داؤد پوتا عباسی عربی نژاد ھیں اور بغداد و قاھرہ کے عباسی خلفاء کے خاندان میں سے ھیں۔ مصر کے عباسی امراء کی ھندوستان آمد محمد توکل بن غیاث الدین کے دور میں شروع ھوئی تھی۔ ھندوستان کے اس تغلق بادشاہ نے مصر میں عباسی خلیفہ عبدل عباس الحکیم کی اطاعت تسلیم کی تھی اور ان کی روحانی قیادت کو قبول کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے دور حکومت میں ھندوستانی سکے پر خلیفہ کا نام لکھا ھوا تھا۔
سن 1366ء میں عبد القاسم احمد (پہلا عباسی خلیفہ جس نے مصر میں حکومت کی تھی) کی پچاسویں براہ راست اولاد امیر سلطان احمد دوئم عباسی اپنے اھل خانہ کے ساتھ ھندوستان منتقل ھوئی۔ وہ اپنے چند سو پیروکار کے ھمراہ بلوچستان کے راستے ھندوستان کے جنوب میں داخل ھوئے اور سندھ میں رھائش اختیار کرلی۔ انہوں نے راجہ رائے دھورنگ سھتا کی ایک بیٹی سے شادی کی اور جہیز میں ملک کا ایک تہائی حصہ وصول کیا۔
اس خاندان کے تسلیم شدہ آباؤ اجداد امیر فتح اللہ خان عباسی ھیں۔ اس نے الور اور بھمن آباد کے راجہ دالو سے بھنگر کا علاقہ فتح کیا اور اس کا نام قاھر بیلہ رکھ دیا۔ وہ عرب جو پہلے ھی سندھ میں آباد تھے۔ انہوں نے امیر فتح اللہ خان عباسی کا ساتھ دینا شروع کردیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ امیر کا خاندان بتدریج شمال کی طرف منتقل ھونا شروع ھو گیا اور بہت سارا علاقہ جیسلمیر کے حکمران کے پاس چلا گیا۔
امیر فتح اللہ خان عباسی کے بعد داؤد پوتا کا سردار امیر بہادر خان عباسی برسر اقتدار آیا۔ جبکہ اس خاندان کا داؤد خان بہاولپور کے علاقے پر حکمرانی کرنے والا اپنے خاندان کا پہلے فرد تھا۔ داؤد خان کا تعلق سندھ کے علاقے شکارپور سے تھا۔ سندھ پر ارغونوں کے قبضے کی وجہ سے داؤد خان فرار ھونے پر مجبور ھوا تھا۔ بہاولپور کے علاقے میں اس نے اور ان کی اولاد نے چھوٹی چھوٹی ریاستیں متحد کرکے ایک بڑی ریاست قائم کی۔
1540ء میں داؤدی قبیلہ نے بہاولپور کے مشرقی حصے میں کافی طاقت حاصل کرلی۔ امیر محمد چنی خان عباسی مغل بادشاہ کے دربار سے وابستہ ھوگیا اور 1583ء میں شہزادہ مراد (مغل شہنشاہ اکبر کے بیٹے) سے پانچ ھزاری کی حیثیت سے تقرری حاصل کی۔
امیر محمد چنی خان کی موت کے بعد قبیلے کی قیادت کے لیے خاندان کی دو شاخوں داؤد پوتہ اور کلہوڑوں کے مابین لڑائی ھو گئی۔ بہاولپور میں آباد عرب قبائل نے داؤد پوتہ کی حمایت کی جو بہاولپور ریاست تشکیل دینے اور حکمرانی کرنے میں پیش پیش تھے۔
امیر محمد مبارک خان اول عباسی 1702ء میں اقتدار میں آیا۔ وہ ایک قابل کمانڈر اور رھنما تھا۔ اس کو اپنے دور حکومت میں کلہوڑوں کے خلاف بہت سی لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ وہ 1723ء میں اپنے بیٹے صادق محمد خان اول کے لیے دستبردار ھوگیا۔ لیکن خدا یار کلہوڑہ کے ساتھ جنگ میں صادق محمد خان اول مارا گیا۔
1746ء میں امیر محمد بہاولپور خان اول تخت نشین ھوا اور 1749ء تک امیر رھا۔ اپنی قلیل حکمرانی کے دوران اس نے بہاولپور ' قائم پور ' حاصل پور ' ترنڈہ علی مراد خان ' شھباز پور اور محمد پور لماں شہر بنوائے۔ اس کے دور میں خان واہ ' قطب واہ اور واھی قادر دینہ نامی تین نہریں کھودی گئیں۔ اس کے نتیجے میں ریاست کی زراعت میں بہت بہتری آئی۔
