کیا یہ سوچنے کی بات نہیں کہ قائداعظم نے ایک ملک بنا کر دیا لیکن بعد میں آنے والوں نے اسے تجربہ گاہ کیوں بنا دیا؟ ہمارے ساتھ یا بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہم سے کہیں آگے نکل گئے لیکن ہمارے تجربات ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے کہ ہمارا نظام حکومت کیسا ہونا چاہیئے۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت پارلیمانی ہو گا لیکن ہر دس پندرہ برس کے بعد کسی سیانے کو یاد آتا ہے کہ پارلیمانی طرز حکومت پاکستان کے لئے ٹھیک نہیں لہذا پاکستان میں صدارتی طرز حکومت رائج ہونا چاہیئے۔ طرز حکومت جیسا بھی ہو اس کی بنیاد صاف شفاف انتخابات ہوتے ہیں لیکن کیا کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ پاک وطن میں کبھی صاف شفاف انتخابات منعقد ہوئے ہیں؟ انیس سو ستر کے انتخابات کو کسی حد تک صاف شفاف انتخابات کہا جاتا ہے لیکن الزام تو یہ بھی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔ ملک دو لخت ہونے کے عوامل جو بھی تھے وہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد صاف شفاف انتخابات سے پوری طرح توبہ کرلی گئی اور اس کے بعد ہونے والے ہر قومی انتخاب میں کسی حد تک انجنئیرنگ کی جاتی رہی کسی میں کم کسی میں زیادہ لیکن ہرانتخاب میں خفیہ ہاتھ اپنے ہاتھ کی باریکی ضرور دکھاتے رہے۔ ایسا بھی ہوا کہ اگر کسی ناپسندیدہ سیاسی جماعت کو انتخابی انجنئیرنگ سے روکنا ممکن نہ رہا تو اس کی جیت کے تناسب کو اس حد تک کم کر دیا گیا کہ جیت بے معنی ہو کر رہ گئی۔
ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں حکومتیں اور وزرائے اعظم ہمیشہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے آتے رہے لیکن ہمارے ملک میں چند وزرائےاعظم اور حکومتوں کو چھوڑ کر زیادہ تر وزرائے اعظم ایسے ہی ہیں جو لیبارٹری میں تیار ہوئے اور ایک تجربے کے طور پر لانچ کر دئیے گئے۔ لیبارٹری کے تجربات اس حد تک ناکام رہے ہیں کہ ریاست ان تجربات کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے۔ ان ناکام تجربات نے ریاست کی جو تباہی کی ہے وہ تو اپنی جگہ ہے لیکن یہ ناکام تجربات خود لیبارٹری کے لئے خطرہ بن کر لیبارٹری سے بھی ٹکراتے رہے۔ بار بار کے ناکام تجربات اور اپنی ناکامیوں سے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے ہر ناکام تجربے کے بعد لیبارٹری میں ایک اور نئے تجربے کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔
کہا تو جاتا ہے کہ اب یہ لیبارٹری بند کر دی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لیبارٹری نے اپنے ان ناکام تجربات سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور لیبارٹری میں یہ تجربات آج بھی جاری ہیں۔ سوال تو بنتا ہے کہ اگر لیبارٹری بند ہو گئی ہے اور مزید تجربات نہیں کئے جا رہے تو لیبارٹری کے ناکام تجربے تحریک انصاف کے لوگ غائب ہونے کے بعد لیبارٹری کی نئی پیشکش استحکام پاکستان پارٹی کے پاس سے کیوں برآمد ہو رہے ہیں۔ اگر لیبارٹری واقعی بند ہو گئی ہے تو پنجاب میں الیکٹیبلز کو پیپلزپارٹی میں شمولیت سے کیوں روکا جا رہا ہے اور انہیں استحکام پاکستان پارٹی کی جانب کیوں دھکیلا جا رہا ہے؟ اگر لیبارٹری نے اپنا کام بند کر دیا ہے تو لیبارٹری کی تیارکردہ چھوٹی جماعتوں کو اتحاد کے لئے لیبارٹری کی پرانی اور آزمودہ پراڈکٹ ن لیگ کی جانب کیوں دھکیلا جا رہا ہے؟ اگر لیبارٹری بند ہو گئی ہے تو پنجاب کی ساری انتظامیہ ڈپٹی کمشنر سے لے کر پٹواری تک ن لیگ کے امیدواروں کے ماتحت کیوں ہے؟ اگر لیبارٹری بند ہو گئی ہے تو مریم اورنگزیب کیوں کھلم کھلا یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ہماری حکومت پانچ سال کے لئے نہیں ہو گی بلکہ دس سے پندرہ سال کے لئے ہو گی۔ لیبارٹری کا پرانے اجزائے ترکیبی کے ساتھ کیا جانے والے یہ نیا تجربہ کہیں پراڈکٹ عمران خان کا ہی تسلسل تو نہیں جس میں صرف سلیکٹڈ کی تبدیلی کر کے اپنی ہی ایک پرانی پراڈکٹ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ لانچ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ لیبارٹری اگر نت نئے تجربے کرنے سے باز آ چکی ہے تو ن لیگ کے اپنے سنئیر رہنما جاوید ہاشمی یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ن لیگ کو تو خود سے ٹکٹ دینے کی بھی اجازت نہیں ہے بلکہ ٹکٹوں کی لسٹ پہلے وہاں جائے گی جہاں ن لیگ کے رہنما ثنااللہ کے بقول ساڈی گل ہو گئی اے اور وہاں سے ن لیگ کے امیدواروں کی ٹکٹوں کی منظوری دی جائے گی۔
ن لیگ کے ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا والے بیانئیے کے بعد سمجھا یہ جا رہا تھا کہ ن لیگ شائد لیبارٹری کے اثر سے آزاد ہو چکی ہے لیکن ن لیگ کی مجوزہ ڈیل کے بعد ن لیگ کے سنجیدہ اور جمہوریت پسند لوگوں کے لئے سوچنے والی بات ہے کہ نوازشریف تین دفعہ وزیراعظم رہنے کے باوجود لیبارٹری کے ایک نئے تجربے کے طور پر چوتھی دفعہ ایک ایسا وزیراعظم کیوں بننا چاہ رہے ہیں جس پر پہلے دن سے ہی لاڈلہ اور سلیکٹڈ کا لیبل لگا ہو گا۔ کیا یہ نواز شریف کے لئے سوچنے کا مقام نہیں کہ اپنی سیاسی اننگز کا اختتام وہ ایک سلیکٹڈ وزیراعظم کے طور پر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ نواز شریف اپنے چار پانچ سال پرانے ووٹ کو عزت دو والے بیانئیے پر قائم رہتے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اچھا جمہوری تاثر چھوڑ کر سیاست سے ریٹائر ہو جاتے لیکن مسئلہ وہی ہے کہ لیبارٹری میں تجرباتی طور پر بنائے گئے سیاستدان لاکھ کوشش کر لیں وہ اپنی اس ہئیت ترکیبی سے جان نہیں چھڑا سکتے جو لیبارٹری میں ان کو تیار کرنے کے دوران استعمال ہو چکی ہوتی ہے۔ میثاق جمہوریت جیسا کوئی تاریخی معاہدہ بھی انہیں جمہوری چلن پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ان سیاستدانوں کو جب موقعہ ملتا ہے جمہوری کھال اتار کر اپنے اصل کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔
لیبارٹری کی جانب سے بار بار کئے جانے والے تجربات نے جینوئین سیاسی جماعتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی جیسی ملک گیر سیاسی جماعت جو وفاق کی علامت اور چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جاتی تھی اسے کئی برسوں سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنے احیائے نو کا چیلنج درپیش ہے۔ پتہ نہیں قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنا اور فرقہ واریت اور لسانیت کو فروغ دینے والی جماعتوں کی پشت پناہی کرنا کون سی حب الوطنی ہے۔ کون اس کھلے راز کو نہیں جانتا کہ ان فرقہ پرست اور لسانی جماعتوں کو کس لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے۔ ان جماعتوں نے ریاست کو کمزور کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ان فرقہ پرست اور لسانی جماعتوں نے عام شہریوں کا خون بہانے سے بھی کبھی دریغ نہیں کیا۔ ہر چند سال کے بعد ان جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا ہے گونگلووں سے مٹی جھاڑی جاتی ہے لیکن پھر کوئی طالع آزما یا سلیکٹڈ حکومت آتی ہے تو ان جماعتوں کو دوبارہ جھاڑ پونچھ کر میدان میں لا کھڑا کیا جاتا ہے، کچھ نئے گروپس بن جاتے ہیں اور معصوم شہریوں کی جان و مال سے کھلواڑ دوبارہ سے شروع ہو جاتا ہے۔ کس کس فرقہ پرست اور لسانی جماعت کا نام لیں سب ہی کے ہاتھ معصوم شہریوں کے خون ناحق سے لتھڑے ہوئے ہیں۔
ریاستِ پاکستان کے زوال میں میں عدلیہ نے بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا ہے۔ نظریہ ضرورت عدلیہ ہی کا عطا کردہ تحفہ ہے۔ عدلیہ کا نظریہ ضرورت کا ہتھوڑا ہمیشہ سے لیبارٹری کی جانب سے کئے گئے تجربات کو سندِ تصدیق جاری کرتا رہا ہے۔ عدلیہ اگر شروع سے ہی اپنا کردار منصفانہ طریقے سے ادا کرتی اور نظریہ ضرورت سے کام نہ لیتی، لیبارٹری کے ان تجربات کو آغاز میں ہی روک دیا جاتا تو ریاست تجربہ گاہ بننے سے محفوظ رہ سکتی تھی لیکن عدلیہ کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک نادر شاہی فیصلہ موجود ہے جس نے لیبارٹری کو تو مضبوط کیا ہے لیکن ریاست کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔
موجودہ چیف جسٹس کی جانب سے عدلیہ کی ساکھ کی بحالی کے لئے کم وقت میں چند ایسے کام ضرور کئے گئے ہیں جنہیں کرنے سے پہلے والے چیف جسٹس گھبراتے رہے۔ موجودہ چیف جسٹس اگر نیک نیتی سے عدلیہ کی ساکھ پر اٹھنے والے سوالوں کے جواب دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو عدلیہ کی ساکھ میں بھی بہتری آئے گی اور مستقبل کے لئے عدلیہ کے کردار کا بھی تعین ہو جائےگا۔
محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان طے پانے والا میثاق جمہوریت ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی مدد سے لیبارٹری کی جانب سے کئے جانے والے نت نئے تجربات کی روک تھام کی جانب ایک بہت بڑی پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ لیکن افسوس میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کیا جا سکا۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کے حقوق، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، آئین کی بحالی اور پارلیمان کی بالادستی جیسے امور تو ضرور طے گئے گئے لیکن میثاق جمہوریت کی بہت ساری شقوں پر بوجوہ عمل نہ ہو سکا۔ چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم کے قیام کے موقع پر ایک نئے میثاق جمہوریت کا بھی ذکر کیا تھا اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
حالات کی ستم ظریفی مگر یہ ہے کہ ایک نیا میثاق جمہوریت تو ایک طرف رہا، پہلے والے میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والے اور اٹھارویں ترمیم منظور کروانے میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دینے والے میاں نواز شریف کی مجوزہ ڈیل کے بارے جو باتیں سامنے آ رہی ہیں ان میں کہا جا رہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کو ختم کرنا بھی ڈیل میں شامل ہے۔ ن لیگ کی جانب سے ان خدشات کا کوئی واضح اور دو ٹوک جواب ابھی تک سامنے نہیں آ سکا۔ ان خدشات کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ لیبارٹری والوں نے اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے وسائل کی صوبوں کو منصفانہ تقسیم کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا اس لئے اگر میاں نواز شریف واقعی لیبارٹری والوں سے کوئی ڈیل کر چکے ہیں تو اٹھارویں ترمیم کا وجود یقینا خطرہ سے دوچار ہے کیونکہ اٹھارویں ترمیم میاں نواز شریف کا درد سر کبھی بھی نہیں رہی۔ اٹھارویں ترمیم کی منظوری میں میاں نواز شریف کی واحد دلچسپی تیسری مرتبہ وزیراعظم نہ بننے والی شق کا خاتمہ تھا۔
لیبارٹری کے پے در پے ناکام تجربات کے باعث ریاست جس زوال کا شکار ہو چکی ہے اس سے نکلنے کے لئے لیبارٹری کو اپنے تجربات بند کرنے ہوں گے اور عوام کو تجربہ کرنے کا موقعہ دینا ہو گا۔ سب کو یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ تجربہ وہی کامیاب ہو گا جو عوام کریں گے۔ عوام کو انتخابات کے ذریعے تجربہ کرنے دیں۔ ان کے تجربے کا احترام کریں تو یقیناً عوام کا تجربہ کامیاب ہو جائے گا۔ یہاں یہ حقیقت تسلیم کرنی بھی ضروری ہے کہ لیبارٹری ہو یا سیاسی جماعتیں ان سب کا اپنا ایک کردار اور دائرہ کار ہے اور یہ سب ریاست کی مضبوطی کی ضامن ہیں لیکن ان سب کو اپنے آئینی کردار تک محدود رہنا ہو گا۔ اگر ایسا ہو گا تو ریاست مضبوط ہو گی اور اگرایسا نہ ہوا لیبارٹری کے نت نئے تجربات جاری رہے اور لیبارٹری کو سیاسی جماعتوں سے کمک ملتی رہی تو ریاست کے زوال کی جانب پیش قدمی بھی جاری رہے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...