آج – ۳۰ ؍ جولائی ۱۹۳٤
خمریات کے لئے مشہور جب کہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا، امامِ خمریات ، اردو ادیبوں میں نمایاں اور لسّان الملک و ممتاز شاعر” ریاضؔ خیر آبادی صاحب“ کا یومِ وفات…
نام ریاض احمد تخلص ریاضؔ۔ ’’لسان الملک‘‘ خطاب۔ ۱۸۵۳ء میں خیرآباد ضلع سیتا پور(اودھ) میں پیدا ہوئے۔ ریاض نے فارسی اپنے والد سے پڑھی۔ ابتدا ئے عمر سے ہی انھیں شاعری کا شوق تھا۔ریاض نے پہلے مظفر علی اسیرؔ کی شاگردی اختیار کی، بعد میں امیر مینائی سے اصلاح لی۔ ۱۸۷۲ء میں خیرآباد سے ’’ریاض الاخبار‘‘ جاری کیا۔۱۸۷۹ء میں خیرآباد ہی سے ایک شعروسخن کا ماہ نامہ ’ گلدستۂ ریاض‘ جاری کیا جس کا مقصد شعرا کے بہترین اشعار کی اشاعت تھی۔۱۸۸۳ء میں گورکھپور سے ’فتنہ‘ اور ’عطرِ فتنہ‘ جاری کیا جس میں ادبی لطائف اور ذوق سخن کے لیے کافی مواد ہوتا تھا۔ راجہ صاحب محمود آباد کے اصرار سے مجبور ہو کر مع ’ریاضُ الاخبار‘ کے لکھنؤ چلے آئے۔ریاض نماز پانچوں وقت پڑھتے تھے اور روزے تیسوں رکھتے تھے۔ رنیالڈس کے دو ناول ایک انگریزی داں دوست کی مدد سے اپنی زبان اور اپنے انداز سے ’تصویر‘ ’حرم سرا‘ اور ’نظارہ‘ کے نام سے شائع کیا۔ ’’ریاضِ رضوان‘‘ کے نام سے ریاض کی کلیات شائع ہوگئی ہے۔ ریاض خمریات کے امام کہے جاتے ہیں۔ ۳۰؍ جولائی ۱۹۳۴ء کو خیرآباد میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:226
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
لسان الملک ریاضؔ خیر آبادی کے یومِ وفات پر منتخب مقبول اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
مے خانے میں کیوں یاد خدا ہوتی ہے اکثر
مسجد میں تو ذکر مے و مینا نہیں ہوتا
—
دل جلوں سے دل لگی اچھی نہیں
رونے والوں سے ہنسی اچھی نہیں
—
بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا
—
بھر بھر کے جام بزم میں چھلکائے جاتے ہیں
ہم ان میں ہیں جو دور سے ترسائے جاتے ہیں
—
ایسی ہی انتظار میں لذت اگر نہ ہو
تو دو گھڑی فراق میں اپنی بسر نہ ہو
—
غم مجھے دیتے ہو اوروں کی خوشی کے واسطے
کیوں برے بنتے ہو تم ناحق کسی کے واسطے
—
مے خانے میں مزار ہمارا اگر بنا
دنیا یہی کہے گی کہ جنت میں گھر بنا
—
مہندی لگائے بیٹھے ہیں کچھ اس ادا سے وہ
مٹھی میں ان کی دے دے کوئی دل نکال کے
—
دھوکے سے پلا دی تھی اسے بھی کوئی دو گھونٹ
پہلے سے بہت نرم ہے واعظ کی زباں اب
—
آپ آئے تو خیال دلِ ناشاد آیا
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
—
بات دل کی زبان پر آئی
آفت اب میری جان پر آئی
—
کچھ بھی ہو ریاضؔ آنکھ میں آنسو نہیں آتے
مجھ کو تو کسی بات کا اب غم نہیں ہوتا
—
جانے والے نہ ہم اس کوچے میں آنے والے
اچھے آئے ہمیں دیوانہ بنانے والے
—
ﭘﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺣﺴﯿﻨﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﭼﻮﻡ ﻟﻮﮞ ﺭﯾﺎﺽؔ
ﺁﺝ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﺎﻟﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮍﺍ ﮨﯽ ﻣﺰﺍ ﺩﯾﺎ
—
ﮐﯿﺎ ﺷﺮﺍﺏِ ﻧﺎﺏ ﻧﮯ ﭘﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻋﺮﻭﺝ
ﺳﺮ ﭼﮍﮬﯽ ﮨﮯ ﺣﻠﻖ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
—
ﻣﺮ ﮔﺌﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﮯ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﮐﯽ ﭼﮭﻠﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﭘﯿﻤﺎﻧﮯ ﺳﮯ
—
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻨﮧ ﭼﻮﻡ ﻟﮯ ﮔﺎ ﺍﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮ
ﺷﮑﻦ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺟﺒﯿﮟ ﭘﺮ
—
ﻭﮦ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﻮﻕ ﺗﺠﮭﮯ ﮨﮯ ﻭﺻﺎﻝ ﮐﺎ
ﻣﻨﮧ ﭼﻮﻡ ﻟﻮﮞ ﺟﻮﺍﺏ ﯾﮧ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ
—
ﮨﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﻄﻒ ﺗﻘﺎﺿﺎﺋﮯ ﻣﮯ ﻓﺮﻭﺵ
ﻭﮦ ﻧﻘﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﻮ ﻣﺰﺍ ﮨﮯ ﺍﺩﮬﺎﺭ ﻣﯿﮟ
—
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﻣﻮﺕ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻢ ﮐﻮ
ﯾﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﮯ ﻣﻮﺕ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
—
ﻃﺒﻊ ﮨﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﮮ ﺭﯾﺎﺽؔ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﮔﺎ ﯾﮧ ﺻﻨﻢ ﺧﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
—
ﻭﮦ ﺩﻥ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﯾﺎﺽؔ ﻭﮦ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺭﯾﺎﺽؔ
ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ
ریاضؔ خیر آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