ریاست جوتے کی نوک پر
کہانی کچھ یوں ہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت نہ ہوسکی ،اس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔عالی مقام اور انصاف پسند ججوں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی عیسی کے سامنے ایک کیس پیش ہونا تھا ،جب عدالت لگ گئی تو وکیل سید رفاقت حسین صاحب نے فرمایا کہ کیس کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی کردیا جاے،اور کوئی اور تاریخ دی جائے ،ججوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا وہ کیوں َ؟ تو اس پر وکیل سید رفاقت حسین نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ دھڑنے کی وجہ سے وہ سپریم کورٹ تک نہیں پہنچ سکتے ،تمام روڈز بلاک ہیں ،وہ ان سڑکوں کا مقابلہ کرتے ہوئے وقت پر عدالت نہیں پہنچ سکتے ۔اس پر جج صاحبان نے عدالت میں بیٹھے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود سے پوچھا یہ ریاست میں کس طرح کے بدترین حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ وکیل سپریم کورٹ تک نہیں پہنچ سکتے ؟تو اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے فرمایا کہ جناب ایسے ہی حالات ہیں ،وہ کیا کرسکتے ہیں ،دھڑنے والوں کی وجہ سے پورا اسلام آباد اور پنڈی پریشان ہے۔اس پر محترم قاضی فیض عیسی اور محترم مشیر عالم خان نے ایک آرڈر پاس کیا کہ کچھ شرپسند عناصر نے اسلام آباد اور پنڈی کو یرغمال بنایا ہوا ہے ،ریاست اور اس کے حکام اور نمائندے ان شرپسند عناصر سے مزاکرات پر مزاکرات کئے جارہے ہیں ،،لوگ کام پر نہیں جاسکتے ،بچے اسکول ،کالج اور یونیورسٹیوں مین نہیں جاسکتے ،حتی کہ ایمبولینسیں نہیں گزر سکتی جس کی وجہ سے مریضوں کی اموات ہو سکتی ہیں ۔ججوں نے فرمایا اب یہ PUBLIC INTEREST کا معاملہ ہے ،اور بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ بن گیا ہے ،لوگوں کے حقوق غضب ہورہے ہیں ،دھڑنے والے کورٹ نہیں گئے ،سڑکوں پر شرپسندی کررہے ہیں ،یہ شرپسند فیڈرل شریعت کورٹ میں بھی تو جاسکتے تھے ۔معاشرے میں انتشار پھیلا کر اسے مزید تقسیم کررہے ہیں ۔ججوں نے اس موقع پر قران مجید کی سورہ العمران کے حوالے بھی دیئے ۔ججوں نے کہا کہ اب وہ اٹارنی جنرل ،سیکریٹری داخلہ ،سیکڑیٹری دفاع ،ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بھی نوٹسز ایشو کررہے ہیں کہ جلد از جلد معاملے کو حل کریں اور دھرنا کسی بھی صورت ختم کرائیں ۔اس موقع پر ججوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایات کی کہ وزارت داخلہ ،وزارت دفاع ،انٹیلی جنس ایجنسیوں سے اس بارے میں جواب طلب کرے۔اور وہ جواب جلد از جلد سپریم کورٹ کو بھیجیں ۔اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی احکامات جاری کر چکی ہے کہ 23 نومبر کی آخری ڈیڈلائن ہے ،اس دن تک دھڑنا ہر صورت ختم ہونا چاہیئے ۔ویسے سپریم کورٹ کو چاہیئے کہ اس دھڑنے کی ویڈیوز بھی طلب کرے کیونکہ دھڑنے میں محترم ججوں کے خلاف غلیظ اور بدترین زبان استعمال کی جارہی ہے ،انہیں گندی گالیاں دی جارہی ہیں ۔ججوں اور عدالت کے وقار کو مجروح کیا جارہا ہے ۔ججوں کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی دھڑنے میں خوب گالیاں پڑ رہی ہیں ۔ججوں کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اس قسم کی تمام ویڈیوز طلب کریں اور دیکھیں کہ کس طرح مٹھی بھر حظرات نے ریاست کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے ۔علماٗ اور مشائخ جو مزاکرات کار ہیں وہ بھی دھڑنے والوں کے رنگ میں رنگ گئے ہیں اور بیانات دے رہے ہیں کہ دھڑنے والے جو بھی کہے رہے ہیں اور جو بھی کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے ۔ادھر سے اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے بھی اندر خانے دھڑنے والوں کی ہاں میں ہاں ملائی ہوئی ہے ۔سیاست دان اور معززین شہر صرف تماشا دیکھ رہے ہیں اور مداخلت کرنے سے گریز کررہے ہیں ،ان سے بھی اس حوالے سے عدالت کی زمہ داری ہے کہ باز پرس کرے ،ریاست کو تماشا بنادیا گیا ہے اور قوم کو زلیل و رسوا کیا جارہا ہے ۔دھڑنے والے جس طرح ہٹ دھڑمی کا مظاہرہ کررہے ہیں اس سے فرقہ وارانہ جنگ بھی چھڑ سکتی ہے اور خدانخواستہ دہشت گرد حملہ بھی ہو سکتا ہے ۔اس لئے حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ ایکشن لے اور حکومتی رٹ بحال کرے ۔ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ دھڑنے والے ایسے نہیں اٹھیں گے ،انہیں ہر صورت چند لاشوں کی ضرورت ہے ۔معاملات انتہائی خوفناک ہیں ،خدارا اس صورتحال کو بگڑنے سے بچایا جائے ۔حکومت کے ساتھ ساتھ سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ کی زمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھیں ،مداخلت کریں اور ان کو فیض آباد انٹر چینج سے نکال باہر کریں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