ریاستیں کیسے چلائی جاتی ہیں ۔
آج میں صبح امریکی امیگریشن کے ایک ادارے میں اپنے فنگر پرنٹس کہ لیے موجود تھا ۔ یہ ایڈیسن شہر جہاں میں رہتا ہوں وہاں سے کوئ ۲۰ میل دور الیزبتھ میں واقع ہے ۔ میں پچھلی دفعہ مارچ ۷ کو یہ کاروائ صرف اس بنیاد پر مس کر گیا کہ اس دن تمام دفاتر برفباری کی وجہ سے بند تھے ۔ آج یہاں بہت شدید بارش ہے لیکن الحمد الللہ آج کام ہو گیا ۔ روز یہاں ہزاروں مختلف ملکوں سے تارکین وطن اس سلسلہ میں آتے ہیں ۔ کیا بہترین نظام ہے ۔ لائن کہ لگے بغیر یا کسی کو پیسہ دے کر معاملہ حل کروانے کا معاملہ ممکن ہی نہیں ۔ بلکل صاف شفاف اور بہت ہی موثر نظام ۔
کل میں اکانومسٹ میگزین میں صومالیہ کی حکومت کی طرف سے سینٹرل بینک کہ گورنر کہ لیے اشتہار دیکھ رہا تھا ۔ وہ صومالیہ جو بدمعاشوں اور ٹھگوں نے کنگال کر دیا ۔ فرقہ وارنہ فسادات سے لے کر سمندری قزاخوں نے لُوٹ لیا ۔ حتی کہ ایک علیحدہ ریاست صومالی لینڈ اسی میں سے بن گئ ۔ اس کہ باوجود نظام کو ٹھیک کرنے کی کیا بہترین کوشش ۔ ہمارے ہاں ابھی باجوہ ہی اسٹیٹ بینک کو چِمڑا ہوا ہے اور کئ اور باجوے عمران کا دُم چھلا بن رہے ہیں اس عہدہ کے لیے ۔ ضیاء کہ زمانے میں اہم اداروں کہ سربراہ کہ لیے برطانیہ کہ فنانشل ٹائمز میں اشتہار آیا کرتے تھے گو کہ بابو لوگ ان کو بھی نہ مانتے اور غلام اسحاق جیسے منشی براجمان ہو جاتے اہم عہدوں پر ۔ مشرف نے ایک کوشش کی تھی لیکن اس کو شوکت عزیز نے ناکام بنا دیا ۔
میں اپنے آج کہ بلاگ میں عمران خان کہ لیے دو مثالیں اپنانے کے کیے مشورہ دوں گا ۔ ایک تو تمام عہدوں کا عالمی اخباروں میں اشتہار اور بے شک صرف پاکستانی نثداد ہی ان کے لیے اپلائ کر سکیں اور شرط یہ کہ وہ غیر ملکی شہریت ترک کرنے کو تیار ہوں ۔ امریکہ اور برطانیہ میں بہترین پاکستانی دماغ بیٹھا ہے ، اور وہ پاکستان کی خدمت بھی کرنا چاہتے ہیں ، عمران پر انکو ٹرسٹ بھی بہت ہے ۔اسی اکانومسٹ میں جہاں صومالیہ کے بینک کے گورنر کے لیے اشتہار چھپا ، وہیں دو صفحاتی عمران پر کالم بھی ہے ۔ جو عمران کو صرف اس بنا پر فیل ہوتا ہوا دیکھ رہیں ہیں کہ نہ ہی ان کہ پاس ٹیم ہے اور نہ ہی مضبوط پلاننگ ۔ اس میں کوئ دو رائے نہیں یہ بات سو فیصد درست ہے ۔ لوگ مختلف اخباروں میں اینکروں کہ زریعے پیسے دے کر اپنے اشتہار لگواتے ہیں ، پھر بنی گالا بلائے جاتے ہیں اور ٹویٹر پر اپنی تعیناتی کا اعلان کرتے ہیں ۔ کیا شوکت خانم کے لیے بھی اسی طرح اسٹاف رکھا گیا تھا؟ جہاں تک مجھے علم ہے بلکل نہیں ۔ تو خان صاحب اس ملک پر رحم کھائیں جو بوڑھے لوگ ستر کی دہائ سے اس ملک کو چمڑے ہوئے ہیں جان چھڑوائیں ان سے جناب ، عطاء الرحمان کہ علاوہ کوئ HEC نہیں چلا سکتا ، اگر وہ مر جائے پھر ؟ کوئ شخص بھی indispensable نہیں ۔ جناب والا ، آپ ایک شوکت خانم سے بہت بڑا ٹرسٹ ہولڈ کر رہے ہیں ۔ ۲۲ کروڑ عوام کی زندگیوں کا معاملہ ہے ، اور آپ تو خود ۲۲ سال سے اس کمان کو حاصل کرنے کہ لیے تڑپ رہے تھے ، کسی نے زبردستی تو نہیں تھوپی نہ ؟ برائے مہربانی ہر عہدہ کے لیے بہترین شخص کو لگائیں اور کوشش کریں انٹرنیشنل سرکٹ سے لیں ۔
