عورت جوان تھی۔ اس کے شوہر کو ملازم نے مار ڈالا۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ مقدمہ عدالت میں گیا۔ گواہ پیش ہوئے جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملزم کو قتل کرتے خود دیکھا ہے۔ فیصلہ یہ صادر ہوا کہ گواہوں کو دو دو سال قید بامشقت اور نقد جرمانے کی سزا ہو۔ ملزم کو بری کردیا جائے۔ مستغیثہ کا جو بے چاری بیوہ ہوگئی ہے، نکاح ملزم سے کردیا جائے۔ جرمانے سے حاصل شدہ رقم سے نکاح کے اخراجات پورے کیے جائیں۔ رہے بچے، تو ملزم کو کیا پڑی ہے کہ انہیں رکھے اوران کی کفالت کرے چنانچہ بچوں کو یتیم خانے بھیج دیا جائے۔مقدمے کی یہ روداد مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی ایک کہانی میں لکھی ہے لیکن وقت وہ آن پڑا ہے کہ جو کچھ حکایات و لطائف میں ہوتا تھا آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور جو نہیں ہورہا، اسے ہونا چاہئے! انبالہ، پٹیالہ، یا اسی قبیل کی کسی ریاست کے بارے میں مشہور ہے کہ والی ریاست سے پوچھا گیا قاضی القضاۃ چھٹی پر چلے گئے ہیں ان کی جگہ کسی کو لگایا جائے۔ پوچھا، کوئی چھٹی کاٹ کر واپس بھی تو آیا ہوگا؟ عرض کیا، جی سرکار! چیف میڈیکل آفیسر آئے ہیں۔ حکم ہوا انہیں قاضی لگا دیا جائے۔ قاضی صاحب واپس آئے تو چیف انجینئر کی جگہ خالی تھی۔ چنانچہ انہیں وہاں ’’ایڈجسٹ‘‘ کردیا گیا ہے۔مرزا فرحت اللہ بیگ نے،جو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کہانی میں لکھا ہے کہ یہ تابناک فیصلہ قانون کے ایک طالب علم نے کمرہ امتحان میں سوالوں کے جواب لکھتے ہوئے صادر کیا تھا! مگر اب یہ طرز عدالت ہماری حقیقی دنیا پر نافذ کرنا پڑے گا۔ انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لئے اربوں کھربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ پھر بھی حالت یہ ہے کہ حکومت کی ناک کے عین نیچے سب کچھ ہورہا ہے۔ ایک ایسا گروہ ’’منکشف‘‘ ہوا ہے جس میں دو بھائی اور ماشاء اللہ والد محترم اور والدہ ماجدہ بنفس نفیس ملوث ہیں۔ پچھتر افراد سے ویزے کے نام پر کروڑوں روپے ہتھیائے گئے۔ اب یہ مقدمہ عدالت میں آئے تو اس کا فیصلہ اس طرح ہونا چاہئے کہ والد محترم اور والدہ ماجدہ کو تو حج پر بھیج دیا جائے جیسے اکبر نے بیرم خان سے جان چھڑانے کے لئے اسے بھیجا تھا۔ دونوں بھائیوں کو سرکار میں اعلیٰ عہدے دیے جائیں کہ جو کام چھپ کر کررہے تھے، ڈنکے کی چوٹ کریں سب سے زیادہ دردناک اور دلگداز معاملہ ان پچھتر بدنصیب افراد کا ہے جن سے رقم ہتھیائی گئی۔ ان سب کو زنداں میں بھیج دیا جائے۔ فانی نے کہا تھا
فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتاہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
