(Last Updated On: )
ہر تخلیق کار اپنی طبیعت کی موزونی، فکر کی بلندی اور اپنے مزاج کے مطابق اظہار کے لیے مختلف فنون کا سہارا لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس فن میں کمال حاصل کرتا ہے۔ زیرِ نظر افسانہ بھی ایسے ہی ایک افسانہ نگار کی تحریر ہے جو اپنے اشہبِ قلم کی جولانیوں سے قاری کے لیے ہر لحظہ نیا طور اور نئی برق تجلی فراہم کرتے ہیں، جس سے ان کے علمی ترفع کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ایسی ہی ایک جامع صفات شخصیت کے مالک ڈاکٹر غلام شبیر رانا ہیں جو زرخیز اور ہمہ جہت تخلیقی ذہن کے مالک ہیں جو زبان پر حاکمانہ قدرت رکھتے ہوئے لفظوں کا فن بخوبی جانتے ہیں۔
زیرِ نظر افسانہ " رضوان کی وصیت" 95 صفحات پر مشتمل بے حسی، بے قدری کے ایک خونچکاں المیے کی داستان ہے جو ای بُک کی صورت میں پٹنہ سے حال ہی میں آن لائن پیش کی گئی ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار ایک ضعیف معلم ہے جس کی سوانحی یادداشت کو افسانہ نگار نے خونِ جگر دے کر لکھا ہے۔ یہ ایک کردار کے نوحے کے علاوہ زندگی کے تناقضات، تضادات اور تغیرو تبدل کی ایک ایسی خون آلود تصویر ہے جہاں عقل، منطق، امید اور دلیل عاجز رہ جاتی ہے۔ جہاں منافقانہ، سفاکانہ اور جفاکانہ رویے انسان کی عزت و حرمت کی پیرہن کو تار تار کر کے رشتوں اورتعلقات کی طہارت کو داغدار کرتے ہیں۔
افسانے کے آغاز میں ہی معلم بشیر کی جھکی کمر بے کسی اور بے بسی کو ظاہر کرتے ہوئے اس حقیقت کو عیاں کر رہی ہے کہ زیست کی عمارت جن ستونوں پر کھڑی تھی ان ستونوں کو زندگی کے پیچ در پیچ مسائل اور لوگوں کی بے حسی اور بے قدری کی دیمک نے چاٹ لیا ہے اور وہ ستون زندگی کے نامساعد حالات سے گھبرا کر اب ڈھے جانے کو ہیں۔ یہ ذات کی شکست کے علاوہ معاشرتی شکست و ریخت کی ایک دلخراش تصویر ہے جس پر کرب کے گہرے آثار نظر آتے ہیں۔افسانے کے آغاز سے ہی برِصغیر میں نو آبادیاتی دور اور دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں دو دوستوں کی دوستی کو بیان کیا گیا ہے۔جس سے اس بات کا بین ثبوت ملتا ہے کہ افسانہ نگار کی تاریخ کے اوراق پر کتنی گہری نظر ہے۔ ان کی دوستی کی گہری بنیادوں کا سلسلہ ان کی اولادوں رضوان اور بشیر کی پچاس سالہ رفاقت کی صورت میں نظر آیا۔ انہی مرکزی کرداروں سے ہی آگے کی کہانی کا تانا بانا بناگیا ہے۔
رضوان اور بشیر دونوں دوست ہم جماعت تھے لیکن دونوں کے ذوق اور شوق منفرد تھے۔بشیر شادی کے بعد فتح جنگ میں سکونت پذیر ہوا جبکہ رضوان اپنی بیوی کے قصبے مکڑوال میں جا بسا۔ سبا اوقات لفظ زندہ حقیقت بن جاتے ہیں۔ مکڑوال بنتا بگڑتا " مکروال" بن گیا اور مکروفریب، دغابازی، عیاری، مکاری وہاں کے مکینوں کی پہچان بن گئی۔
معلم بشیر چونکہ تدریس کے پیشے سے وابستہ تھا، اس کا مطالعہ بہت وسیع اور فکر عمیق تھی۔ اس نے مشرقی خواتین کے مسائل پر بھی بہت لکھا۔ وہ اپنی دانش وری کی باتیں اکثر رضوان کے بھی گوش گزار کرتا تھا کہ مشرقی عورت کس طرح اپنے شوہر کے ساتھ باوفا اور باحیا طریقے سے زندگی گزارتی ہے۔
