"اپنی روایات کے دفاع میں یہ دلیل دینا کہ یہ ہمارے آباء کی روایات ہیں اس لئے کام کر جاتا ہے کہ آباء اب زندہ نہیں۔ وہ قبروں سے نکل کر بتا نہیں سکتے کہ ہم ایسے نہیں تھے"
-حراری
دنیا میں وہ کونسا گروپ ہے جو خواتین کو بالکل الگ تھلگ رکھتا ہے؟ نہیں، اس کا جواب وہ نہیں جو آپ کے ذہن میں آیا۔ یہ الٹرا آرتھوڈوکس یہودی ہے۔ یہودیت دنیا کا آٹھواں بڑا مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد میں ایک چھوٹی تعداد وہ ہیں جو آرتھوڈاکس یہودی ہیں۔ یہاں پر مرد و خواتین اس قدر الگ رہتے ہیں کہ محفل میں داخلے کے لئے دروازے بھی الگ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اگر نیویارک سے تل ابیب کی فلائیٹ لینا ہو تو ایک مسئلہ ہر فلائٹ میں درپیش ہوتا ہے۔ سارے مسافر بیٹھ چکے ہوں گے، سیاہ ٹوپی پہنے کچھ افراد جہاز میں بس خاموش کھڑے ہوں گے اور بیٹھنے سے انکار کر دیں گے۔ یہ وہ آرتھوڈوکس یہودی ہیں جن کی نشست کسی خاتون کے ساتھ آ گئی ہو۔ جب تک سب آگے پیچھے نہ ہو جائے، یہ کھڑے ہی رہیں گے۔ یہ مسئلہ اسرائیل کی طرف جانے والی ہر فلائیٹ کا ہے۔ (اس طرف جانے والی کسی بھی ائیرلائن کا فلائٹ سٹیورڈ اس ناخوشگوار تجربے کا بتا دے گا) اور ایسا معاملہ صرف اسرائیل جانے والی فلائیٹس میں ہی ہوتا ہے۔
اس پس منظر کے ساتھ نیچے دی گئی پہلی تصویر۔
اس میں عالمی لیڈر فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف اکٹھا مارچ کر رہے ہیں۔ جرمن چانسلر انجیلینا مرکل اس میں فلسطینی صدر محمود عباس اور فرانس کے صدر ہالینڈے کے درمیان ہیں۔ دوسری تصویر الٹرا آرتھوڈاکس اخبار ہامیوار سے ہے۔
اس نے خبر تو دکھائی اور تصویر بھی لیکن جرمن سربراہ کو فوٹو شاپ کر دیا۔ اس میں لگتا ہے کہ محمود عباس اور ہالینڈے کے بیچ میں کوئی نہیں۔ اخبار نے ایسا کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ پالیسی کے مطابق وہ خواتین کی تصاویر نہیں دکھا سکتا۔ (محمود عباس سے ان کے تعلقات کچھ اچھے نہیں لیکن فوٹوشاپ کا شکار اس لئے نہیں ہوئے کہ وہ خاتون نہیں)۔ ایک اور اخبار ایک اہم واقعے کی رپورٹنگ میں ہلیری کلنٹن کی تصویر کو بھی اسی طرح فوٹو شاپ کر چکا ہے۔ اس کی دلیل بھی یہی دی تھی کہ ہم روایات پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ خواہ امریکی سیکرٹری خارجہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ایسا کرنا ہماری پرانی ثقافت پر ضرب ہے۔ یہ ایک فیملی اخبار ہے جس کو بچے بھی دیکھتے ہیں۔
یہ روایت خود ٹھیک ہے یا نہیں، انجیلا مرکل کی تصویر دیکھنا بچوں کے لئے مناسب ہے یا نہیں، یہ سب الگ بحث ہے۔ لیکن یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی خود ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ اگر آج اگر کسی یہودی عبادت گاہ میں جایا جائے تو مرد و خواتین کے درمیان مکمل پردہ ہوتا ہے لیکن پرانے سناگاگ جب آرکیولوجسٹس کو ملے ہیں تو نہ صرف وہاں پر ایسا نہیں تھا بلکہ خواتین کی تصاویر کی نقش و نگاری بھی پوری عمارت میں ملتی ہیں (آج کے سناگاگ میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا)۔ ان کے لباس بھی آج کی آرتھوڈاکس یہودی خواتین کے مقابلے میں کچھ کم تھے۔
اگرچہ آج کے یہودی اس سے اختلاف کریں گے لیکن کئی بار جن روایات کا تحفظ اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ یہ روایات پرانے وقتوں سے چلی آ رہی ہیں، وہ خود اپنے آباء کی روایات نہیں تھیں۔ ان کا آباء کی روایات ہونا ہامیوار اخبار کی پالیسی بنانے والے کے ذہن کا تصور ہے۔