باہر سے مکان کی ساخت اقلیدسی، ڈیوڑھی روکو کو Rococo انداز کی، دیوان خانے میں ملکہ این کے زمانے کا فرنیچر، نشست گاہ میں نئی اطالوی کرسیاں، کھانے کے کمرے میں بجلی سے برتن دھونے کے انتظام کے ساتھ ساتھ جاپانی طرز کا دسترخوان، سونے کے کمرے میں ریڈانڈین لوگوں کے ہاتھ سے بنائی ہوئی دریاں، آرائش کے لئے افریقہ کے نقلی چہرے۔
اس قسم کا مکان آج کل آپ کو امریکہ میں آسانی سے مل جائے گا۔ مکان میں رہنے والا ایزرا پاؤنڈ کی شاعری کو مہمل بتائے گا لیکن خود اس نے سارا انگڑ کھنگڑ اس لئے جمع کیا ہے کہ یونیسکو کہتی ہے ان برق رفتار تبدیلیوں کے زمانے میں بھی ہمیں انسانی کلچر کی روایت کو محفوظ رکھنا چاہئے۔ صرف اپنے شہریا ملک کی روایت کو نہیں، بلکہ ساری انسانی تاریخ کی روایت کو۔ بچارے مکان والے کو کچھ پتہ نہیں کہ انسانی تاریخ کیا چیز ہے۔ اس نے جو چیزیں ادھرادھر سے اکٹھی کی ہیں۔ ان میں کوئی روایتی چیز ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے بھی تو اس روایت کو محفوظ رکھنے سے کیا فائدہ ہے۔ اسے یونیسکو کا حکم بجا لانا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ ایک طرف تو خلائی سفر کے زمانے میں ہر وقت اپنے آپ کو بدلتا رہے اور دوسری طرف انسانی کلچر کو بھی محفوظ رکھے۔ اردو کے تنقیدنگاروں کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس کوشش میں بڑا توازن اور ٹھہراؤ پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں نئے اور پرانے، جدت اور روایت کا امتزاج ہے۔ بہرحال مکان والا کچھ نہیں جانتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔
ادیب لوگ کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی مشہور بات ہے کہ انسان کی خود شعوری نے آج کل بہت ترقی کرلی ہے۔ ایلیٹ صاحب تک فرما گئے ہیں۔ چنانچہ آج کل ادب کے بازار میں تجربے اور روایت دونوں کے دام بہت اونچے ہیں۔ امریکہ میں درجنوں شاعر ایسے موجودہیں کہ فرمائش کی دیر ہے، جس روایتی اندازمیں آپ چاہیں وہ پانچ منٹ کے اندرنظم کہہ کر دکھا دیں گے اور ایسی کہ اصل اور نقل میں تمیز نہ ہو سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کل ادیبوں میں بھی بڑی سنجیدگی، توازن اور ٹھہراؤ آگیا ہے اورتجربہ اور روایت دونوں بیک وقت پھل پھول رہے ہیں۔ اس تہذیبی ترقی پرخوش ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تجربہ اور روایت کا مطلب بھی سمجھ لیں۔ جدت اور تجربہ تو خیر یہ ہوا کہ آدمی کوئی ایسی بات کرے جو پہلے کبھی نہ ہو یا کم ہوئی ہو۔ مگر روایت؟
ایک اوسط درجے کے ادیب کے ذہن میں روایت کا کیا تصور ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لئے میں نے انگریزی کی ایک کتاب اٹھائی جس میں مختلف ادیبوں نے تجربے اور روایت کے مسئلے پر بحث کی ہے۔ ایک صاحب کہتے ہیں کہ انگریزی ناول کی روایت تجربہ ہے۔ دوسرے صاحب کہتے ہیں کہ روایت کامیاب تجربوں کا ماحصل ہے۔ اس زیادہ کچھ نہیں۔ تیسرے صاحب کہتے ہیں۔ روایت ہمیشہ بدلتی اور نشوونما پاتی رہتی ہے اور ہم ہر وقت روایت کی تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ چوتھے صاحب کہتے ہیں ہر فن کی روایت الگ ہوتی ہے۔ پانچویں صاحب کہتے ہیں روایت کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ چھٹے صاحب نے اپنی بحث کی بنیاد ورڈز ورتھ کے اس قول پر رکھی ہے کہ بڑا ادیب وہ ہے جو انسانی احساس کا دائرہ اس طرح وسیع کر کے دکھائے جو پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔ ان سارے بیانات سے در اصل نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روایت بذات خود کوئی چیز نہیں۔ اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں۔ بس جو ادب پارہ کچھ پرانا ہو جائے اسے روایت کہہ دیتے ہیں۔
اگرواقعی روایت کے یہی معنی ہیں تو پھر نہ معلوم یونیسکو یا بہت سے مہذب لوگ روایت کو محفوظ رکھنے کے لئے اتنے کیوں پریشان ہیں، ایسی روایتیں تو روز بن اور بگڑ سکتی ہیں۔
لیکن ممکن ہے اس روایت میں کوئی واضح معنی بھی ہوں۔ ایلیٹ صاحب کو دعویٰ ہے کہ ان کے ذہن میں روایت کا واضح تصور موجود ہے اور آج کل کی انگریزی تنقید میں اور اس کے اثر سے خود اردو کی تنقید میں روایت کا چرچا انہیں کے فیض سے ہوا ہے۔ لہذا ان سے بھی رجوع کر کے دیکھیں۔
ایلیٹ کے بارے میں دوباتیں یاد رکھئے، ایک تو وہ رومن کیتھلک ہیں، یا اس مذہب کو پسند کرتے ہیں، دوسرے تاریخی شعور پر بہت زور دیتے ہیں جس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ آدمی کو زمانیت اورلازمانیت دونوں کا احساس الگ الگ بھی ہو اور بیک وقت بھی۔ ان کے نزدیک ایسے ہی شعور کے ذریعے ادیب روایتی بنتا ہے۔
روایت کے متعلق بحث کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ادب کا سب سے پہلا اور بنیادی مقصد ایک خاص قسم کی ذہنی اور لطیف لذت بہم پہنچانا ہے۔ یہ بات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ یوں ہی رہے گی۔ ممکن ہے یہ خیال یورپ کے بارے میں درست ہو، لیکن مشرق کے روایتی معاشرہ میں ادب اور فن کو محض ایک ذریعہ سمجھا گیا ہے اور ان کا اصلی اور بنیادی مقصد معرفت کا ایک وسیلہ بنتا ہے۔ یورپ والے اور اب تو بہت سے ہندو بھی یہی کہتے ہیں کہ ہندو مذہب اور فن ایک چیز ہے۔ لیکن ناٹیہ شاستر میں صاف لکھا ہے کہ جب انسانوں میں انحطاط رونما ہوا اور معرفت کی صلاحیت کم ہونے لگی تو انسانوں کی سہولت کے لئے برہما نے رقص اور موسیقی کی تخلیق کی۔
پھر ایلیٹ صاحب ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ادب کو صرف اپنے مزاج کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں اور ہر نسل کا نقطہ نظر نیا ہوتا ہے۔ دوسری طرف کہتے ہیں کہ واضح ادبی معیار ہونے کے لئے واضح اخلاقی معیاروں کا وجود ضروری ہے۔ کیا مزاج اور اخلاقی معیار ایک ہی چیز ہیں؟ یہ اخلاقی معیار قائم بالذات ہیں یا بدلتے رہتے ہیں؟ اور یہ آتے کہاں سے ہیں؟ یہ سارے بنیادی سوال ایلیٹ صاحب گول کر گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہر نسل ادب کو اپنے طریقے سے پڑھتی ہے اور اپنے نقطہ نظر کی بدولت ماضی کو اور روایت کو بدلتی رہتی ہے۔ ان کی رائے ہے کہ روایت کوئی ایسی چیز نہیں جسے بدلا نہ جا سکے یا جو ایک جگہ ٹھہری رہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یورپ کا ذہن بدلتا رہا ہے مگر ان تبدیلیوں کے باوجود اس نے کوئی چیز اپنے اندر سے خارج نہیں کی۔ وہ کیا چیزیں ہیں جو یورپ کے ذہن نے اب تک محفوظ رکھی ہیں؟