یہاں پر تانیثیت کے موضوع کا ذکر ممتاز شیریں کا حوالہ دے کر کیا گیا ہے جس سے معلم بشیر کی اس موضوع سے خاص دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ ممتاز شیریں کے ذکر سے افسانہ نگار کے پیشِ نظر ان کا تحلیل نفسی کی تکنیک کے تجربہ استعمال کا اظہار ہے جو وقت کے ساتھ خیالات میں آنے والے تغیر و تبدل کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ قاری کے لیے انوکھا تجربہ بن جاتا ہے۔ یہ تجربہ جہاں افسانہ نگار کی جذباتی اور نفسیاتی اضطراب کا مظہر ہے وہیں اس کی تہہ میں روحانی مسرت کے منبع کا نشان بھی کہیں ملتا ہے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے بھی اپنے جذبات و اضطراب کی ترسیل کے لیے اسی تکنیک کا استعمال کیا ہے ۔ اس تکنیک کے استعمال سے جہاں انسان کی داخلی اور نفسیاتی زندگی کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں کا اظہار ہوتا ہے وہیں ان جذباتی رویوں کا بھی اظہار ہے جو اسے وراثت میں ملتے ہیں۔ بشیر کو دوستی اور وفاداری کا یہ جذبہ بھی وراثت میں ملا جس سے اس کے ذہنی اور جذباتی میلان کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس لیے علمِ نفسیات نے انسانی افکارِ و اعمال کو شعور سے زیادہ لاشعور کا نتیجہ قرار دیا ہے، جو غیر مرتب اور غیر مربوط ہوتا ہے۔ فرائڈ کے شاگرد " زنگ" نے وارثت میں ملنے والے جذباتی رویوں کو اہم قرار دے کر اجتماعی لاشعور کی تخلیق کا منبع ٹھہرایا ہے اور یہی چیز ہمیں اس افسانے میں بھی واضح نظر آتی ہے ۔
آگے چل کر یونانی دیو مالائی کہانیوں کے ذریعے عورت کی عظمت کا پرچار اور اخلاص و وفا کی دیوی کے ذریعے جو واقعات کی نشاندہی کی گئی اس کے ذریعے شعوری یا لاشعوری طور پر عورت کے کردار کی رفعت و عظمت کو باور کروایا گیا ہے کیونکہ اس افسانے کے مرکزی کردار کو جس طرح کی عورت سے واسطہ پڑا وہ اخلاص و وفا سے عاری ، عیاری، مکاری کا پیکر تھی۔
یونانی ڈرامہ نگاروں نے المیہ کو اپنے تخلیقات میں متعارف کروایا کیونکہ انسانی زندگی بلاشبہ المیوں سے عبارت ہے اور المیہ کا دوام انسانی زندگی کو بحیثیت مجموعی اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ یہاں پر یونانی المیہ نگاروں کی تحریر کردہ دیومالائی المیہ داستانوں کے ذکر سے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ افسانہ نگار بھی الم و درد کی داستان رقم کر کے افسانے کو نئے افق سے ہمکنار کرنا چاہ رہے ہیں جیسا کہ ان المیہ نگاروں نے المیہ ڈرامے کو نئے آفاق سے آشنا کیا ۔
