پچھلے دنوں میں نے امریکہ کی پوسٹل سروسز کے تحریری امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ۔ کوئ پاکستان کے سی ایس ایس یا NTS کی طرح کا امتحان نہیں تھا بلکہ ٹوٹل محکمہ کے امور پر فوکس امتحان ۔ جانکاری کی کوشش تھی ، کے محکمہ کا معاملہ کتنا آپ کے بھیجے میں سمجھ آتا ہے؟ نیگئٹو مارکنگ بھی تھی تا کہ ٹُلے نہ لگائے جا سکیں ۔ آج اُسی کی ایک اور کڑی نیویارک سٹی کے ایک خوبصورت ٹاؤن Babylon میں انٹرویو اور مزید سکریننگ تھی ۔ جب صبح یہاں پہنچا تو بیبیلون دیکھتے ہی کالج زمانہ کا BonyM گروپ کا مشہور گانا By the rivers of Babylon یاد آگیا ۔ ریاست نیویارک میں کوئ ایک ہزار کے قریب ایسے خوبصورت ٹاؤن ہیں ، الفاظ ختم ہو جاتے ہیں ان کی رنگینی اور دلکشی بیان کرتے کرتے ۔ انٹرویو سے فارغ ہوتے ہی Jack Jack’s کافی بار آ گیا ۔ یہاں ایک یوگیوں کا مراقبہ کا سیشن ہو رہا تھا ، اور کیا چاہیے تھا ، شکر خورے کو اللہ تعالی شکر دے ہی دیتا ہے ، مزہ آ گیا ۔ زیادہ تر نوجوان نسل کے لوگ ۔ یہی نسل روحانی انقلاب لائے گی اور وہ بھی امریکہ سے ، آپ کو یقین آئے نہ آئے ۔ امریکہ وہ واحد دنیا کی ریاست ہے جو اپنے قیام سے اب تک evolve ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی ۔
آج انٹرویو سے پہلے ایک لیکچر کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ کوئ پندرہ کے قریب امیدواروں کو یہ بتایا گیا کہ نوکری سے پہلے زرا مزید سوچ لیں کے آپ کیا اس جاب کے لیے فٹ ہیں اور کرنا چاہتے ہیں ؟ کہیں ۹۰ دن کی پروبیشن کا حکومتی /tax payer کا پیسہ ضائع نہ ہو جائے ۔ ہمارے ہاں تو کوئ ڈاکٹر اور انجینئر سے یہ پوچھتا ہی نہیں کے بھائ صاحب آپ کی تعلیم تو حکومت پاکستان نے subsidise کی تھی اور آپ نے سیٹ بلاک کر کے کسی اور کا حق بھی مارا جو اب نجانے کہاں دھکہ کھا رہا ہو گا اور بیوریوکریسی کی بدمعاشی سے مزید گند ملک میں پھیلایا ہو گا ۔ آجکل فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا چیرمین بھی ایک ایسا ہی شخص ہے ۔ ویسے تو شریف النفس آدمی ہے ، لیکن وہ بھی ڈاکٹر تھا اور طاقت کے لُطف اٹھانے کے چکر میں شہر کی طرف چل دوڑا اور سی ایس ایس کا امتحان دے ڈالا ۔ اب بیچارہ نئے پروفیشنلز کو سی ایس ایس کرنے سے کیسے باز رکھ سکے گا ، خود بھی تو وہ میٹھا چکھ بیٹھا جس نے وطن کی روح کو بیمار کر دیا ۔