1749ء میں امیر محمد مبارک خان دوئم عباسی تخت نشین ھوا اور 1772ء تک امیر رھا۔ 1750ء میں اس نے مروٹ ' جیسلمیر ' مدوالہ اور ستلج و پنجند کے مغرب میں واقع علاقے (جو آج کل مظفر گڑھ ضلع کا حصہ ھیں) فتح کیے۔ سیت پور کے مخدوم شیخ راجو کا علاقہ بھی فتح کیا گیا۔ بعد ازاں دنیا پور اور کہروڑ کے قصبوں پر بھی قبضہ کر لیا۔
امیر محمد مبارک خان دوئم عباسی ایک قابل منتظم اور ایک طاقتور حکمران تھا۔ اس نے اپنی فوج بنانے میں گہری دلچسپی لی۔ ریاست کی سرحد پر بہت سے قلعے اس کے دور میں تعمیر ھوئے تھے۔ اس نے سکھوں کو اپنی گرفت میں رکھا۔ اس کی حکومت کے دوران متعدد نہریں تعمیر کی گئیں جن پر علاقے کی خوشحالی کا انحصار تھا۔
1772ء میں امیر محمد بہاول خان دوئم عباسی تخت نشین ھوا اور 1809ء تک امیر رھا۔ 1776ء میں سکھوں کے جتھوں نے جھنڈا سنگھ ' گنڈا سنگھ اور ھری سنگھ کی قیادت میں ستلج کے شمالی علاقوں پر حملہ کیا لیکن انہیں پسپا کرکے پاکپتن کو بہاولپور اور سکھ ریاست کے درمیان حد مقرر کیا گیا۔
سن 1785ء سے 1788ء تک امیر محمد بہاول خان دوئم عباسی کو کابل کے طاقتور درانی بادشاہ تیمور شاہ کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بہاولپور کو درانیوں نے لوٹ لیا۔ شھر جلایا گیا اور تباہ کردیا گیا۔ قلعہ دراوڑ پر بھی قبضہ ھوچکا تھا اور تیمور شاہ نے اپنے جنرل شاہ محمد خان بدوزئی کی کمان میں اپنی فوج کو وھاں متعین کردیا تھا۔ لیکن آخر کار امیر محمد بہاول خان دوئم عباسی نے بہت سخت لڑائی لڑنے کے بعد درانیوں کو نکال دیا۔
1802ء میں امیر محمد بہاول خان دوئم عباسی کو کابل کے شاہ محمد نے ایک قیمتی خلعت اور مخلص الدلہ کا لقب بھیجا۔ 1802ء میں بہاولپور میں ایک ٹکسال شروع کیا گیا۔ جہاں سونے ' چاندی اور تانبے کے سکے بنائے گئے تھے۔
1809ء میں شہزادہ عبداللہ خان کو صادق محمد خان دوئم عباسی کے لقب سے بہاولپور کا امیر مقرر کیا گیا اور 1825ء تک امیر رھا۔ اس کے دور کا بیشتر حصہ اپنے ھی امیروں کی بغاوتوں کو دبانے اور اپنے فتح شدہ علاقوں کی حفاظت کرنے کے لیے سندھ کے امیروں کے حملوں کو پسپا کرنے میں گزر گیا۔
1825ء میں امیر صادق محمد خان دوم کی وفات کے بعد دراوڑ کے مقام پر امیر بہاول خان سوم عباسی تخت نشین ھوا اور 1852ء تک امیر رھا۔ امیر بہاول خان سوم عباسی نے تخت نشین ھونے کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کو تحائف بھیجے۔ مہاراجہ نے بھی امیر کو مبارکباد اور کچھ تحائف بھیجے۔
چونکہ ڈیرہ غازی خان کی لیز کے کچھ واجبات ادا نہیں کیے گئے تھے۔ لہذا مہاراجہ رنجیت سنگھ نے بہاولپور کے امیر بہاول خان سوم عباسی کو موقع دیے بغیر جنرل وینچر کی قیادت میں بہاولپور کے امیر کے مقرر کیے گئے گورنر کو ھٹانے کے لیے ایک فوج بھیج دی۔