دوسرا یہ کہ ان المیہ نگاروں کے دیو مالائی کردار جن سے عقیدت و عظمت منسوب کی جاتی ہے ، ان کا المیہ اس طرح دکھایا کہ قاری خود بخود ان کی محبت کے سحر میں گرفتار ہو کر ان کے الم پر رنجیدہ ہوتا ہے یہاں افسانہ نگار نے بدی کے جتنے بھی عنوان ہیں اور ماورائی مخلوق سے جتنا بھی شر منسوب ہے اس کو مکڑوال اور اس کے مکینوں کے ساتھ منسوب کر کے بدی کی شدت کو کراہت آمیز طریقے سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ پڑھنے والا ان کرداروں سے اتنی ہی شدید نفرت کرے جتنی لکھنے والے کا قلم ان کو بنا کر پیش کر رہا ہے۔
تیسرا یہ پہلو نظر آتا ہے کہ افسانہ نگار کا مطالعہ بہت گہرا ہے۔ ان کی مشرقی ادیبوں کے ساتھ ساتھ مغربی ادیب نگاروں کی تخلیقات پر بھی کتنی گہری نظر ہے۔
دیو جانس کلبی اور سکندرِ اعظم کے قصے کے ذکر سے یہاں بہت معنی خیزپہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ یہاں اس قصے سے افسانہ نگار کو کونسا مطلب مقصود ہے۔ دیو جانس کلبی بھری دھوپ میں جلتا دیا ہاتھ میں لیے انسان کی تلاش کرتا تھا۔ اسے انسان کا حسب نسب معلوم تھا ۔ وہ انسان کو چہرے مہرے سے پہچان سکتا تھا۔ اب یہاں افسانہ نگار نے جس طرح معلم بشیر کو ماہرِ بشریات قرار دے کر اس کی قیافہ شناسی کو دیو جانس کی قیافہ شناسی کے ہم پلہ قرار دینے کی کوشش کی ہے کہ بشیر بشریات کی نفسیات سے آگاہ و آشنا ہے۔ اور اسے بھی دنیا کی اس بھیڑ میں کسی انسان کی تلاش ہے ۔ یا افسانہ نگار دیو جانس کلبی کی قناعت پسندی اور درویشی کی صفات کی وجہ سے بشیر کو اسی آئینے میں دکھانا چاہ رہے ہیںیا دیو جانس کلبی کے پاس وفادار کتا جس کے ساتھ کی وجہ سے اسے بھی کلبی کے نام سے پہچانا جانے لگا ، اس کی وفاداری دکھانا مقصود ہے کہ جب ایک جانور اپنے مالک کے ساتھ وفادار ہو سکتا ہے تو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ مخلص و وفادار کیوں نہیں ہے۔کچھ کے خیال کے مطابق کلبی ایک مذہب ہے جس کے پیروکار مادہ پرستی اور عیش پرستی جیسے عناصر کی مخالفت کرتے ہیں جس کی بہترین مثال ہمیں دیو جانس کلبی کی زندگی سے ملتی ہے۔ لیکن جہاں یہ تمام پہلو پیشِ نظر ہیں وہیں دی آکسفورڈ انگلش ڈکشنری زمانہ جدید کے کلبی کو " ایک ایسے شخص " کے طور پر بیان کرتی ہے "جو نقص نکالنے یا نکتہ چینی کی طرف مائل ہوتا ہے" یعنی تحقیر کرنے والا نکتہ چیں۔جس طرح افسانے میں کرداروں کی عیب جوئی کی گئی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بشیر کا کردار کس پہلو سے بیان کیا گیا ہے یا انسانی کردار کے یہ تمام پہلو معلم بشیر کی ذات کے آئینے میں دکھائے گئے ہیں۔
بشیر جب پہلی بار مکڑوال گیا تو ایک بوڑھے نے اسے بتایا کہ جو کوئی اس شہرِ فریب میں آتا ہے وہ یہاں کے باشندوں کے مکرو فریب کا شکار ہو کر دھول کا پیر ہن بن جاتا ہے۔ یہی صورتحال خود اس کے ساتھ بھی پیش آئی جب اس کا سامنا رضوان کی بیوی اور اس کی اولاد سے ہوا۔ اس کی بیوی قفسو جو کہ مکڑوال کے مکرو فریب کے سائے میں پلی بڑھی تو اس پر ان تمام رویوں جو وہاں کی پہچان تھے، کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔
؎ چال، چکمہ، فقتہ، دم جھانسہ اور فریب