ایلیٹ صاحب ڈانٹے کے بڑے عاشق ہیں، مگر کیا انہیں معلوم ہے کہ ڈانٹے نے اپنی بحر بلکہ ہر سطر کے اجزاء کا انتخاب کن اصولوں کے مطابق کیا ہے؟ ابن عربی کے جن تصورات پر ڈانٹے کی نظم کی بنیاد ہے کیا یورپ کا ذہن آج ان سے واقف ہے؟ اگر واقف نہیں تو کیا یورپ کے ذہن نے بہت سی چیزیں کھو نہیں دیں؟ پھر ایلیٹ صاحب کے نزدیک تو روایت بدل بھی سکتی ہے، لیکن ابن عربی کے تصورات کی تو پہلی شرط ہی یہ ہے کہ ان میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں۔ اس سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یورپ نے بلکہ خود ایلیٹ صاحب نے بھی ڈانٹے تک کو محفوظ نہیں رکھا۔ پھر وہ کون سی روایت ہے جس کا شور ایلیٹ صاحب لازمی قرار دیتے ہیں۔
روایت کو سمجھنے کے لئے ایلیٹ صاحب علوم سے واقفیت ضروری سمجھتے ہیں۔ مثلاً لسانیات سے۔ چنانچہ روایت کے بارے میں مغرب کے نئے علوم کی معذوریوں کا حال بھی دیکھتے چلئے۔ ہندی میں جو لفظ ’’جاتی‘‘ ہے وہ اردو میں ’’ذات‘‘ بن گیا ہے۔ مغربی لسانیات کی رو سے یہاں تغیر صرف صوتی ہے اور ’’ج‘‘ کے بجائے ’’ڈ‘‘ آگئی ہے۔ لیکن در اصل یہ ٹھیٹ ترجمہ ہے۔ ذات کا اطلاق اولاً تو خدا پر ہوتا ہے لیکن مراتب وجود کے حساب سے اس لفظ کے معنی بدلتے جاتے ہیں۔ ہندوؤں کے یہاں فرد کی حقیقت کا تعین اس کی جاتی کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ لہذا معاشرتی دائرے میں جاتی ہی فرد کی ذات ہے چنانچہ ’’جاتی‘‘ کا ترجمہ ’’ذات‘‘ ہو گیا۔ اسی ایک مثال سے اندازہ لگا لیجئے کہ مغربی علوم روایت کو سمجھنے میں کتنی مدد دے سکتے ہیں۔
اب رومن کیتھلک ایلیٹ صاحب کا اس سے بھی زیادہ حیرت ناک بیان دیکھئے۔ کہتے ہیں کہ روایت کا دار و مدار عقائد پر نہیں، عقائد تو روایت کی تشکیل کے دوران میں زندہ صورت اختیار کرتے ہیں۔ اگرعقیدے اسی طرح پیدا ہوتے ہیں تو مذہب اچھا خاصا تماشا بن جاتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ ایلیٹ صاحب اپنی مذہبیت کے باوجود عقیدے کے لفظ سے اتنا ہی بھڑکتے ہیں جتنا گبن۔ در اصل یورپ کو معلوم ہی نہیں کہ عقیدہ کیا چیز ہے۔ مشرق میں عقیدہ شہودی چیز ہے اور عقیدے کو براہ راست شہود میں لانے کے طریقے بھی مقرر ہیں۔ چودہویں صدی کے بعد سے یورپ میں تو کلیسا تک بھول گیا کہ عقیدے کی نوعیت کیا ہے۔ لہذا پچھلے تین سو سال سے یورپ والوں کے نزدیک عقیدہ یا تو ایک جابرانہ حکم بن گیا ہے یا ایک منجمد جذبہ۔ اس سے آگے یورپ کچھ نہیں جانتا۔ اوپر سے ایلیٹ صاحب کہتے ہیں کہ یورپ کے ذہن نے کوئی چیز ضائع نہیں کی۔ یورپ میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کی وجہ ایلیٹ صاحب معاشی اور صنعتی بتاتے ہیں۔ اگر کپڑے دھونے کی مشین کے ساتھ ساتھ عقیدہ بھی بدل سکتا ہے یا نشوونما پا سکتا ہے تو ایسے عقیدے کی قدر و قیمت ہی کیا؟
