دارلسرور بہاولپور اور اس کے نوابین سے بے پناہ محبت اور ان سے منسوب اشیاء کو جمع کرنے کا جنون کی حد شوق رکھنے والے معروف سیاسی و سماجی کارکن اور ریاست بہاولپور کی نایاب تصاویر و دیگر اثاثوں کے امین جناب”گلزار احمد غوری” 30 مئی 2021ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملےـ
آپ سنہ 1947ء میں ایک متوسط اور کثیرِ العیال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباواجداد کا تعلق ریاست بہاولپور سے تھا۔ آپ کے والدِ محترم عدالت میں منشی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ آپ کا گھرانہ والد، والدہ، سات بہنوں اور چھ بھائیوں پر مشتمل تھا، گھر کے مخصوص مالی حالات کی بنا پر آپ زیادہ تعلیم تو حاصل نہ کر سکے مگر آپ نے موٹر اور موٹر سائیکل مرمت کے ماہر میکینک بننے میں کامیاب رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ تاریخ، ادب، سیاست اور خدمتِ خلق سے بھی بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ آپ کی ریاست بہاولپور کے حکمرانوں سے بے پناہ عقیدت و محبت اپنی مثال آپ تھی۔ آپ نے اپنی زندگی کے بیشتر ایام خانوادہِ ریاست بہاولپور کی خدمت میں گذارے، آپ ڈیرہ نواب صاحب میں نواب عباس خان عباسی کے ہمراہ رہے اور جب تک نواب صاحب گورنر پنجاب رہے آپ بھی اُن کے ہمراہ لاہور میں مقیم رہے۔ اُن کی وفات کے بعد آپ اور استاد رحیم کافی عرصہ تک صادق گڑھ پیلس میں نواب صلاح الدین عباسی کے موٹر خانے کے انچارج رہے۔
آپ کی رہائش گاہ بہاولپور کے مشہور تاریخی دروازے احمد پوری گیٹ سے متصل ہے، جو کہ دوسری منزل پر واقع ہے۔
یہاں آپ نے اپنی ایک نجی لائبریری اور میوزیم قائم کیا ہوا ہے۔ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب کتب جو کہ ریاست سے متعلق لکھی گئی ہیں، جن میں عربی، فارسی، سرائیکی، اُردو اور انگریزی میں لکھی گئی کتب، نواب صاحب کے ہاتھ سے لکھے گئے فرامین کے مسودات، ریاست کے سرکاری حکم نامے، سالانہ گزٹ، اور ریاست سے جاری ہونے والے علمی و ادبی رسائل اور اخبارات آپ کے پاس محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ریاست سے متعلق تصاویر، نواب صاحب کے استعمال میں رہنے والے قلم، برتن، نیلم کا کام ہوئی پلیٹیں، صراحیاں، ٹائم پیس، لیمپ، مونو گرام، سکے، تلوار، ایوارڈ، اور اسناد اس لائبریری اور میوزیم کا حصہ ہیں۔ جن سے ریاست بہاولپور اور اس کے نوابین سے متعلق ان کی تاریخ اور یہاں کی کی علمی و ادبی ترقی، اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں سیر حاصل آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اس لائبریری کی تنظیم، تدوین و ترتیب میں اُن کی اہلیہ محترمہ نسرین غوری صاحبہ کی کاوشیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ آپ کی بطور لیڈی کونسلر، سیاسی، سماجی اور سوشل سرگرمیاں بھی انتہائی قابلِ تعریف ہیں۔ جناب گلزار غوری کی لائبریری سے ریاست بہاولپور سے متعلق تحقیق کرنے والوں کو خاصا مواد مل سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون ٹیچر محترمہ زاہدہ اختر نے نے اپنا ایم فل کا تحقیقی مقالہ بعنوان”گلزار غوری کتب خانے کا توضیحی اشاریہ بحوالہ خصوصی ریاست بہاولپور” مکمل کرکے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔
مرحوم گلزار غوری کے پاس موجود ریاست بہاولپور نایاب تصاویر کی دھوم ملک سے باہر پہنچی تو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے بہاولپور آکر غوری صاحب کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اسی طرح کچھ اداروں اور نجی شخصیات نے ایک خطیر رقم کے عیوض ان تاریخی تصاویر کو خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا، مگر آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میرا عشق ہیں اور عشق برائے فروخت نہیں ہوتا۔ آپ کی لائبریری اور میوزیم کو دیکھنے ملک اور بیرون ملک سے محققین، سکالرز، سیاسی و سماجی شخصیات اور خاندانِ عباسیہ کے لوگ اکثر یہاں آتے رہتے ہیں۔
مرحوم گلزار احمد غوری کی شخصیت کا ایک اور اہم پہلو اُن کی سیاسی و سماجی خدمات ہیں۔ سنہ 1988ء میں ریاست بہاولپور کے حکمران سر صادق محمد خان عباسی کے نواسے صاحبزادہ فاروق انور عباسی نے بہاولپور سے بطور رکن صوبائی اسمبلی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو جناب گلزار احمد غوری اُن کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ اور اُن کے معتمد ترین ساتھی کا درجہ حاصل کر لیا، صاحبزادہ فاروق انور عباسی نے بطور ایم پی اے ایک مرتبہ اور بطور ایم این اے دو مرتبہ بہاولپور شہر کی نمائندگی کی، جس میں جناب گلزار احمد غوری اُن کے متحرک ساتھی رہے۔ اور اُن کے نمائندے کے طور پر عوام کے بجلی، سوئی گیس اور دیگر مسائل کے حل میں اپنا بھرپور اور بے لوث کردار کیا۔ بعد ازاں صاحبزادہ فاروق انور عباسی نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا مگر غوری صاحب نے اُن کا ساتھ نہ چھوڑا اور اُن کی وفات تک اُن کے ہم قدم رہے۔ غوری صاحب کچھ عرصہ تک سابق وفاقی وزیر جناب انجینئر محمد بلیغ الرحمٰن کے ہاں بطور پولیٹیکل اسسٹنٹ کام کرتے رہے۔ خرابیِ صحت کے باعث آپ نے اپنی سیاسی سرگرمیاں ترک کرکے اپنے آپ کو صرف ادبی محافل تک محدود کرلیا تھا۔ جن وہ تواتر سے شرکت کرتے تھے۔ مگر ایک سال قبل صحت کی مزید خرابی کے بعد آپ صاحبِ فراش ہو گئے تھے۔ اور بالآخر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ آپ نے اپنے پسماندگان میں بیوہ، تین بیٹے صلاح الدین، فلاح الدین، عبدالحنان اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
ہماری اربابِ اختیار سے اپیل ہے کہ وہ جناب گلزار غوری کے چھوڑے ہوئے تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرے، جس کا ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے۔ بہاولپور میوزیم میں اُن کے نام سے ایک گیلری قائم کی جا سکتی ہے۔ جس کے لیے غوری صاحب کے اہل خانہ کی سرکاری طور پر مالی معاونت بھی کی جائے۔ ہم خاندانِ عباسیہ کے چشم و چراغ، بہاولپور و احمد پور شرقیہ کے عوامی نمائندوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے مرحوم گلزار احمد غوری کے زندگی بھر کے جمع کیے ہوئے ریاست بہاولپور کے تاریخی اثاثے کو محفوظ بنانے میں اربابِ اختیار کو قائل کریں۔
اللہ تعالٰی جناب گلزار احمد غوری کی مغفرت فرمائے، اور انھیں اپنے جوار رحمت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے۔
اُن کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا ربِ کریم
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...