سیکھ جائے کوئی اس دم باز سے
(داغ)
بشیر چونکہ عرصہ دراز سے شعبہ تدریس سے منسلک تھا اور تاریخ عمرانیات اور علم بشریات کا ماہر تھا، اسی لیے قفسو اپنی بیٹی کا تحقیقی مقالہ لکھوانے اس کے پاس چلی آئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مال و زر کی ہوس کے بغیر کوئی شخص محنت و ذکاوت سے یہ کام کر سکے گا وہ بشیر ہی ہے۔ درپردہ وہ بشیر کی رضوان سے بے لوث دوستی کی قیمت وصول کرنے آئی تھی اور بشیر کی زندگی میں آنے والے جس طوفان کو وہ اپنے ساتھ لائی تھی ، بشیر اس سے ناآشنا تھا۔ ان ماں بیٹیوں نے خوشامد، جعلی تعریف و توصیف ، مال و زر کی پیشکش، غرض ہر ممکنہ حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن معلم بشیر کی زندگی کے جو اصول و ضوابط تھے وہ ان سے کسی بھی قیمت پر انحراف نہیں کر سکتا تھا۔ جب قفسو نے دیکھا کے بشیر اس کے دام فریب میں نہیں آیا تو ان سے دھمکانے کی بھی کوشش کی جو بارآور نہ ہو سکی۔ وہ وہاں سے کسی زخمی شیرنی کی طرح پھنکارتی ہوئی مقالہ لکھوانے کے لیے بچھائے جانے والے جال کے تانے بانے بدل کر ایک نئے طریقے سے اس پر وار کرنے کا شاطر خیال دل میں لیے وہاں سے رخصت ہوئی۔ بشیر جو ان کو ٹلتا دیکھ کر یہ سمجھ رہا تھا کہ مصیبت رفع ہو گئی ہے وہ نہیں جانتا تھا کہ اب مکڑوال کے پیشہ ور ٹھگوں، عادی دروغ گو، کینہ پرور اورعیار و فریب کاروں کے دغاودزدی کا نیا باب کھلے گا جو ا س کی زندگی کے اُجالوں کو بھی غم کے اندھیروں میں بدل دے گا۔
6 جولائی 2017 ء بشیر کے خاندان کو ناقابل اندمال صدمے سے دوچار کر گیا۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس کے چمن کا خوبصورت، تروتازہ، شگفتہ پھول کو توڑ لیا۔ نوجوان بیٹے کے دائمی مفارقت کا صدمہ بشیر دل سے لگا بیٹھا۔ اس کے جینے کی آرزو ہی جیسے ختم ہوتی گئی۔ ایسے میں ضروری تھا کہ کسی خوشی کے رنگ سے اس کی زندگی کو آہنگ کیا جائے تاکہ جینے کا کوئی ڈھنگ ملے۔ رضوان نے اس مصیبت کی گھڑی میں چارہ گری کرنے کا دعویٰ کیا کہ وہ جلد بشیر کے زخم پر وہ مرہم رکھے گا جو اس کی زندگی کی نومیدی کو خوش نویدی میں بدل ڈالے گا۔
بشیر کے بیٹے کے چہلم کے بعد رضوان اور اس کی بیوی نے اس چارہ گری کی صورت پیش کی کہ وہ اپنی منجھلی بیٹی صبیحہ ( جس کا تحقیقی مقالہ لکھوانے قفسو اس کے پاس آئی تھی) کی منگنی بشیر کے بیٹے سے کر دیتا ہے اور جلد ہی اس رشتے کو شادی کے بندھن میں تبدیل کر دے گا تاکہ بشیر کی زندگی کی شبِ تاریک میں خوشیوں کی تحریک پیدا ہو۔ لیکن بشیر جو اس رشتے پر تامل کرتا رہا کیونکہ اس کا بیٹا عمر میں صبیحہ سے چھوٹا تھا اور وہ مکڑوال کے مکینوں کے مکرو فریب کو اچھی طرح جانتا تھا لیکن جیسا کہ بقولِ شاعر:
؎ قدم انسان کا راہِ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
(جوشؔ)
