قدیم یونانی فلسفے کے مطابق تین عناصر علاقہ،آبادی اور حکومت مل کر ایک ریاست تشکیل دیتے ہیں۔موجودہ دور میں دنیا کی تمام ریاستیں اسی تعریف کے تحت قائم ہیں ۔اقوامِ متحدہ کا ادارہ بھی اسی تعریف کو تسلیم کرتا ہے۔ہر ریاست کے اپنے تقاضے اور ترجیحات ہوا کرتی ہیں۔اس کی اپنی تاریخ،تمدن،ثقافت اور ایک فکر ہوا کرتی ہے۔اسی کے پیشِ نظر وہ اپنی خارجہ ،دفاع اور معاشی پالیسی ترتیب دیتی ہے۔ فلسفیوں کے مطابق ریاست صرف اپنے عوام کی فلاح کے لیے کام کرتی ہے۔اپنے وسائل کو منصفانہ انداز میں اپنے عوام میں تقسیم کرتی ہے۔اس کا کسی دوسری ریاست کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے مگر تاریخ میں ریاست کا تصور اس کے بر عکس ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اپنے عوام کی فلاح کے نام پر دوسری ریاستوں کے وسائل کو لوٹ کر اپنے ہاں لایا گیااور اس مقصد کے لیے ریاستوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو وسعت دی اپنی ثقافت اور فکر کو دوسروں پر مسلط کیا جس کے نتیجے میں بڑی جنگیں ہوئیں اور انسانی جانیں اور وسائل ضائع ہوئے۔گزشتہ صدی میں اقومِ متحدہ کے قیام سے اس توسیع پسندانہ سوچ میں کچھ رکاوٹ پیش آئی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منظم عسکری طریقہ کار کی جگہ کچھ اور ذرائع نے لے لی ہے۔
اس قدیم تصور ِ ریاست کے مطابق کوئی بھی ریاست اپنے علاقے ،آبادی اور حکومت پر بیرونی مداخلت برداشت نہیں کرتی ہے اور نہ ہی کسی دوسری ریاست کو اپنی ثقافت ،معیشت اور فکر کو تبدیل کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر ریاست نے اپنے عوام کو دوسری ریاست کے عوام سے ڈرایا ہے۔ریاست کے حکمرانوں نے خوف کی فضاء پیدا کر کے فلاحی تصور ریاست کو بدل کر اسے سیکورٹی سٹیٹ میں بدل دیا ہے۔ہر ریاست دوسری ریاست کو کمزور کر کے ہی خود کو محفوظ سمجھنے لگی۔بڑی اور طاقت ور ریاستوں نے چھوٹی اور کمزور ریاستوں کے معاملات میں مداخلت کر کے عالمی امن کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
گلوبلائزیشن کا تصور سامنے آنے کے بعد ریاست کے اندر بیرونی مداخلت روکنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی ملکی سرحدوں کی متحاج نہیں ہوتی ہے۔اب کوئی بھی ریاست باآسانی دوسری ریاست کے عوام کے ذہنوں پر اس ٹیکنالوجی کے ذریعے اثر انداز ہو سکتی ہے۔وہ اپنے حامی باآسانی دوسری ریاست میں پیدا کر لیتی ہے۔پھر انہیں حامیوں کے ذریعے مسلح گروہ تشکیل دے کر مخالف ریاست کو کمزور کیا جاتا ہے۔انہیں مسلح گروہوں کے لیے نان سٹیٹ ایکٹر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔یہ بات طے ہے کہ غیر ریاستی گرو ہ کی سر پر ستی ایک ریاست ہی کرتی ہے۔القائدہ،طالبان،داعش،بوکوحرام سمیت کئی ایک تنظیمیں اس کی مثال ہیں۔
عالمی تشدد کی موجودہ لہر کی کئی ایک وجوہات میں سے ایک وجہ مندرجہ بلا عوامل ہی ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگیں اور اتحادمحض وقتی دار سی تو کر سکتے ہیں مگر بذاتِ خود یہ کوئی حل نہیں ہے۔اس مسلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے آج پھر ایک نئے عالمی معاہدہ عمرانی کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔آج دنیا ایک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔اس کی شکل تبدیل ہو رہی ہے۔تبدیل ہوتی ہوئی دنیا ایک فطری عمل ہے۔نئے عالمی معاہدہ عمرانی کا موضوع ریاست ہی ہو گا۔ریاست کی موجودہ تعریف گلوبلائزیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اثرات کو اپنے اندر نہیں سمو سکتی اسی لیے ریاست کی نئی تعریف کی ضرورت ہے جس میں گلوبلائزیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اثرات کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ گلوبلائزیشن کا ٹارگٹ اقتصادیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہدف ثقافت،زبان اور تاریخ ہو تے ہیں۔ریاست کی تشکیل میں انہی عناصر کا اہم کردار ہوتا ہے۔
اگر ریاست کی از سر نو تعریف کرنے کی طرف قدم نہیں اٹھایا جا تا تو دنیا میں دو طرح کے نظام معرضِ وجود میں آ جائیں گے۔ایک عالمگیریت کا حامی ہو گا جب کہ دوسرااس کا باغی ہوگا اور وہ چھوٹی ریاستوں اور گرہوں کی شکل میں ہوگا جس طرح اب داعش کی اپنی مجوزہ ریاست ہے۔اس طرزِ عمل میں مسلسل انتشار اور خون خرابہ ہی ہو سکتا ہے۔ لہذ اضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی رہنماء اور مفکرین اس مسلے کا مستقل حل تلاش کر کے انسانیت کو تباہ ہونے سے بچائیں۔