ریاست،دھڑنا کہانی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی
فیض آباد دھڑنا تین ہفتوں کے بعد ختم کرادیا گیا ۔دھڑنا ختم ہونے کے بعد ریاست ،حکومت اور ریاست کے طاقت ور اداروں کوتمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جانا چاہیئے ۔تحریک لبیک اور عباسیہ حکومت کے درمیان دھڑنا ختم کرنے کے حوالے سے جو معاہدہ ہوا،آیئے اب اس عظیم معاہدے پر بھی بات کر لیتے ہیں ۔معاہدے کے شروع میں یہ لکھا ہوا ہے کہ تحریک لبیک جو ایک پرامن جماعت ہے ،کسی بھی قسم کے تشدد اور بدامنی پر یقین نہیں رکھتی ۔ان کے تمام مطالبات تسلیم کئے جاچکے ہیں ۔معاہدے کے مطابق وفاقی وزیر قانون کوعہدے سے برطرف کئے جانے کے بعد تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا فتوی جاری نہیں کرے گی ۔معاہدے کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 میں 7B اور 7C کا مکمل متن بمعائے اردو حلف نامہ شامل کر لیا گیا ہے ،حکومت کے اس اقدام کی تحریک لبیک ستائش کرتی ہے۔معاہدے میں کہا گیا ہے کہ راجہ ظفرالحق کی انکوائری رپورٹ 30 دن کے اندر منظر عام پر لائی جائے گی ،اس رپورٹ میں جو بھی زمہ دار پائے گئے ،ملکی قوانین کے مطابق ان افراد کے خلاف کاروائی کی جائے گی ۔معاہدے کے مطابق پانچ نومبر دو ہزار سترہ سے دھڑنے کے اختتام تک تحریک لبیک کے جتنے بی افراد پاکستان بھر میں گرفتار کئے گئے ہیں وہ رہا کردیئے جائیں گے ۔ان کے خلاف تمام مقدمات اور نظربندیاں ختم کردی جائیں گی ۔وہ جو سرکار کی بکتر بند گاڑیاں اور پولیس موٹر سائیکل جلائے گئے ہیں ،یا جن پولیس والوں پر تشدد کیا گیا ہے ،ان کا کیا ہوگا ،اس حوالے سے معاہدے میں کوئی بات نہیں کی گئی ۔ویسے دھڑے کے خلاف جو آپریشن کیا گیا ہے اس میں سو پولیس والے بھی زخمی ہوئے ہیں ۔دھڑنے کی وجہ سے ایک آٹھ ماہ کا بچہ بھی مرگیا تھا ،اس کے بارے میں بھی معاہدہ خاموش ہے ۔وہ تو بیچارہ رضائے الہی کی وجہ سے شہید ہوا تھا ۔البتہ اس ھوالے سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا ایک بیان سامنے آیا ہے کہ دھڑنے میں جن افراد نے تشدد کا استعمال کیا ان کے خلاف ریاست نے جو مقدمات درج کئے تھے وہ تو ختم کردیئے جائیں گے البتہ دھڑنے والوں کے خلاف جو انفرادی مقدمات درج کئے گئے ہیں ،وہ وآپس نہیں ہوں گے ،وزیر داخلہ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ انفرادی مقدمات ویسے ہی ریاست ختم نہیں کرسکتی ۔معاہدے کے مطابق 25 نومبر تک دھڑنے والوں کے ساتھ جو ہوا اس کے لئے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی جائے گی ،اس کے لئے حکومت اور انتظامیہ زمہ داروں کا تعین کرے گی ۔معاہدے کے مطابق دھڑنے کے دوران اور اپریشن کے بعد تک جو سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ،اس کا ازالہ بھی وفاقی اور صوبائی حکومت کرے گی ۔اس کا مطلب ہے غریب شہریوں کا جو نقصان ہوا،جو دھڑنے والوں نے میٹرو اسٹیشنز میں نقصان کیا اور پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی ،اب ریاست یعنی غریب شہریوں کے ٹیکسوں سے یہ ازالہ ہوگا ۔یہ تو تھی معاہدے کی چیدہ چیدہ باتیں ،،،،اس کے علاوہ اعلی حظرت اور دھرنے کے عظیم قائد خادم حسین رضوی صاحب نے بھی ایک پریس کا نفرس دھڑے کے اختتام پر کی ،آیئے اس پریس کا نفرس کا احوال بھی سن لیں اور دیکھیں کہ ریاست کسے کہتے ہیں اور دھڑنے کے عظیم قائد ریاست سے کتنے بلند و ارفع ہیں ۔