وہ بھی ایسی ہی ٹھوکر کھا گیا اور ان کے مسلسل اصرار کے باعث اس نے اس رشتے کو قبول کر لیا ۔ رشتہ طے ہوتے ہی رضوان کی طرف سے کی جانے والی فرمائشوں پر اس کا ماتھا ضرور ٹھنکا لیکن نامعلوم خوف کے دبائو میں وہ ہر جائز و نا جائز خواہش کو مانتا چلا گیا۔
منگنی کی رسم ادا ہونے پر جہاں رضوان نے یہ اعلان کیا کہ یہ رشتہ غیر مشروط ہے وہیں رضوان نے بشیر سے رخصت ہوتے وقت اپنی بیٹی کا مقالہ لکھنے کی بھی تاکید کر ڈالی۔
؎ ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
(پروین شاکر)
یہ جذبات کی عار میں وہ کاری وار تھا جس پر بشیر بھی مات کھا گیا۔ اس نے وہ مقالہ لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی دورانیے میں رضوان چل بسا لیکن جانے سے پہلے اس بات کی وصیت کر گیا کہ جو رشتہ دونوں گھرانوں میں طے پایا ہے وہ ہر صورت قائم رہنا چاہیے اور جاتے جاتے اس نے پھر بشیر کو تاکید کی کہ وہ اس کی بیٹی کا مقالہ ایک مہینے کے اندر مکمل کر دے۔
رضوان کی تدفین کے بعد بشیر کے لاشعور میں کچھ ہیولے نمودار ہوئے جو اس کے رفتگاں کے تھے انہوں نے بشیر کی تسلی و تشفی کرتے وقت نصیحت کی کہ رفتگان کے ذکر سے اپنے دل کو شاد و آباد رکھو اور ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے کھٹن حالات میں زندگی بسر کرنے کا ڈھب سیکھو۔ اور زندگی کی کڑوی مگر سچی حقیقت عیاں کرتے وقت اسے لوگوں کی دغا بازی، جفا سازی سے خبردار کیا اور بتایا کہ مکڑوال کے یہ مکین بھی اس کے ساتھ مکر و فریب کا کھیل کھیل رہے ہیں جس سے اسے اپنا دامن بچا کر رکھنا چاہیے اور ان کے مکر میں نہیں آنا چاہیے۔لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ سب کچھ جان لینے کے باوجود بشیر پھر بھی قفسو کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گیا۔
؎ نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
(جوشؔ)
رضوان کے بار بار اصرار و تاکید کی وجہ سے اور شاید اس خوشی کی تلاش کی خواہش جو اس کے دل کے نہاں خانوں میں پوشیدہ تھی، نے اسے اپنے اصولوں کے خلاف جا کر ایسا کرنے پر مجبورکر دیا لیکن مقالہ ملتے ہی رضوان کے گھر والوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا جن کے ڈھنگ دیکھ کر معلم بشیر تحیر زدہ ہو کر ان کے فریب پر دل مسوس کر رہ گیا لیکن شاید وہ یہ بھول گیا تھا :
؎ اصلاں نال جے نیکی کریے
نسلاں تک نہیں پلدے
بد اصلاں نال جے نیکی کریے
پٹھیاں چالاں چلدے
(میاں محمد بخش)
صبیحہ بوڑھے معلم کی دن رات کی دماغ سوزی سے لکھے ہوئے مقالے کی بدولت معتبر بن بیٹھی اور اس بوڑھے کی نا تمام آرزئوں کو بری طرح کچل ڈالا۔
؎ جنہیں زندگی کا شعور تھا انھیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینئہ خاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
(ناصر کاظمی، " دیوان" مشمولہ کلیات ناصر، جہانگیر بکس لاہور، ص 92 )
جو ناروا سلوک رضوان کے گھر والوں نے اس بوڑھے کے ساتھ کیا اس سے ان کی قبیح و مکروہ صورتیں اور بدنما ہو گئیں اور ان کے مکرو فریب پر زمین بھی لرز کر رہ گئی۔