اور ایلیٹ صاحب فی الجملہ عقیدے کو اسی سطح پر لے آتے ہیں۔ روایت کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روایت وقیع ترین مذہبی رسوم سے لے کر سلام کرنے کے طریقے تک ان سارے افعال کا مجموعہ ہے جو ایک جگہ رہنے والے اور ایک نسل کے لوگوں کے لئے معمول بن گئے ہیں۔ غرض ایلیٹ صاحب بھی روایت کے متعلق بس وہی کہہ رہے ہیں جو بیس دوسرے لوگ کہتے ہیں۔ یعنی روایت کا مطلب ہے عادت۔ لیکن عادت تو بڑی کمزور چیز ہے۔ عادت کو زندہ رکھنے پر اتنا زور کیوں؟ ایلیٹ صاحب کی کمزوری یہ ہے کہ انہیں مذہب بھی پسند ہے اور ڈارون بھی۔ لہذا انہوں نے روایت کے متعلق غل شور مچا کے مسئلے کو الجھا دیا ہے۔ بلکہ ان کے دوست ونڈہم لوئس نے کہا ہے کہ مسئلے کو بالکل مہمل بنا دیا ہے۔
بہر حال ایلیٹ کے اثرسے روایت کا لفظ فیشن میں داخل ہو گیا ہے۔ اب روایت کی تعریف تو ہر آدمی کرتا ہے لیکن مزا یہ ہے کہ جس کتا ب یا مصنف کو ایک نقاد روایت میں شامل کرتا ہے، دوسرا آدمی اسی کو خارج کرتا ہے۔ بہترین مثال ایف، آرلوئس کی ہے انہوں نے انگریزی ناول کی عظیم روایت میں سے فیلڈنگ کو نکال پھینکا ہے غرض مغرب میں موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہر آدمی نے روایت کا ایک الگ تصور قائم کر رکھا ہے اور اس لفظ میں کوئی معنی باقی نہیں رہے۔ بلکہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر اٹک گئی ہے۔
تنقید تو خیر جنگ زرگری ہے اس سے تو ہم بے اعتنائی بھی برت سکتے ہیں۔ لیکن روایت کا صحیح تصور نہ ہونے کی وجہ سے تخلیقی فنکاروں کو جو پریشانی ہو رہی ہے وہ عبرت خیز ہے۔ ایزرا پاؤنڈ کو میں آج کل دنیا کا سب سے بڑا شاعر مانتا ہوں لیکن روایت کے معنی واضح نہ ہونے کی وجہ سے وہ عجیب کشمکش میں پڑ گیا ہے۔ سب کا خیال تھا کہ اس کی عظیم نظم سو اجزا میں مکمل ہو جائے گی لیکن وہ آگے چل پڑی ہے۔ دنیا میں جو برائیاں ہیں وہ پاؤنڈ نے بتا دیں۔ جو اچھی اقدار ہیں وہ گنوا دیں۔ نظم کے آخر میں مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ان اقدار کے لئے کوئی پائیدار بنیاد فراہم کی جائے۔ وہ پاؤنڈ کو ملتی نہیں۔ اخلاقی اقدار تو اس نے کنفوشش سے لے لیں مگر ان کے پیچھے جو ما بعد الطبعیات ہے اسے وہ حقیر سمجھتا رہا۔ اب ان کے لئے جواز لائے تو کہاں سے؟ فطرت کو بنیاد بنائے؟ مگرفطرت کیا چیز ہے؟ اس کا جواب نہیں ملتا۔ لہذا گھبراہٹ میں پاؤنڈ میگنا کارٹا کی تعریف شروع کر دیتا ہے۔ مگر انسان کی زندگی کو میگنا کارٹا پر قائم کرنا مضحکہ خیز حرکت ہے۔
تو اب بات یہاں آکے ٹھہری کہ روایت کے معنی سمجھے بغیر ادب چل نہیں سکتا اور مغرب روایت کے معنی سمجھنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔ چنانچہ یہ سوال وہی کا وہیں رہا کہ روایت کیا ہے۔
مغرب میں اس سوال کا جواب ایک شخص نے دیا ہے اور مغرب اس شخص کی بات سننے سے انکاری ہے۔ میرا مطلب رنے گینوں سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روایتی ادب اور روایتی فنون صرف روایتی معاشرے میں پیدا ہو سکتے ہیں اور روایتی معاشرہ ہے جو ما بعد الطبعیات کی بنیاد پر قائم ہو۔ ما بعد الطبعیات چند نظریوں کا نام نہیں۔ التوحید واحد۔ ما بعد الطبعیات صرف ایک ہی ہو سکتی ہے، یہی اصلی اور بنیادی روایت ہے۔ اس کا تعلق کسی نسل یا ملک سے نہیں البتہ اس کے اظہارکے طریقے مختلف ہوتے ہیں اور ہندو روایات یا چینی یا اسلامی روایت میں فرق انہیں طریقوں کے اختلاف سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب میں خشکی ہے اور ہندو تہذیب میں حسیات کی رنگا رنگی ہے لیکن اپنشد میں لکھا ہے کہ انسانی وجود کے مرکز میں نہ تو سورج کی روشنی ہے نہ چاند کی، نہ ستاروں کی، بلکہ ہر چیز پرش کے نور سے منور ہے۔ چنانچہ بنیادی روایت ہر جگہ وہی ہے، صرف شکلوں کا فرق ہے۔