دوسرا مشورہ ، کل ہی میں اکانومسٹ میں پڑھ رہا تھا کہ جنوبی کوریا کہ دارالخلافہ سیول کہ میئر پارک وُون سُون ، نے پچھلے مہینے اپنی اہلیہ کہ ساتھ سیول کہ ایک گندے ترین اور غریب ترین علاقے میں ایک مہینہ کہ لیے رہائش کا فیصلہ کیا۔ دو ہفتہ بعد پنکھا لگوایا کیونکہ اس دفعہ سیول کا درجہ حرارت ۴۰ سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا ۔ اور پھر سب لوگوں کو کونسل کی طرف سے پنکھا لگوا کہ دیا ۔ تمام آس پاس کی آبادی میں اس وقت خوشی کی لہر دوڑ گئ تھی جب ۲۶ جولائ کو پارک نے اپنی فیس بُک پر شیمیانگ ڈونگ میں رہائش کا فیصلہ کیا ۔ مریم نواز اور نواز شریف کے کیے موم بتی لبرل مافیا تڑپ رہا ہے کہ جیل میں ایر کنڈیشنر لگوا کہ دیں ۔ اب وقت آ گیا ہے لیڈروں کو میدان میں آ کر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم عام آدمی کہ لیے فکر مند ہیں اور ان کی خوشی غمی میں برابر کی شمولیت۔
بھٹو پہلے لیڈر تھے جنہوں نے یہ کام شروع کیا تھا ۔ اوکاڑہ آئے ساہیوال سے ایک دفعہ گاڑی رکوا کے ساری برفی ایک ریڑھی سے خرید لی پھر دوسری سے ۔ بھٹو سلیٹی رنگ کا قمیض شلوار پہنتے تھے ۔ جو عوام میں بھی مقبول انہوں نے ہی کروایا ۔ آجکل سوشل میڈیا پر ان کا بچوں کہ ساتھ ترانہ گانا بہت وائرل ہوا ہے ۔ میرے ستار کہ استاد اکبر بتاتے تھے کہ جب بھی بھٹو نے باہر جانا ہوتا تھا غیر ملکی دورے پر تو ان کو ساتھ لے جاتے ۔ اپنے ساتھ نشست پر بٹھاتے اور کہتے کہ آپ لوگ پاکستان کی پہچان ہیں ، میں تو برائے نام سربراہ ہوں ۔
کل ہی مجھے کسی نے نئے پاکستان میں کرنسی نوٹوں کی تصویریں بھیجیں ۔ ایک پر عابدہ پروین کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوا ۔ تقریباً سب پر پاکستانی ثقافت کی عکاسی کی گئ ہے ۔ بھٹو نے ہی لوک ورثہ کا سیٹ اپ دیا ۔ مختلف صوبوں کہ فلوٹ ہم چھوٹے ہوتے فورٹریس کہ عوامی میلہ میں دیکھتے تھے ۔
خاں صاحب آپ بھی غریبوں کہ ساتھ رہنا شروع کر دیں ۔ ان ہی کی طرح ان ہی کہ درمیان تا کہ آپ کو ان کہ دکھ درد کا اندازہ ہو ۔ وہ آپ کو اپنے ساتھ ریلیٹ کر سکیں ، اور ان کی محرومیاں دور ہو سکیں ۔ ابھی تو بہت فاصلے ہیں آپ اور اُن کہ درمیان ۔ وہ اچھوت ٹھہرے اور آپ سرخاب کہ پروں والے ۔یہ امتیازی سلوک ختم کر دیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، قبل اس کہ کے کچھ بھی نہ بچے ۔
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