؎ زمین لرزاں، زماں لرزاںنگاہ اہر من لرزاں
کہ اب تیور ہمارے انقلاب کے آثار ہوتے جاتے ہیں
انہوں نے اپنی نخوت و رعونت کے زعم میں بیچارے ستم زدہ بشیر پر بے سروپا الزام تراشی اور دشنام طرازی کر کے اپنے تعفن زدہ وجود سے معاشرے کو اور بھی بدبو دار بنا دیا اور بشیر کا رضوان کی وصیت کے یاد کروانے پر قفسو نے یہ کہہ کر کہ یہ تو مقالہ لکھوانے کے لیے اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا اسکرپٹ تھا اور رضوان اس کی کٹھ پتلی تھا ، بشیر کی جھکتی کمر کو اور جھکا دیا۔ بوڑھا معلم جو خوشیوں کی تلاش میں نکلا تھا ، زمانہ اس کے ساتھ ایک بار پھر قیامت کی چال چل گیاجس نے پھر اس میں سے جینے کی خواہش خون کی طرح نچوڑ لی۔
؎ فریب دے کر حیات نو کا حیات ہی چھین لی ہم سے
ہم اس زمانے کا کیا کریں گے اگر یہی ہے نیا زمانہ نو
(علی سردار جعفری، کلیاتِ علی سردار جعفری، جلد اوّل، حیات کی جفائیں، حصہ شاعری، ص 420)
اس افسانے میں صرف ایک معلم کی کہانی ہی نہیں بلکہ تہہ در تہہ سماجی تضادات اور معاشرے میں پھیلی ہوئی بے حسی، بے قدری اور خود غرضی کی ایک کربناک داستان ہے جس میں انسانی رشتوں اور قدروں میں خلوص ، دردمندی، اپنائیت جیسے جذبوں کا فقدان نظر آتا ہے اور تخلیق کار اگر حساس ہو تو وہ اپنے قلم کی نوک پر جس طرح اپنی حساسیت کو لفظوں کے پیرائے میں بیان کر کے مجسم تصویر دیتا ہے توجہاں یہ اس کے اندرونی درد و کرب کا اظہار ہوا ہے وہیں یہ عمل درد ناک بھی بن جاتا ہے۔
؎ بے حسی بھی موت کا اک نام ہے
اور قیامت ہے بہت حساس ہونا
جہاں یہ افسانہ ایک ذات کا نوحہ ہے وہیں منافقانہ، ریاکارانہ معاشرتی ناہمواری کی تصویر ہے جہاں لوگوں پر بے حسی اور خود غرضی کے ایسے سائے چھائے ہوئیں ہیں کہ وہ اپنے مفاد کے لیے کسی کی زندگی کے اُجالوں کو تاریک کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کا شعور سماجی اور سیاسی مسئلوں کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھتا ہے۔
( سید احتشام حسین، اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، ص281 )
افسانے میں لکھی گئی تاریخوں کا باریک حساب مصنف کی محنت کو صاف ظاہر کر رہا ہے لیکن ایک چیز باعثِ الجھن ہے کہ مئی 2017 ء کی ملاقات پر بھی صبیحہ کا مقالہ جمع کروانے کی مدت ایک ماہ کی تھی ۔ چھ جولائی 2017 ء کے بعد ہونے والی ملاقات جس میں رشتہ طے پایا گیا تب بھی مدت ایک ماہ درکار تھی اور 5 مارچ 2018 ء کے وقت بھی معینہ مدت ایک ماہ ہی کی تھی۔
افسانے میں جابجا علامت نگاری اور تمثیل نگاری کا استعمال کر کے افسانہ نگار نے اپنے جذبات کو لفظوں کے قالب میں ڈھالا ہے ۔ جیسا کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کہا ہے:
" ___علامت ہمارے لاشعور کو تمثیلی
پیرائے ہی کے ذریعے راس آتی ہے
اور اردو کے نئے افسانے میں اکثر
و بیشتر تمثیلی عنصر ، علامتی عنصر کے
