ہمیشہ سے سنتے آ رہے ہیں کہ علم کے بغیر انسان کچھ نہیں۔ تعلیم کا حصول اسکا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ تعلیم یافتہ فرد ہی اپنی ذات کے لیے اور سماج کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ جاہل اور باشعور شخص میں تفریق جو چیز کر سکتی ہے وہ تعلیم ہی تو ہے۔
بدقسمتی سے اسکا تعین وہ تعلیمی ادارے کر رہے ہیں جو خود جہالت کی آماجگاہ ہیں۔المیہ یہ ہے کہ آپ معصوم بچوں کے تجسس کو کچلنے، تنقیدی شعور کا گھلا گھوٹنے اور انکی انفرادیت کو قتل کرنے کے پیسے دیتے ہیں۔
اب شاید آپ معترض ہوں کہ یہ درسگاہیں کیسے جہالت کا ذریعہ بن سکتی ہیں کیونکہ بظاہر تو انکا کام علم کی شمعیں روشن کرنا ہے۔ تو زرا غور کیجئے کہ جہل کے مقابلے میں تنقیدی شعور، فہم و دانش، تخلیقی ذہن، منطق اور استدلال کھڑا ہے۔ اور پھر اندازہ کیجیے کہ ان تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لینے والوں میں سے کتنے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ بمشکل چند لوگ ہی ایسے ملیں گے اور انہوں نے بھی اس نظام سے بغاوت کر کے ہی اپنا رستہ بنایا ہو گا۔ کیونکہ تعلیمی ادارے تو یہ سب کچھ آپ سے چھیننے اور آپکے اذہان مفلوج کرنے کا بیڑہ اٹھاۓ ہوۓ ہیں۔
یوں تو علم کی بنیاد ہی سوال پر کھڑی ہے مگر یہاں تو الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے۔ یہاں سوال کرنا حرام ہے اور سوال کرنے والا ناقابل برداشت۔ متجسس اور تخلیقی ذہن رکھنے والا پاگل قرار دیا جاتا ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے معیارات پر اگر کوئی پورا اترتا ہے تو صرف وہ جو سوال نہیں کرتا اور اساتذہ کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے ہوۓ اس پر ایمان لے آتا ہے۔یہ آمرانہ طرز تعلیم بچوں کے رویوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ جو خود گھٹن کے ماحول میں رہتے ہیں وہ کل کو دوسروں پر بھی سوچنا حرام ہی کریں گے۔
استاد کی عزت کے سطحی تصور کی آڑ میں بچوں کی شخصیت کہیں دب کر رہ جاتی ہے۔اساتذہ بھی ظاہر ہے اسی نظام کی پراڈکٹ ہیں اور وہ اسکا ثبوت بھرپور طریقے سے دے رہے ہیں۔ تعلیم کے نام پر معصوم ذہنوں کو جہالت اور عقیدت پڑھانا انتہائی گھناؤنا فعل ہے۔ کسی کی سوچ، تخلیقی صلاحیتوں اور انفرادیت کو مارنے سے بڑا ظلم اور کیا ہو گا۔
یہاں نظم و ضبط کے نام پر ذہانت اور انفرادیت کا قتل کیا جاتا ہے۔ تمام بچوں کو ایک ہی پیمانے پر پرکھنا ازخود بہت بڑی نا انصافی ہے۔یہ نظام یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہر بچے کی نفسیات مختلف ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو جو نفسیات کی ڈگریوں کا بوجھ کندھے پر اٹھاۓ پھر رہے ہیں انہیں نفسیات کی الف ب نہیں معلوم تو پھر کیسی توقع!!!
ان تعلیمی اداروں میں ہونے والی روزانہ کی ایک سی مشق
نے بچوں کے ذہنوں کو تھکا دیا ہے۔ اگر تو کوئی مجھ سا دماغ نظریات کے تنقیدی جائزے میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس سسٹم میں آپکی کوئی جگہ نہیں اور آپ قطعی ناقابلِ برداشت ہیں۔ کیونکہ اول تو نظریات پر بحث و مباحثہ کی ہی گنجائشں نہیں لیکن اگر ایسی صورتحال ہو بھی تو آپکا یہ شوق توہین کے زمرے میں آۓ گا۔ بنیادی مسئلہ کچھ یہ ہے کہ اگر آپ میں تنقیدی شعور پیدا ہو گیا اور آپ سوال کرنے لگے تو بڑے بڑے بت ٹوٹ جائیں گے۔ جو خوف اور عقیدت کی بنیادوں پر کھڑے ہیں۔کیونکہ منطق، تنقیدی شعور اور سوال کی طاقت سب سے پہلے خوف اور عقیدت پر ہی ضرب لگاتی ہے۔ اس سال عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں کشور ناہید صاحبہ نے تعلیمی اداروں میں فلسفہ نہ پڑھاۓ جانے کیطرف توجہ مبذول کروائی تو ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے ہنستے ہوئے کہا کہ “یہاں فلسفے پر بات کرنے کی اجازت ہی نہیں کیونکہ فلسفے کیلئے آپ کو سوال کرنے ہوتے ہیں اور وہ سوال آپ کو بہت دور تک پہنچا سکتے ہیں”.
