بلاول صاحب نے فرمایا کے ریاستیں چندہ سے نہیں چلتیں تو جناب ریاستیں قانون کی حکمرانی کے بغیر بھی نہیں چلتیں ۔ اب آپ کے ابا جان کی باری ہے حساب کتاب کی ، جن سے بقول کلاسرا صاحب آپ نے کبھی پوچھنا ہی گوارا نہیں کیا کے یہ سارا مال دولت کہاں سے آیا ؟ یہ کیسی عیاشیاں جب تھر میں موت کا رقص جاری ہے ۔
کل چین نے اپنے ہی انٹرپول میں نامزد چینی کیمونسٹ پارٹی کے اعلی عہدیدار چیف آف انٹرپول ، مینگ ہانگ وی ، کو گرفتار کر لیا ۔ مینگ کی بیوی فرانس میں چیخ چلا رہی ہے جہاں وہ آخری وقت دیکھا گیا تھا ۔ اس پر کرپشن کا الزام ہے ، کچھ چینیوں کو باہر دوڑانے کا اور کچھ کو پیسہ لے کر تحفظ فراہم کرنے کا ۔ یہاں امریکہ میں امریکی ریاست آر کینساس کے سینیٹر کو اگست میں اس وقت استعفی دینا پڑا جب اس پر اثاثے چھپانے کا اور کرپشن کا الزام ایف بی آئ کو تحقیق کے لیے بھیجا گیا ۔
جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ ، اگر ریاست کو صاف ستھرے طریقے سے چلانا ہے تو قانون سب کے لیے برابر ہونا ہوتا ہے اور کسی شخص کو قانون سے بالا تر نہیں گردانا جاتا ۔ پاکستان میں ۱۹۵۴ میں کچھ لوگوں کو نظریہ ضرورت کے تحت قانون سے بالا تر سمجھا گیا جس سے ایسی بُری ریت پڑی کے اب مجرم وکٹری کے نشان بناتے ہیں ، ان کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور ان کی اولادوں نے نوجوان نسلوں میں #so what
کلچر کو فروغ دیا ۔ جب میں نے جج فرخ عرفان کے پاناما کیس پر سپریم جیوڈیشل کونسل میں اس کے خلاف درخواست دی اس کی فیملی اور عزیز و اقارب نے کہا who cares ۔ یہی وہ چیز ہے جو قدرت کے خلاف ہے ، قدرت کو پسند نہیں ۔ پھر اس کے اوپر زبردست قسم کی منافقت کا تڑکہ ، اوپر نیچے حج اور عمرے ، ہسپتالوں اور اسکولوں کو چندے ، امجد ثاقب جیسے لوگوں کی پرورش ۔ لیکن ہمیشہ قدرت جیتتیی ہے۔ آپ اس کے تابع ہیں جتنا مرضی تیس مار خان بن جائے ۔
کل اتوار چھٹی تھی ، مجھے کان میں تکلیف تھی میں اپنے بیٹے کے ساتھ ایک urgent care سینٹر میں چلا گیا ۔ راستے میں اسے میں نے کہا
“What do you think engineers would decide the fate of this world?”
اس نے فورا کہا
“I think social engineering “
بلکل درست کہا اس نے ، کیونکہ انسان social animal ہے ۔ اس کی inter dependence ہے ایک دوسرے کے ساتھ بھی اور پوری کائنات کے ساتھ بھی ۔ بغیر کسی قسم کی سوشل انجنیرنگ کے معاملات حل ہوتے دکھائ نہیں دیتے ۔ عمرانی معاہدے کی تو حکمرانوں نے دھجیاں بکھیر دی اور مستقبل میں نئے اس قسم کے معاہدہ کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی ۔ لوگ حکمرانوں پر ٹرسٹ کھو گئے ہیں وہ لاکھ جتن کر لیں ۔
احتساب کی آگ میں اب اشرافیہ اور بدمعاشیہ کو جلنا ہو گا ، خواہ وہ جنرل ہو ، جج ، وزیر اعلی یا وزیر اعظم ۔ احتساب کے بغیر ریاست کا پہیہ آگے نہیں بڑھے گا ۔ عمران خان نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں یہ بات کہی تو سب نے اس کا مزاق بنایا ، اس کی تقریر کو بلاول کی احماقانہ تقریر پر ترجیح دی ۔ اب دیکھتے ہیں کے بلاول اسمبلی میں انگریزی بول کو کیسے اپنے ابا جی کو جیل کی سلاخوں سے بچاتے ہیں ۔ میٹر ریڈر بھی کانپ رہا ہے ۔ سب حرامیوں کو دست لگ گئے ہیں ۔ جنہوں نے کھائ گاجریں پیٹ تو اب انہیں کے درد کریں گے ۔
