ایک جیسے وعدے ایک جیسے دعوے او رانجام بھی کم وبیش ایک جیسا ہی نظر آرہا ہے ۔اب سے چار برس قبل جب حکومت سنبھالی گئی تو قوم کو بتایا گیا کہ قومی خزانہ خالی اور معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ ملکی معیشت ترقی کررہی تھی اور ترقی کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے ہیں یہی الفاظ چار سال بعد 2022 میں عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد دہراے گئے مگر بولنے والے کردار بدل گئے ۔اس بار اقتدار میں آنے والی جماعتوں نے ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں مل کر چلنے کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ وہ سیاست نہیں ریاست بچانے کی خاطر باامر مجبوری اقتدار سنبھال رہے ہیں کیونکہ ملکی خزانہ خالی اورمعیشت زبوں حالی کا شکار ہے ۔مفتاح کی پرخلوص کوشش اور ڈار کی بھرپور اڈاریوں کے باوجود فاقہ کشی ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ،کشکول ہے کہ ہاتھوں سے ہی جیسے چپک گیا ہو،خزانہ توجیسے کسی بھوکے کا پیٹ ہوگیا کہ سو جتن کے باوجود بھرنے کا نام نہیں لے رہا۔
ڈالر ہے کہ ضد ہی کرگیا کہ مزید نیچے نہیں جانا ،رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی گویا سرمنڈاتے ہی اولے پڑے بجائے بہتری ہونے کے الٹا حکومت کو امداد کے نام پر خرچ کرنا پڑ گیا۔یہ تو شکر ہے کہ سعودی عرب نے ڈیپازٹ رقم کو مزید کچھ مدت رکھنے کی اجازت دے دی وگرنہ حالات مزید دگرگوں ہوجاتے ۔جبکہ آئی ایم ایف کے مطابق ہماری معاشی صورتحال انتہائی خستہ اور تشویش ناک ہے ۔ان کے مطابق معاشی حالت میں سدھار کی خاطر حکومت کو ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ، محصولات میں اضافہ سمیت نان فائیلر کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔مذاکرات مکمل ہونے کے بعد آئی ایم ایف کا اعلامیہ صورتحال کی سنگینی کو واضح کررہا ہے ۔ملکی معیشت مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے عام شہری بھی دوہری مشکلات کا شکار ہے ایسے میں مالیاتی ادارے کی تجاویز پر عمل درامد تباہ کن ہوسکتا ہے ۔اقتدار کے حصول کے وقت سیاست نہیں ریاست کا نعرہ مستانہ لگانے والے بھی سوچ رہے ہیں کہ کہاں پھنس گئے ۔
بے چینی اور پریشانی یکطرفہ نہیں بلکہ برابر کی آگ لگی ہوئی ہے حکومت کی طرح اپوزیشن بھی مشکلات کا شکار ہے۔حکومت گئی ،لانگ مارچ ہوگیا ، حقیقی آزادی مارچ جس عطار کے لونڈے سبب بیمار ہوے اسی سے دوائی لینے جڑواں شہروں تک پہنچ گیا ۔گئے تھے وفاقی حکومت گرانے اور الیکشن کی تاریخ لینے اور اپنی صوبائی حکومتیں گرانے کا اعلان کرکے واپسی کی راہ لی۔مطلب پورس کے ہاتھی بن کے اپنی ہی صوبائی حکومتوں کو روندنے کا منصوبہ پیش کردیا۔ایسے میں سپاہ کا سالار کیا بدلا بہت کچھ ہی بدل گیا۔اب دھمکی ہے کہ الیکشن کی تاریخ دو وگرنہ اسمبلیاں توڑ دیتا ہوں۔اب تاریخ کون دیتا ہے لہذا صوبائی اسمبلیا ں توڑنے کا آخری آپشن آن بچاہے ۔سب جانتے ہیں کہ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردیں تو گھر سے نکلنا محال ہوجائے گا لہذا خاطر جمع رکھیں معاملہ دھمکیوں تک ہی محدود رہے گا ۔