انہوں نے فرمایا کہ پنجاب کے علما کا ایک بورڈ پیر افضل قادری کی قیادت میں احمدیوں سے متعلق رانا ثنااللہ کے ریمارکس کی چھان بین کرے گا ،بورڈ جو بھی فیصلہ کرے گا ،اس فیصلے کو من و عن قبول کیا جائے گا ۔انہوں نے فرمایا کہا کہ اب لاوڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی نہیں ہوگی ۔حکومت عافیہ صدیقی کی وآپسی کے لئے اقدامات اٹھائے ۔نونومبر کو یوم اقبال کی چھٹی بحال کی جائے ۔خادم حسین رضوی صاحب نے مطالبہ کیا کہ تحریک لبیک کے دو نمائندے درسی کتابوں میں تبدیلی کے لئے قائم ٹیکسٹ بورڈ کے پینل میں شامل کئے جائیں جو نصاب میں اپنی مرضی کے خیالات کو شامل کرائیں گے ۔انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اب ہر سال پچیس نومبر یوم شہدا کے طور پر منایا جائے گا ۔ایک بات اہم یہ ہے کہ حکومت اور دھڑنے والوں کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے اس بارے میں رضوی صاحب کا کہنا تھا کہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی اسٹاف اوران کی نمائندہ ٹیم کی کاوشوں کے زریعے طے پایا ہے جس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں ۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے ایسا معاہدہ کراکر قوم کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا ہے۔چیف آف آرمی اسٹاف اس معاہدے کے ضامن ہیں ان کے BEHALF پر معاہدے پر میجر جنرل فیض حمید صاحب نے دستخط بھی کئے ۔میجر جنرل فیض حمید بلوچ جی او سی پنو عاقل رہے ہیں ،اس کے علاوہ وہ ڈائریکٹر جنرل کاونٹر انٹیلی جنس ڈائرکٹریٹ آئی ایس آئی رہے ہیں ۔معاہدے پر وفاقی وزیر داخلہ اھسن اقبال ،وفاقی سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا کے دستخط بھی ہیں ۔۔تحریک لبیک کی طرف سے خادم حسین رضوی ،پیر محمد افضل قادری اور وحید نور کے بھی دستخط نمایاں ہیں ۔احسن اقبال کا ایک یوٹرن بھی قابل غور ہے جس میں محترم نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران فرمایا کہ ایکشن ان کے کہنے پر نہیں کیا گیا ،بلکہ یہ ایکشن عدالت کے حکم پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد نے کیا ۔آزاد ماہرین سیاست اور ریاست کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ نہیں ،بنیادی طور پر سوسائیڈ نوٹ ہے ،اس معاہدے کو غور سے دیکھا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ ریاست نے خودکشی کر لی ۔ملک کو تباہی سے بچانے والے اس معاہدے کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے سماعت کے لئے لایا گیا ،جی جی دھڑنا ختم کرنے کا سوموٹو ایکشن سب سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے لیا تھا اور حکم جاری کیا تھا کہ فوری دھڑے کو ہٹایا جائے ۔جب فوری دھڑنا نہ ہٹا یا جاسکا تو احسن اقبال کو عدالت کی طرف سے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس بھی جاری ہوا تھا ۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کے دوران تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوج کا میجر جنرل کس قانون کے تحت ثالثی کراسکتا ہے ۔آرمی چیف نے آئین اور قانون سے ماورا کردار ادا کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج ایک ریاستی ادارہ ہے وہ طے شدہ قانونی دائرے سے تجاوز نہیں کرسکتی ،جنہں سیاست میں حصہ لینے کا شوق ہے وہ ریٹائمنٹ لیکر یہ شوق پورا کریں ۔