جنرل وینٹورا نے ڈیرہ غازی خان ' مظفر گڑھ اور ملتان پر قبضہ کرلیا اور بہاولپور کے امیر کی ریاست پر حکمرانی ختم کردی گئی۔ بہاولپور کا امیر بہاول خان سوم عباسی اس نقصان پر بہت پریشان ھوا۔ جبکہ ھمسایہ ریاستوں سندھ ' بیکانیر یا جیسلمیر کے ساتھ اتحاد ممکن نہ تھا۔ کیونکہ وہ پہلے ھی بہاولپور کے امیر سے دشمنی رکھتے تھے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شام سنگھ اٹاری والا کی قیادت میں ایک بہت بڑی فوج کو کہروڑ بھیجا تاکہ ھر صورت میں ریاست پر قبضہ کیا جائے۔ بہاولپور کے امیر بہاول خان سوم عباسی نے برطانوی گورنر جنرل کو شملہ میں ایک ایلچی بھیجا تاکہ ان سے مدد کی درخواست کی جا سکے۔ برطانوی گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹینک نے بہاولپور کے امیر بہاول خان سوم عباسی کی مدد کرنے کی درخواست کو قبول کرلیا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو خبردار کیا گیا کہ وہ ستلج عبور نہ کریں۔
1833ء میں نواب بہاولپور امیر بہاول خان سوم عباسی نے انگریزوں کے ساتھ دوستی اور اتحاد کے معاھدے پر بات چیت کی۔ بہاولپور اور برطانوی حکومت کے مابین معاھدہ ھوا۔
1842ء میں کوٹ سبزل اور گھونگ بھارہ کے علاقے ریاست بہاولپور سے لے لیے گئے۔ جوکہ 1807ء میں انگریزوں نے سندھ کے میروں سے فتح کیے تھے اور سر چارلس نیپئر نے ریاست بہاولپور کو دیے ھوئے تھے۔
1848ء میں بہاولپور کے امیر بہاول خان سوم عباسی نے ملتان کی جنگ میں انگریزوں کی مدد کی۔ بہاولپور – برطانوی اتحاد کے نتیجے میں ملتان فتح کرلیا گیا اور برطانوی ھندوستان کا علاقہ بنا دیا گیا۔
1852ء میں صادق محمد خان سوم عباسی تخت نشین ھوا اور 1853ء تک امیر رھا۔ حکمرانی سنبھالنے کے بعد اس نے؛
1۔ شہزادہ حاجی خان اور اس کے بھائیوں کو قید میں رکھا اور ان کے ساتھ سخت سلوک کیا۔
2۔ بہاولپور کی فوج کی ایک بڑی تعداد کو غیر متحرک کردیا۔
3۔ داؤد پوتوں کی تمام گرانٹ ' حقوق ' دعوے اور دوسرے معمول کے اخراجات کم یا ختم کردیے۔
ان اقدامات نے امیر بہاولپور صادق محمد خان سوم عباسی کو غیر مقبول بنا دیا۔
1853ء میں ربیع الثانی 1269 ھجری کی 29 تاریخ کو رات کے وقت فتح گڑھ قلعہ پر حملہ کیا گیا۔ شہزادہ حاجی خان جسے قیدی کے طور پر رکھا گیا تھا کو رھا کروا لیا گیا اور خان پور لایا گیا۔ شہزادہ حاجی خان بغیر کسی مزاحمت کے احمد پور شرقیہ میں داخل ھوا اور صادق محمد خان سوم عباسی کو قید کردیا گیا۔
1853ء میں امیر فتح خان عباسی کو تخت نشین کیا گیا اور 1858ء تک امیر رھا۔ شہزادہ رحیم یار خان کو محمد بہاول خان چہارم کی حیثیت سے 1858ء میں اپنے والد مرحوم امیر فتح خان عباسی کے بعد تخت نشین کیا گیا اور زھر دینے کی وجہ سے 25 مارچ 1866ء کو انتقال ھوگیا۔
1866ء میں بہاول خان چہارم کی وفات پر سر صادق محمد خان چہارم کی تاج پوشی کی گئی۔ اس وقت اس کی عمر ساڑھے چار سال کی تھی۔ اس کو 1879ء میں جوان ھونے پر تخت نشین کیا گیا۔ 1866ء سے 1879ء تک کے عبوری عرصے میں برطانوی افسران نے ریاست کی نگرانی کی۔
1907ء میں اپنے والد کی وفات کے وقت امیر محمد بہاول خان پنجم تقریبا 16 سال کی عمر کا تھا۔ اس نے 1955ء تک ریاست بہاولپور پر حکمرانی کی اور 1955ء کو بہاولپور ریاست کو مغربی پاکستان میں ضم کردیا گیا۔
نواب بہاولپور بہاول خان سوم عباسی نے 22 فروری 1833ء کو برطانوی حکومت کے ساتھ معاھدہ کیا جو 14 اگست 1947ء تک عمل میں رھا۔ بہاولپور ریاست نے 7 اکتوبر 1947ء کو ڈومین آف پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور 14 اکتوبر 1955ء کو بہاولپور ریاست کو مغربی پاکستان میں ضم کیا گیا۔