار کا موسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر بھر میں کہ الجھتی ہی رہی ہوں خود سے
زندگی تو نے مجھے اپنا بھی ہونے نہ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو تو اس کی ذات سے امید بڑی تھی
افسوس ! اسے اپنی ہی شہرت کی پڑی تھی
مانا کہ ایک چھت کے تلے رہے ہم برسوں
لیکن ہمارے درمیاں دیوار کھڑی تھی
روبینہ میر