یہ ما بعد الطبعیات ہے کیا؟ چونکہ ادب کا تعلق خدا، کائنات اور انسان کے باہمی رشتے سے ہے اس لئے میں بنیادی روایت کا صرف اتنی ہی حصہ پیش کروں گا۔ شاہ وہاج الدین نے ’’الکہف والرقیم‘‘ کے دیباچے میں پوری بات بڑے اختصار کے ساتھ کہہ دی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’جب آپ وجود مطلق کو بلا لحاظ تعینات یاد کریں گے تو یہ وجود باری ہے اور جب بلحاظ تناسب تعینات محسوس کریں گے تو یہ روحانیات ہے۔ جب بلحاظ اغراض دیکھیں گے تو یہ مادیت ہے۔ وجود انسانی سے مراد وجود مطلق ہے۔ روح انسانی سے مراد روح ہے جو مجموعہ تعینات انفسی و آفاقی ہے۔ جسم انسانی سے مراد خلاصہ مادیات انفس و آفاق ہے۔‘‘
یہ ہے وہ تصور جو روایت کی جڑ ہے۔ اگر ادب اس تصور کی بنیاد پر قائم ہے تو وہ روایتی ہے ورنہ نہیں، چاہے لفظ اور اسالیب وہی استعمال ہو رہے ہوں۔
اس ما بعد الطبعیات سے ادب کو سمجھنے اور اس کی قدر و قیمت جانچنے کے چند اصول بھی نکلتے ہیں، وہ بھی شاہ وہاج الدین نے لکھ دیے ہیں۔ ادب کے بارے میں انہوں نے چند سطریں ہی لکھی ہیں، لیکن ایسی ادبی تنقید آپ کو اردو میں مشکل سے ملے گی۔ انہوں نے ایک معیار پیش کر دیا ہے، جو دنیا بھر کے ادب پر حاوی ہے۔
اب ان کی عبارت سن لیجئے۔ پہلے تو انہوں نے بتایا ہے کہ انسان کے پیش نظر معرفت کے لئے صرف دو ہی تعینات ہیں، انفس اور آفاق۔ اس کے بعد لکھتے ہیں ’’تکمیل اس میں ہے کہ دونوں کی شناخت ایک ساتھ ہو اور انفس کی شناخت کو آفاق کی شناخت پر غلبہ ہو۔ کیونکہ آفاق جسم ہے اور انفس اس کی روح ہے۔ کیونکہ آفاق میں کسی چیز کو وجود بلا انفس کے ادراک کے پایا نہیں جاتا ہے۔ پس رونگٹا رونگٹا انفس کا آفاق کے لئے عالم عالم ہے۔ اس لئے پچھلی صدیوں سے شاعری ہر زبان کی بشمول آفاق کے انفس کوغلبہ دے کر مکمل سمجھی گئی ہے اور بہ اعتبار مش ب ہر ملت و قوم کے معشوق انفس ہی کو قرار دیا گیا ہے۔ اس زمانے کی نیچرل شاعری جو بہت پسندیدہ کہی جاتی ہے، وہ ناتمام ہے کیونکہ اس میں صرف آفاق ہی کو لیا ہے اور انفس کو جو آفاق کی جان ہے چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا یہ شاعری مثل ایک جسم بے جان کے ہے اور پرانی شاعری پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جھوٹ اور مبالغہ بھرا ہوا ہے، یہ اعتراض ناسمجھی سے ہے کیونکہ جان کی بابت کوئی بات مبالغہ نہیں ہے۔‘‘
ان دو اقتباسات کے ذریعے نہ صرف روایت کا ایک یقینی مفہوم متعین ہو جاتا ہے بلکہ روایتی نقطہ نظر سے کسی ادب پارے کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کا بھی ایک معیار مل جاتا ہے۔ اب اس معیار کے ذریعے اردو ادب کو دیکھنے کی کوشش کیجئے۔ میں صرف دو تین مثالیں ہی لوں گا۔ ہمارے یہاں بھی اردو ادب کی روایت کو محفوظ رکھنے اور ترقی دینے کا چرچا ہے لیکن ساتھ ہی ہم ایلیٹ کی اس بات کو بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہرنسل ادب کو نئے طریقے سے پڑھتی ہے۔