یہ تو ہوگی سیاست اور معیشت کی بات لگے ہاتھوں اُن کی بات بھی کرلیں جن کی وجہ سے یہ سب وبال کھڑا ہوا ہے یعنی عوام ۔کیا زندہ دل لوگ ہیں جیسی بھی سہی پھر بھی زندگی جیئے جارہے ہیں ۔گیس نہیں ہے ، مہنگائی اپنے عروج پر ہے امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے سکیورٹی فورسز پر حملے ہورہے ہیں سیلاب زدہ علاقوں میں لوگ ابھی تک کیمپوں میں زندگی گذار رہے ہیں مگر مجال ہے کہ ماتھے پر شکن آئی ہو۔ایسی زندہ دل عوام کے نزدیک جو کل تک برسراقتدارتھے وہ زندہ باد تھے جو آج ہیں اور جو آنے والے دنوں میں ہوں گے سب زندہ باد ہیں ۔رہی بات مسائل اور مشکلات کی تو اس کے لیئے نصیب ہے ناں بس نصیب میں لکھا تھا تو یہ سب ہورہا ہے مطلب اللہ اللہ خیر صلا۔
اب اس ساری گفتگو کا حاصل کیا ہے نتیجہ کیا نکلے گا ۔تو عزیزان من عرض یہ ہے کہ معاشی طورپر پلے نئیں دھیلا تو کردی میلہ میلہ والی بات ہے خزانہ خالی ہے لہذا حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیئے فی الحال کچھ نہیں ہے ۔رواں مالی سال مزید نئے ٹیکسز لگیں گے مزید مہنگائی ہوگی ۔عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔حکومت سیاست نہیں ریاست بچاو کا چورن بیچے گی اور اپوزیشن حقیقی آزادی کے حصول کا چورن بیچے گی۔دونوں کا چورن بکے گا کہ دونوں طرف گاہک بہت ۔رہی بات سیاست کی تو نا ہی فی الوقت حکومت الیکشن کی تاریخ دے گی اور نا ہی کپتان صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرئے گا۔کپتان کو علم ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں دے دیں تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آنا لہذا بیان بازی تک معاملہ رہے گا۔
تو پھر اس صورتحال سے نکلنے کا حل کیا ہے تو اس کے لیئے ایک حل توسابق صدر آصف علی زرداری نے عاصمہ شیراز ی کو انٹرویو کے دوران دیا کہ اپوزیشن بیان بازی اورالزامات کی سیاست سے گریز کرے تو بات ہوسکتی ہے جبکہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ گول میز کانفرنس منعقد کرکے تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ملکی مسائل کے حل کے لیئےمشترکہ لائحہ عمل تیار کریں ۔محمود خان اچکزئی کی تجویز قابل غور ہے اگر معاشی حالات اس قدر ابتر ہیں جیسا آئی ایم ایف بتارہا ہے تو عقلمندی اسی میں ہے کہ فی الوقت سیاست کو ترک کرکے ریاست کی بہتری کے لیئے مل کر کام کرنا چاہیئے شائد اس سے کچھ حالات بہتر ہوجائیں اور عوام کی حالت میں سدھار آئے ۔اگر بہت جلدی بھی ریلیف نا مل سکا تو کم سے کم یہ اطمینان تو رہے گا کہ ملکی معیشت درست سمت میں چل پڑی ہے ۔ایسے میں اگر ملکی سیاسی قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی تو مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ملک کی تمام سیاسی قیادت کو ایک میز پر اکٹھا کریں ۔حرف آخر یہ کہ جوموجودہ معاشی حالت ہے اگر انتخابات ہوبھی جائیں تو نئی بننے والی حکومت بھی شائد کچھ نا کرسکےاسلیئے مسائل کا حل نئے انتخابات نہیں معاشی حالت کی بہتری ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...