عمران اس تقریر کے بعد کچھ قدم پیچھے ہٹا اور ان میں سے کچھ گند کے ڈھیروں کو اہم عہدوں بھی پر فائض کر دیا ۔ نتیجہ کیا نکلا صفر ۔ کیونکہ ریاست کا پہیہ ستر سالہ گند نے جام کر دیا ہوا ہے ۔ یہ گاڑی اب آگے چلنے کو نہیں ۔ جب تک وہ گند صاف نہیں ہو گا ریاست دلدل میں پھنستی جائے گی ۔ جتنا مرضی امجد ثاقب جیسا lubricant لگا لیں، اب کچھ نہیں بچانے کو سوائے احتساب کے ۔ عمران کو ویسے امجد ثاقب کو صدر لگانا چاہیے تھا تاکہ خود بھی اس پیہہ کے نیچے آتا اب تو وہ اسحق ڈار کی طرح تعفن پھیلا کر پتلی گلی سے نکل جائے گا ۔ تیسری دنیا کے کسی اور ملک میں یہ گند پھیلانے پہنچ جائے گا ۔
پاکستان میں ۲۲ کروڑ عوام کے لیے حکمران اور فوج irrelevant ہوتی جا رہی ہے ۔ جنرل غفور ٹِل کا زور لگا رہے ہیں سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ محب فوج ٹرولرز اکٹھے کرنے میں ۔ ایسا نہیں ہوتا اس طرح کے کاموں میں ۔ اب مزید لولی پاپ نہیں چلیں گے ۔ لوگوں کے پاس بچا ہی کچھ نہیں بے وجہ آپ کو پوجنے کے ۔ کسی کے اکاؤنٹ سے کروڑ نکل رہا ہے کسی کے سے ارب ، طارق باجوہ سے پوچھنا ہو گا کے آپ پچھلے دس سال سے اسحاق ڈار کے سب سیاہ و سفید میں برابر کے شریک رہے ، زرا آئیں حساب دیں ۔ ۲۰۱۰ میں پنجاب کے سیکریٹری خزانہ سے ایف بی آر کے چیرمین ، پھر وفاق کے سیکریٹری کامرس اور خزانہ اور اب اسٹیٹ بینک گورنر ۔ ریاست کے اصل اختیارات تو آپ کے ہاتھ میں تھے ۔ آپ ڈار کو اندر تو کروا سکتے ہیں ، لیکن اصل ملزم تو آپ ہیں ۔ نیب قانون میں تو facilitator کی سزا beneficiary سے زیادہ ہے ۔ کچھ احمق لوگ فواد اور احد چیمہ کے وعدہ معاف گناہ بننے کی افواہیں پھیلا رہے ہیں ۔ ایسا ممکن نہیں ۔ احد چیمہ کیوں گریڈ ۱۸ میں پنجاب کا ایڈمینسٹریٹو سیکریٹری لگ گیا تھا درجنوں سینیرز کو نظر انداز کر کے ؟ صرف اس لیے کے سینیر افسر اگر لگتا ، اس نے شہباز شریف کو قانون پڑھانا تھا ۔ ناصر کھوسہ چیف سیکریٹری پنجاب احد چیمہ کو سر کہ کر پکارتا تھا ۔ انہیں دنوں مجھے پرائویٹائزیشن کا چیرمین بنایا ، میں نے دیکھا کے قانون ہی نہیں نجکاری کا یہ تو غیر آئینی ہو گی اگر نجکاری اس کے بغیر کی گئ ۔ شہباز نے کہا یہ بورڈ دس سال سے غیر آئینی ہے ؟ میں نے کہا بلکل ، طارق حمید جیسوں نے شوگر ملیں کیونکہ آپ لوگوں کو دینی تھیں تو قانون بنوایا ہی نہیں ۔ جس دن نواز شریف نے کہا تھا کے اگر میں نے اپنے زرائع آمدن سے زیادہ کے اثاثے بنا لیے ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ؟ مجھے کوئ تعجب نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ انہوں نے اسی پس منظر میں کہا تھا ۔ اللہ تعالی سے میری دعا ہے کے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو مالی طور پر قتل کرنے والوں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچا۔ آمین
یہ کام چاہے عمران کرے ، یا ثاقب نثار یا فوج ، اب ناگزیر ہو گیا ہے ، کیونکہ اس کے بغیر ریاست آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ بہت ہو گیا ظلم ۔
پاکستان پائیندہ باد
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...