اس نظام میں جس کی جتنی غلامانہ سوچ ہے وہ اتنا ہی قابل قبول ہے۔روزانہ ایک حکم کے مطابق پہلے سے لکھے ہوئے کو پھر سے یاد کرنے یا لکھ کے لانے کی مشق غلامی نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کوئی ان کا تجزیہ کرنے یا ان پر سوال کرنے کی کوشش کرے تو آپ اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیں گے کہ جتنا کہا ہے اتنا کرو زیادہ فلاسفر نہ بنو ۔ ایسے جیسے فلاسفر ہونا کوئی گالی ہے۔
پھر اگر کوئی حکم کی تعمیل سے انکار کرے تو آپ اس پر بدتمیزی اور نالائقی کا ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔
ذہنی ٹارچر تو ان نام نہاد تعلیمی اداروں میں ہوتا ہی ہے جسمانی استحصال میں بھی یہ پیچھے نہیں۔ اگر کسی نے دو صفحوں کا رٹا اچھا مار لیا ہے تو اس کے لیے تالیاں، سمجھ چاہے اسے ایک لفظ کی بھی نہ آئی ہو۔ اور جس نے رٹا مارنے کی عظیم مشق نہیں کی تو اسے جسمانی تشدد سہنا پڑے گا۔ ایسی خوف اور گھٹن کی فضا میں تخلیقی ذہن اور تخلیق دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ اسی ذہنی و جسمانی تشدد کیوجہ سے بچے سکول جاتے ہوۓ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ بھلا ہو غدار ملالہ کا جس نے دورہ پاکستان پر وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے تعلیمی اداروں میں جسمانی تشدد کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔ جی ہاں! وہی ملالہ جس کی تصویر نصاب کی کتاب میں چھپنے سے پدرشاہی کی بنیادیں لڑکھڑا گئ تھیں۔
بات کرنے پہ آئیں تو داستان بہت طویل ہے۔ اس پر تو کتابیں لکھی جانی چاہیے مگر یہ تو ہمارا مسئلہ ہی نہیں۔قصہ مختصر یہ کہ ان جہالت کے کارخانوں کو بند ہی کر دیں اگر یہ ایسے مردہ اذہان پیدا کر رہے ہیں۔ ایک خاتون جو کہ گریجویشن کر رہی ہیں۔ کہتی ہیں کہ آخر میں ہم نے کرنی تو شادی ہی ہوتی ہے ڈگری تو بس اس لیے کر رہے ہیں کہ رشتے کے وقت پروفائل اچھی ہو۔ اس بات سے اندازہ کیجیے آپ کیسے اذہان پیدا کر رہے ہیں۔ آپ کے انہی تعلیمی اداروں سے نکلنے والے پڑھے لکھے نوجوان مشتعل ہجوم کا حصہ بنتے ہیں۔ انہی تعلیمی اداروں سے نکلے عظیم دماغ خواتین کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہی پڑھے لکھے ذہن سوشل میڈیا پر گند لکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر یہی ہے وہ کام جو ان تعلیمی اداروں نے کرنا ہے تو وہ ویسے ہی ہو جاۓ گا۔ یوں تو اس ملک کیساتھ 1947 سے مذاق ہی ہو رہا ہے۔ مگر اس تعلیمی نظام سے تو منظم طور پر کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ کبھی یکساں قومی نصاب تو کبھی کچھ۔۔۔۔
یکساں قومی نصاب کے نام پر تعلیمی امتیاز کے خاتمے کی آڑ میں ہدف دراصل فکری تجسس اور تنقیدی سوچ ہے۔ دو کروڑ سے زائد بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اور جو تعلیمی اداروں میں ہیں وہ پہلے سے لکھے ہوۓ کو پھر سے لکھنے کی مشق کر کے اپنی قابلیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ایسے ذہین لوگ ہم پر مسلط ہیں جو یکساں قومی نصاب کے زریعے قومی یکجتی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان فیصلہ سازوں کا ماننا ہے کہ یکساں قومی نصاب سے ایچ ای سن اور مدرسے کے بچے برابر آ کھڑے ہوں گے۔ مجھے تو خیرت ہے کہ کیسے کیسے شاندار لوگ عہدوں پر براجمان ہیں۔ جن تعلیمی اداروں کا انفراسٹرکچر تباہ حال ہو، اساتذہ کی کمی ہو، طرز تعلیم بدترین ہو وہاں انکو فقط نصاب سے چھیڑ چھاڑ ہی سوجھی۔ نصابی کتب کیساتھ ریاستی سرپرستی میں ہونے والے جس کھلواڑ کی نشاندھی خورشید کمال عزیز نے اپنی کتاب ” پاکستانی تاریخ کا قتل” میں کی ہے اس پر نظر ثانی کر دیتے تو اس قوم پر بڑا احسان ہوتا۔ مگر یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیمی نظام سے جڑے ہر مسئلے کا حل فقط یکساں قومی نصاب میں مضمر یے۔ مدرسوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی خواہش کرنے والے نصاب میں ہر جگہ مذہبی مواد کو یقینی بناتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں۔ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ خود بے وقوف ہیں یا ہمیں بے وقوف بنا رہے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ روایتی تعلیمی نظام ناکام ہو چکا۔ اور اس پہ بہت لوگ بات کر چکے ہیں۔ لیکن وطن عزیز میں تعلیم ہمارا موضوع بحث ہی نہیں تو اس سے جڑے مسائل ہمیں کیسے دکھائی دیں۔ جرمن فلسفی فریڈرک نطشے روایتی تعلیم کا سخت مخالف تھا۔ اسکے مطابق یہ تنقیدی شعور، تخلیقی صلاحیتوں، انفرادیت اور اسکے اظہار کی بجاۓ رٹا لگانا، مطابقت اور اطاعت و فرمانبرداری سکھاتا ہے۔ اس نے کہا تھا
“نوجوان نسل کو تباہ کرنے کا ایک یقینی راستہ یہ ہے کہ انہیں یکساں سوچ رکھنے والوں کی عزت و تکریم اور مختلف سوچ رکھنے والوں کی حقارت و تزلیل سکھائی جائے”
سو دراصل یہ نظام مفکر اور دانشور نہیں بلکہ غلام پیدا کر رہا ہے۔ کسی فلسفی نے کہا تھا دانشوروں کا کام ہی اتھارٹی کو چیلنج کرنا ہے۔ اسی لیے تو اس گھٹن زدہ ماحول میں آپکا گلا گھونٹا جا رہا ہے تا کہ آپ کسی کو چیلنج کرنے کے قابل نہ رہیں۔ نطشے روایتی تعلیمی نظام کے ناقد کے طور پر کہتا ہے کہ یہ نظام آزاد سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ وہ نمبروں کی بنیاد پر طلبہ کی درجہ بندی کرنے کے تصور کو غلامانہ ذہنیت سے تعبیر کرتا ہے۔ اسکے مطابق ہر کسی کو خود اپنا راستہ بنانا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے یہاں تو رستہ ہی ایک ہے اور اسی پہ چلنا ہے۔ اگر نہیں تو آپکا انجام مشعال جیسا ہو گا۔
تعلیمی اداروں میں تو ایسا ماحول ہونا چاہیے جہاں فکر کی آزادی ہو جہاں روایات کو چیلنج کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاۓ مگر یہ تعلیمی نظام تو ایک مہرہ بن چکا ہے جو ہمیں پہلے سے رائج خودساختہ اخلاقی و سماجی اقدار کے تابع بناتا ہے۔ نوم چومسکی کہتا ہے کہ تعلیم مسلط کردہ جہالت کا نظام ہے ۔ کیونکہ یہ دراصل تعلیم نہیں بلکہ محسوس عقائد کی تلقین ہے۔ کیونکہ یہ ہمیں یہ نہیں بتارہی کہ کیسے سوچنا ہے بلکہ یہ بتا رہی ہے کہ “کیا سوچنا ہے” تمام بچوں کو ایک جیسا بنانے اور انکی انفرادیت کو کچلنے کا یہ گھناؤنا کھیل ختم ہونا چاہیے۔ یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ عظیم لوگ ہمیشہ مختلف سوچتے ہیں سو ایک جیسا بننے کے جنون سے نکل آئیں ۔تعلیم تو وہ ہے جو ایک فرد کو خودمختار اور آزاد بناۓ۔ جون ایلیا اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں “یہاں طلبا کی ایک ایسی نسل کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو علم کو جھٹلانے کیلئے علم حاصل کرنے جاتی ہے۔ یہ سب جہل اور جاہلیت کے گرگے ہیں جنہیں علم کے دشمنوں نے علم کے پیچھے لگا دیا ہے۔ نوجوانوں کو جبری یقین سے نجات ملنی چاہیے انہیں سوچنے اور محسوس کرنے کی آزادی ہونی چاہیے ۔صرف وہی نوجوان دانش گاہوں کی سرپرستی اور ہمت افزائی کے مستحق ہیں جنہیں عائد کیے ہوے فیصلوں سے انکار ہے اور جو صحیح اور غلط کا فیصلہ اپنی عقل سے کرنا چاہتے ہیں”