نئے طریقے سے پڑھنے کے ضمن میں ایک خاص مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو ادب کی روایت میں نظیر اکبرآبادی کا کیا مقام ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان کی عوامی مقبولیت کے باوجود سو سال پہلے تک انہیں ادب میں کوئی اونچا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس لئے بعض نے کہا کہ پہلے زمانے میں لوگوں کا ذوق ہی پست تھا۔ دوسروں نے اسے چند معاملات میں ذوق کی کوتاہی کا نتیجہ سمجھا۔ بعض نے کہا کہ جاگیرداروں کے زمانے میں عوام کے نمائندوں کو حقیر سمجھا ہی جانا چاہئے تھا۔ لیکن آپ دیکھیں تو ان میں سے ہر بات کچی ہے۔ شاہ وہاج الدین والا معیار آزما کے دیکھئے تومعلوم ہوگا کہ قصہ کیا ہے۔ روایتی معاشرے میں نظیر اکبرآبادی جیسے شاعروں کا بھی ایک خاص فریضہ ہے اور اس لحاظ سے ان کی قدر بھی کی گئی۔ لیکن نظیر کی شاعری کے بیشتر حصے میں آفاق کا عنصر غالب ہے اور انفس کا عنصر کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بڑے شاعروں کی صف میں نہیں رکھا گیا اور ان کی تعریف سب سے پہلی کی تو ایک انگریز فیلن نے۔
دوسری مثال مولانا حالی کی لیجئے۔ بظاہر تو حالی روایت کے شاعر نظر آتے ہیں مگر ان کی نعت تک دیکھ لیجئے۔ الفاظ تو وہ روایتی ہی استعمال کر رہے ہیں مگر ما بعد الطبعیات کو چھوڑ کر اخلاقیات ڈال رہے ہیں۔ حالی نے اردو ادب کو بہت فائدہ پہنچایا ہے لیکن روایت کے نقطہ نظر سے ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو شاعری سے ما بعد الطبعیات کو خارج کیا۔
ایک مثال نثر کی بھی لیجئے۔ سرشار کا نام تو ہم اردو نثر کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل کرتے ہیں۔ مگر فسانہ آزاد کے ایک ٹکڑے پرغور کیجئے۔ میاں آزاد ایک ریشائل کو دیکھتے ہیں کہ وہ بچوں کی ایک ٹولی کو ساتھ لے کرہلڑ مچا رہے ہیں۔ کبھی کھیرے بیچنے والے کا ٹوکرا پانی میں الٹ دیتے ہیں۔ کبھی شکاری کے پرندے چھین کر اڑا دیتے ہیں۔ آخر میں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایسی حرکتیں بچوں کی تندرستی ٹھیک رکھنے اور انسانی ہمدردی کی خاطر کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ سرشار نے بنیادی نقشہ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کے واقعے سے لیا ہے، مگر اسے ما بعد الطبعیات کے بجائے حفظان صحت کے اصول سکھانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیجئے کہ یہ روایت ہے یا کچھ اور۔
نئے شاعروں نے تو خیر شعوری طور پر روایت کی خلاف ورزی کی ہے مگر نئے شاعروں میں سے فیض کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے اردو شاعری کی روایت کو محفوظ رکھا ہے۔ ان کا بھی ایک مشہور مصرعہ لیجئے۔
ہم پرورش لوح قلم کرتے رہیں گے
یہ بڑی اچھی شاعری ہے اور الفاظ بھی روایتی ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں۔ لیکن کیا اس کا مفہوم بھی روایتی ہے؟
ان سوالات پر آپ خود غور کریں۔ میرا مقصد تو صرف یہ دکھانا تھا کہ روایت کا مطلب صرف ایک ہی ہو سکتا ہے۔ اسے چھوڑ کر روایت کو محفوظ رکھنے یا دوبارہ زندہ کرنے کی باتیں محض جذباتی خارش ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
مأخذ :
مجموعہ محمد حسن عسکری