آج کا لیکچر دینے واے نے مزید واضح کیا کے امریکی پوسٹ آپ سے کیا expect کرتی ہے اور اس کے بدلے پوسٹ آپ کے لیے کیا کچھ کر سکتی ہے ، غور سے سُن لیں ۔ کسی حسین خوابوں کی دنیا میں نہ رہیں ۔ دراصل امریکہ کے سرکاری ادارے پاکستان کی طرح مفتا پروگرام نہیں ۔ امریکی پوسٹ پانچ لاکھ ملازمین کے ساتھ وال مارٹ اور فوج کے بعد تیسرا بہت بڑا employer ہے ۔ گورے کی تقریر کی جس بات نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کے آپ جن چیزوں کے لیے زمہ دار ہوں گے اگر ان میں کوئ کمی کوتاہی ہوئ تو قیامت کا انتظار نہیں ہو گا ، فورا ، سیدھا اندر ۔ کسی بھی ڈاک کے لفافہ سے ایک بھی کاغز اگر چوری ہو گیا اور آپ مجرم نکلے تو ۳۰ سال قید اور پورے امریکہ کی ۵۰ ریاستوں میں بلیک لسٹ ۔ امریکی پوسٹ کی ایک اپنی پوسٹل انٹیلیجینس سروس بھی ہے جس کا جی پی ایس سسٹم دنیا کا بہترین سمجھا جاتا ہے اور اس کی اکثر امریکی سی آئ اے اور دوسرے ادارے بھی اسپورٹ لیتے ہیں ۔ لیکچرر نے کہا کے کام کے وقت کام ہو گا اور ایک بھی نانی ، دادی مرنے کا بہانہ نہیں چلے گا ۔ آج ہی بتا دیں کتنی دادی دادیاں ہیں تا کہ سب کا وقت بچ سکے کیونکہ ہمارے لیے وقت ہی پیسہ ہے ۔
میں نے اور عامر نزیر نے اپنے بلاگز میں پچھلے دنوں ہی عمران خان کو مخاطب کر کے یہ لکھا تھا کے خدارا اب وقت آ گیا ہے ، پاکستان میں کلو نیل بیوریوکریسی کی بجائے پروفیشنل بیوریوکریسی کو لانے کا۔ کتنی دیر ریاست کو ابھی اور لُوٹنا ہے ؟ آخر کسی کو accountable تو بنانا ہو گا؟ کے JITs پر ہی گزارا کرنا ہے ؟ لہزا جتنی جلدی ہو سکے ، سارے کا سارا سسٹم آٹو پر لے جائیں ۔ آن لائین کر دیں ، سیٹیزن پورٹل جیسا نہیں بلکہ جاپانی سیٹیزن گھڑی جیسا ۔
ہم عابد باکسر اور راؤ انوار کو تو گولی مار نہ سکے لیکن نہتے معصوم لوگوں پر گولیاں چلا کر ابھی بھی سینہ چوڑا کر کے چلتے ہیں “اوہ جی خان دے نعرے وجن گے “۔ آج میرا کچھ دوستوں کے ساتھ ساہیوال کے ریاستی قتل پر پاکستان کی نیویارک کی قونصلیٹ کے سامنے احتجاج کا پروگرام تھا لیکن یہاں ہی اتنی دیر ہو گئ اور اوپر سے کسی نئے شہر کو دیکھنے میں ، جب تک میں اس کے دل میں نہ اُتروں مزہ نہیں آتا ۔
اسی Boney M کے گانے میں Zion کی دھرتی کا تو رونا ہے ہی مزید اس سے دور رکھنے والوں کے دھونس ، دھاندلی اور دھوکہ کا نوحہ بھی ہے ، جس کو مولوی صیہونی طاقتیں کہتا نہیں تھکتا ؛
“When the wicked carried us in captivity “
اس وقت ۲۲ کروڑ پاکستانی ان ایک لاکھ wicked کے چُنگل میں ہیں ۔ ۲۲ کروڑ کی خاموشی معاملات کو مزید گھمبیر بنائے ہوئے ہے ۔ کب تک ؟ وقت ہی بتائے گا ، لیکن وقت بہت ہی بے رحم ہے کسی کا انتظار نہیں کرتا ۔ مگر دل ہے کے مانتا ہی نہیں ، بقول ثاقب لکھنوی ۔
“آدھی سے زیادہ شب غم کاٹ چُکا ہوُں
اب بھی اگر آ جاؤ تو یہ رات بڑی ہے “
میرا اس رات پر یقین ہے ، آپ ۲۲ کروڑ کا منتظر رہوں گا ، ایک روشن اور سب کا پاکستان دیکھنے کی خاطر ۔ پاکستان پائیندہ باد !
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...