ساتھ باہم آمیز ہو کر آتا ہے، اس
میں قدیم کتھا کہانی کی سادگی بھی ہے
اور آرٹ کا ڈسپلن بھی___ "
افسانے میں ہر چیز بڑے مناسب انداز میں خوبصورت پیرائے میں بیان کی گئی ہے لیکن یہاں شفو اور تفو کا کردار کچھ غیر ضروری محسوس ہوا۔ یا کم از کم ان کے ذکر سے افسانے کی کہانی کے ربط میں تھوڑا خلل واقع ہوا ہے۔ شفو کے کردار کے دوبارہ ذکر سے ایسا لگتا ہے کہ افسانہ نگار اپنے تخیل اور جذبات کی رو میں اسے مکمل کرنا بھول گئے ہیں جو دوبارہ ذکر کر کے مکمل کیا گیا ہے ۔ یا یہ کہ شعور کی رو میں بہتے بہتے جیسے جیسے خیالات ان کے ذہن میں آتے گئے وہ انہیں داخلی مونولاگ یا خود کلامی کے انداز میں لکھتے چلے گئے بہر حال بات سے بات پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور یہی تحریر میں ایک تاثر پیدا کر دیتی ہے۔ افسانے میں افسانہ نگار نے صرف تلمیحات کا استعمال ہی نہیں کیا بلکہ ان سے متعلقہ واقعات کو بھی اگرچہ مختصراً بیان کیا ہے لیکن اس سے تحریر طوالت کا شکار ہو گئی ہے اور اصل کہانی سے ربط منقطع ہوتا دکھائی دیا ہے۔
بوڑھا معلم جو زمانے کی حوصلہ شکن ستم زدگیوں کا نشانہ بن کر اضطراب، انتشار اور اضمحلال کا شکار دکھائی دیتا ہے وہ ان دغا باز، مکر و فریب کے عادی سفہا اور ارزال کے ستم پر آہوں کے علاوہ نالے بھی کرتا دکھائی دیتا ہے شاید اس خانہ خراب میں اسے کوئی ایسا سچا مونس و غمگسار میسر نہیں آ سکا جو اس کے دل خزیں کو تسلی و تشفی دے سکے۔
؎ نہیں کوئی دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا
سنائوں کس کو غم اپنا، الم اپنا، بیاں اپنا
(تاباںؔ)
اور وہ چاہتا ہے کہ افسانہ نگار کے قلم سے پوری دنیا کو ان مکروہ چہروں کی حقیقت سے آشنا کر دوں تاکہ کسی اور دلِ مہرباں اور ناتواں کو ایسے کڑے امتحان سے نہ گزرنا پڑے ۔ اور جو بے لوث، بے غرض، مال و زر کی حرص و ہوس سے آزاد انسان جس کے دل میں انسانیت کی محبت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہ ملنے والے ہر زخم پر، ہر جفا پر، ہر دغا پر بھی انسانیت سے محبت کی تاریخ رقم کیے جا رہا ہے اس کے لیے بھی کوئی غم کا درماں ہو کیونکہ اس کے رگ و پے میں سمائی ہوئی محبت اپنے ہونے کا احساس چاہتی ہے ، جو اپنے دلِ بے تاب کے لیے کوئی سفینہ چاہتی ہے، جو اپنے بے کراں غم کے لیے کوئی دفینہ چاہتی ہے۔
محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے!
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو !
نگاہوں سے ٹپکتی ہو، لہو میں جگمگاتی ہو!
ہزاروں طرح کے دلکش، حسیں ہالے بناتی ہو!
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو ایک بیج بوئے
اور شب میں بارہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے!
محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سُننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن
کہو " مجھ سے محبت ہے"
(امجد اسلام امجد)