ان کا کہنا تھا کہ وزرات داخلہ ہنگامی حالات میں فوج کو طلب کرسکتی ہے ،اور فوج ان احکامات پر عمل کرنے کی پابند ہے ۔سب لوگ اس خیال کو طاقتور کیوں بنا رہے ہیں کہ فوج ہی ہر مرض کی دوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر دھڑنے والوں کے خلاف ایکشن احسن اقبال کے کہنے پر نہیں ہوا تو معاہدے پر ان کے دستخط کیوں ہیں ؟چیف سیکریٹری اور آئی جی اسلام آباد کے دستخط کیوں نہیں ہیں ؟جسٹس شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ سب ادارے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے چکر میں ریاست کو برباد کررہے ہیں اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔جسٹس صاحب نے چیف کمشنر کو حکم دیا کہ آپریشن کی ناکامی کی رپورٹ جمع کرائی جائے،اس موقع پر انہوں نے آئی بی یعنی انٹیلی جنس بیورو کو حکم دیا کہ دھڑنے والوں کے پاس اسلحہ ،آنسو گیس شیل اور ماسک کہاں سے آئے ؟ان کا کہنا تھا کہ اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ جو باتیں انہوں نے کی ہیں اگر وہ ہلاک کردیئے جائیں یا لاپتہ ہو جائیں ۔ان کا کہنا تھا کہ جو کردار اس سارے معاہدے میں فوج کی قیادت نے کیا وہ آئین اور قانون سے ماورا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج جی ایچ کیو کے سامنے کیا جاتا تو فوج کیا کرتی ؟ماہرین کا کہنا ہے کہ جب دھڑنے کے خلاف آپریشن جاری تھا تو ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے ٹوئیٹ کیوں کی گئی ؟ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ڈی جی رینجر میجر جنرل اسد نوید صاحب دھڑنے کے شرکاٗ کو گھر وآپسی کے لئے پیسے دیتے نظر آرہے ہیں ،اس حوالے سے ماہرین سیاست و ریاست کہتے ہیں کہ کیونکہ معاہدہ خوش اسلوبی سے طے پاگیا تھا ،وہ ان دھڑنے والوں کو گھر وآپسی کےلئے ہزار ہزار روپیئے کرایہ دے رہے تھے ۔یہ خیر سگالی کے لئے دیئے گئے پیسے تھے ۔جمہوریت کا حسن دیکھیں کہ دھڑنے کے موقع پر مختلف سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ نہیں تھی ۔حکومت عباسیہ بیچاری تن تنہا دھڑنے والوں کے سامنے تھی ،اس لئے ایسا ہی معاہدہ ہونا تھا ۔کیا شاندار بات ہے کہ شہباز شریف نے زاہد ھامد کو مستعفی کرا دیا اور ان کے خلاف فتوی کو بھی روک دیا ۔راجہ ظفر الحق بیچارے نے تو پہلے ہی فرمادیا تھا کہ ایک وزیر کی قربانی سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔اب رانا ثنااللہ بھی ٹریبونل کے سامنے پیش ہوں گے ،اور شہباز شریف خاموش رہیں گے ۔یہ جو کہتے ہیں کہ کسی ادارے کو ریاست کے معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے میں ان سے اتفاق نہیں کرتا ۔پانچ جولائی انیس ستتر کو کیا ہوا ،نوازشریف ایک زمانے میں کسی جسٹس کی بحالی کے لئے نکلے تھے تو گجرانوالہ میں کیا ہوا،عمران اور قادری کا دھڑنا بھی تو کسی طاقتور کے اثر و رسوخ سے ختم کرایا گیا تھا ۔گڈ آفسز ہمیشہ اس ریاست مین استعمال ہوتے رہے ہیں اور یہی جمہوریت کا حسن ہے ۔یہ جو کہتے ہیں کہ ریاست نے گزشتہ روز خودکشی کی ،میں ان سے اتفاق نہیں کرتا ۔کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اب جس طرح کی روایات ڈالی جارہی ہیں ،اس میں سب ہی جلیں گے ۔ان بیچاروں کو کیا سمجھ کہ یہی تو جمہوریت کا حسن ہے ۔دھڑنا کہانی اب ہمیشہ جمہوریت کے ساتھ نتھی رہے گی ۔خدا حافظ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