اس لئے کہ یہ پچھتر ’’ملزم‘‘ وحشی ہوں نہ ہوں، معاملہ یقیناً وہ ہے جسے سن کر ’’منہ سے ارتجالا‘‘ یا وحشت کا کلمہ نکلتا ہے۔ کس برتے پر انہوں نے یہ رقم ادا کی تھی؟ کیا یہ سیاہ بخت اس خیال میں تھے کہ ایک ریاست موجود ہے جس کے وہ شہری ہیں اور وہ ریاست ان کے مال کی، ان کے حقوق کی حفاظت کرے گی اور اس مال کو غصب اور ان حقوق کو پامال کرنے والوں کو نشانہ عبرت بنا دے گی؟یہی لاعلمی تو ان کا سب سے بڑا قصور ہے، انہیں قید سے بھی سخت تر سزا دینی چاہئے۔ انہیں ابھی تک یہی نہیں معلوم کہ ریاست نام کی کسی شے کا یہاں وجود ہی نہیں!!ریاست؟ کون سی ریاست؟ اللہ کے بندو! ریاست ہوتی تو کیا سپریم کورٹ علی الاعلان یہ دہائی دیتی کہ …..’’سرکاری افسر اور پرائیویٹ لوگ مل کر ریاستی املاک لوٹ رہے ہیں‘‘ جی ہاں! ریاستی املاک! بالکل اسی طرح جیسے برصغیر کی تقسیم ہوئی تو مالک ہجرت کر گئے اور پیچھے ان کی املاک لوٹ لی گئیں! اب ریاست کی املاک لوٹی جارہی ہیں تو کوئی ہے جو سراغ لگائے ریاست کہاں ہجرت کر گئی ہے؟ریاست کا وجود ہوتا تو دارالحکومت وہ دارالحکومت نہ بنتا جہاں مرہٹے شاہی قلعے کی دیواروں کے عین نیچے چوتھ وصول کررہے ہیں۔ ریڈ زون کیا ہے؟ شاہی قلعہ ہی تو ہے! اس کے مشرق میں دس منٹ کی ڈرائیو پر غیر ملکیوں کی مسلح بستیاں آباد ہیں اس کے مغرب میں دس منٹ کی ڈرائیو پر ہر سیکٹر کے مرہٹے الگ الگ چوتھ وصول کررہے ہیں۔ مرہٹوں کا یہ گروہ کون ہے؟ یہ ایف ٹین کو لوٹتا ہے۔ یہ گروہ کیا کرتا ہے؟ یہ ایف الیون کا مالک ہے۔ یہ آئی ایٹ سے گاڑیاں اور افراد اٹھاتا ہے۔ چند گز پر مشتمل قطعہ زمین پانچ چھ یا آٹھ دس کروڑ میں خریدے۔ پھر پانی کے لئے زمین کھو دے۔ پھر گلی کی صفائی کا بندوبست کیجئے پھر حفاظت کے لئے گارڈ رکھے۔ یہ سب کچھ آپ خود کیجئے ٹیکس اس کے علاوہ دیجئے۔ اس پر بھی کوئی گمان رکھتا ہے کہ ریاست کا وجود ہے تو اسے پکڑ کر زنداں میں ڈالنے کے علاوہ کیا چارہ کار ہے؟ریاست ہوتی تو 2007ء میں آغاز ہونے والا دارالحکومتی ائرپورٹ سات سال بعد بھی پانی اور انفراسٹرکچر سے محروم نہ ہوتا اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی چیئر پرسن یہ نہ کہتی کہ 2035 ء تک ہی مکمل ہوگا! ریاست ہوتی تو وہ شاہراہ جس کا ایک حصہ دارالحکومت کے اندر ہے جس کے ایک طرف زیر تعمیر ائرپورٹ ہے اور جس کے دوسری طرف حساس ترین اور نازک ترین تنصیبات ہیں، منی وزیرستان نہ کہلاتی! ریاست کے ہجرت کرنے کا تازہ ترین ثبوت دیکھیے اور زار و قطار گریہ کرنے اور ہنس ہنس کر دہرا ہونے کے لئے تیار ہو جائے اور اس کا بھی فیصلہ کیجئے کہ کیا ہمیں فضا میں پرواز کرنے والے کرگسوں کی ضرورت ہے؟ یا ڈھانچے کو نوچ نوچ کر کھانے کے لئے ہم ان گدھوں میں خود کفیل ہیں جو پر نہیں مگر دو دو ٹانگیں رکھتے ہیں۔ یہ نومبر 2013ء کی بات ہے۔ وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ لو کاسٹ ہائوسنگ سکیم بنائی جائے چنانچہ ’’اپنا گھر لمیٹڈ‘‘ کے نام سے ایک نئی کمپنی وجود میں لائی گئی۔ وزیر خزانہ، وزیر ہائوسنگ اور صوبائی نمائندوں پر مشتمل سٹیرنگ کمیٹی نے طے کیا کہ پانچ لاکھ مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ اس بات کو بھی رہنے دیجئے کہ کئی اور سرکاری ادارے اس کام کے لئے پہلے ہی موجود تھے، صرف یہ ذہن میں رکھیے کہ وزارت خزانہ نے قوم نو ید دی کہ حکومت عام آدمی کو لو کاسٹ گھر مہیا کرنے میں سنجیدہ ہے اور ایک ہفتے میں سفارشات مکمل ہو جائیں گی۔2014ء کا نومبر، دسمبر میں ڈھلنے والا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک سال میں کتنے مکان تعمیر ہو چکے ہوں گے؟ ایک لاکھ؟ پچاس ہزار 5 یا صرف دس ہزار؟ نہیں ایک بھی نہیں! اس لئے کہ نومبر 2013ء کے بعد اس کیس میں ریاست غائب ہوگئی ایک سال یعنی بارہ ماہ اور 366 دن گزر گئے؟ ’’اپنا گھر لمیٹڈ‘‘ کے بورڈ کا ایک اجلاس تک نہ ہوا اور اب مزید کرگسوں کو خوان یغمامہیا کرنے کے لئے کنسلٹنٹ ہائر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے جو بزنس پلان ’’واضح‘‘ کریں گے اور ہاں ایک سال بعد وزیر صاحب نے اس سکیم پر ’’عملی کام‘‘ جلد شروع کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے، آخر اس ملک کے بھوکے بلکتے سسکتے عوام سے کیا قصور سرزد ہوا ہے؟ منیر نیازی نے کہا تھا۔
ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے
ایک صوت گنگ جیسے گنبدوں کے سامنے
حیرت اس قدر حیرت کہ صوت گنگ ہو جاتی ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو ہم پر اپنی دانش مسلط کرنا چاہتے ہیں ایک طرف ریاست عنقا ہے۔ دوسری طرف افلاطونوں اور جالینوسوں کا ایک غول ہے جو در پے ہے۔ دو دن پیشتر پیپلز پارٹی کا ایک نابغہ اٹھتا ہے اور قوم کو اتنی دھمکیاں دیتا ہے کہ ایک سانس میں اب تک کسی نے اتنا بڑا ریکارڈ قائم نہیں کیا ہوگا۔ دھمکیاں اور خوفناک دھمکیاں! ’’جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو وفاق نہیں رہے گا۔ ٹیکنوکریٹ حکومت آئی تو نظام نہیں چل سکے گا اٹھارہویں ترمیم ختم ہوئی تو ملک نہیں چل سکے گا‘‘۔ جو اٹھتا ہے ملک ٹوٹنے اور وفاق ٹوٹنے کی بدخبری دینے لگتا ہے کیا یہ ملک، یہ وفاق، تمہاری کمر ہے جو ٹوٹ جائے گی؟یہ ملک قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور انشاء اللہ قائم رہے گا۔ پھر دانش کی ایک اور لہر اٹھتی ہے ’’ملک میں نئے انتظامی یونٹوں کی ضرورت نہیں‘‘ تو پھر چار یونٹوں کی بھی کیا ضرورت ہے، پھر سے ون یونٹ بنا دیجیے اور جن ملکوں میں بیس میں تیس تیس انتظامی یونٹ ہیں انہیں ہذیان کا سرٹیفکیٹ بھجوا دیجئے۔ پھر ایک عبقری مسلم لیگ نون کا اٹھتا ہے اور علم سیاسیات میں انقلاب برپا کردیتا ہے۔ ’’فلاں اور فلاں ماضی میں ہماری جماعت میں نہیں تھے۔ چھوڑ کر ن لیگ میں آئے تو انہیں لوٹا قرار نہیں دیا جاسکتا! ہاں اگر اب کہیں جائیں تو انہیں لوٹا کہا جائے گا! ایک طرف بے کس عوام، دوسری طرف دانش کے یہ پہاڑ۔
اے خاصہ خاصان رسل! وقت دعا ہے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“